اہلِ غزہ تم پر سلام ہو

جب موت کی تلاش میں نکلتی ہے زندگی۔۔۔۔۔ !


فوٹو : فائل

سب فلسفے دھرے رہ جاتے ہیں، بودی دلیلیں منہ تکتی رہ جاتی ہیں، بے روح پندونصائح بے اثر ہوجاتے ہیں، مکاری و عیاری میں لپٹا زورِ خطابت دم توڑ دیتا ہے، اہلِ منبرومحراب دنگ رہ جاتے ہیں۔

جبّے، عمامے اپنی شان و شوکت کھو بیٹھتے ہیں، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگتے ہیں، زمین تھرانے لگتی ہے، ساری حکمتیں ناکارہ اور سارے منصوبے نابود ہو جاتے ہیں۔ ذلیل دنیا کے چاہنے والے کُتے دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، اہلِ حشمت و شوکت منہ چھپانے لگتے ہیں، محلات بھوت بنگلے بن جاتے ہیں، منظر بدل جاتا ہے، موسم بدلنے لگتا ہے، آسمان حیرانی سے تکتا ہے، شجر میں بیٹھے ہوئے پرندے اور جنگل میں رہنے والے درندے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔

جب دیوانے رقص کرتے ہیں، جنوں اپنے گریباں کا عَلم بنا کر نکل پڑتا ہے۔ پھر عقل خود پر شرمندہ ہوتی ہے۔ جب عشق اپنی جولانی پر آتا ہے، نعرۂ مستانہ بلند سے بلند تر اور رقصِ بسمل تیز سے تیز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب موت کی تلاش میں نکلتی ہے زندگی۔ سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ لیکن۔۔۔۔! لیکن ہمیں نظر نہیں آتا۔ آئے بھی کیسے! ان دیدوں میں بینائی کہاں ہے۔

روشنی کہاں ہے؟ روشنی اور بینائی تو اندر سے پھوٹتی ہے۔ جی۔۔۔۔! اندر سے، دل سے۔ اور جسے ہم دل سمجھ بیٹھے ہیں وہ تو صرف خون پھیلانے کا پمپ رہ گیا ہے۔ دل کہاں ہے۔۔۔۔؟ نہیں! یہ دل نہیں بس اک لوتھڑا ہے۔



جن کے دل دھڑکتے ہیں وہ زمانے سے آگے چلتے ہیں۔ نعرۂ مستانہ لگاتے ہیں، سر بہ کف میدان میں اترتے ہیں۔ موت کو للکارتے ہیں اور موت ان سے خائف ہو کر کہیں چھپ کر بیٹھ جاتی ہے۔ یہ دیوانے اور پاگل لوگ موت کو موت کے گھاٹ اتارنے نکلتے ہیں اور پھر زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں۔ زندہ جاوید۔۔۔۔ پھر رب کریم جلال میں آتا ہے اور حکم دیتا ہے: مردہ کہنے والو! ایسا خیال بھی مت کرنا، خبردار! جو ایسے سوچا بھی۔ زندہ ہیں، امر ہیں، رزق پاتے ہیں، زندہ و جاوید لوگ۔۔۔۔امر لوگ، رب کے حضور اپنی نذر پوری کر دینے والے، اپنا عہد نبھانے والے لوگ، صلہ و ستائش سے بے پروا لوگ، پاگل و دیوانے لوگ۔

کہاں نہیں برپا یہ معرکۂ عشق و محبت، کہاں نہیں برپا ؟ روئے ارض پر چاروں طرف سجا ہُوا ہے میلہ۔۔۔۔ اور میلہ لوٹنے والے دیوانے۔ ہم صرف تماشائی، نوحہ گر اور مرثیہ خواں۔

اب گنواؤں گا تو تکرار ہوگی اور طبعٔ نازک پر گراں گزرے گی۔ یہ تو سامنے برپا ہے معرکہ عشق۔ یہ غزہ میں نہیں دیکھ رہے آپ! انھیں کہتے ہیں انسان، بندۂ رب، سب کا انکار کردینے والے پراسرار بندے، موت کو سینے سے لگا کر زندہ ہو جانے والے، اپنا خون، اپنی جان، اپنے پیارے رب کی نذر کر دینے والے، قافلۂ حسینؓ کے لوگ، قافلۂ عشق و مستی۔

اہلِ غزہ تم پر سلام ہو، یہ ہے اطاعتِ رب میں جاں سے گزرنا۔ تم نے ثابت کر دیا تم ہو بندگانِ خدا۔۔۔۔

اہلِ غزہ! تم پر سلام ہو۔ ہم سب دیکھتے رہ گئے، اور تم اپنی مراد پا گئے۔

اے بامراد لوگو! تم پر سلام ہو۔

اے خوش نصیب لوگو! تم پر سلام ہو۔

اے اس دنیائے ذلیل و ناپائیدار کو ٹھوکر مارنے والو! تم پر سلام ہو۔

اور اے اس دنیائے مکر و فریب کے اسیرو۔۔۔۔! آنکھیں کھولو۔۔۔۔!

آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والو! آنکھیں کھولو۔ یہ دیکھو یہ دل کش منظر، سونگھو اس خوش بُو کو، جو خوش بُوئے خون شہداء ہے۔ آنکھیں کھولو اور دیکھو اس خاک پر پڑی ہوئی معصوم کلیوں کو، کڑیل نوجوانوں کو، عفت مآب عورتوں کو، بوڑھوں کو، جوانوں کو۔ دیکھو یہ ہے زندگی۔۔۔۔ سب کا انکار کر دینے والے دیوانوں کو، صرف رب کی مالا جپنے والے اہل وفا و صفا کو۔

کوئی نہیں روک سکتا اب اس قافلۂ راہِ حق اور عشق و مستی کو۔

اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانیت کے نام نہاد علم برداروں کے منہ پر تھوک دینے والو! تم پر سلام ہو۔

کیا آپ جانتے ہیں، کبھی سوچا ہے ہاتھی گھاس کا گٹھا اپنی سونڈ میں پکڑ کر بار بار جھٹکتا کیوں ہے؟ اس لیے کہ کہیں اس گھاس میں چیونٹی نہ ہو۔

وہ جانتا ہے کہ اگر وہ چیونٹی کو نگل لے تو وہ اس کے دماغ میں جا کر بیٹھ جاتی ہے اور اپنا ننھا سا پاؤں مارتی رہتی ہے اور ہاتھی دم توڑ دیتا ہے۔ غزہ کے شیروں کو اسرائیلیوں نے چیونٹی سمجھ کر مسلنا چاہا تھا۔ وہ چیونٹی ان کے ہاتھی جیسے جثے کو نابود کر دے گی۔ ہاں یہ بات اب اسرائیلیوں کو بھی سمجھ آ گئی ہے، ہمیں اب تک سمجھ نہیں آئی۔ مزاحمت ہی میں ہے زندگی۔۔۔۔ باوقار و قابلِ رشک زندگی۔

غزہ کے باسی محمود نے اپنے سات ماہ کے بچے کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے بتایا:

''میں رات کو بچوں کو کہانی سناتا ہوں، انھیں اپنے نزدیک رکھتا ہوں اور انھیں بتاتا ہوں کہ ہم مرنے والے نہیں ہیں۔''

احمد دوران نے کہا: ''جب بھی ہمارے گھر کے اردگرد کوئی بم پھٹتا ہے تو میں اپنی تین سالہ بچی کے سامنے ناچنا شروع کر دیتا ہوں۔ میری بچی بم باری کو اب کھیل سمجھنے لگی ہے۔''

موت کو کھیل سمجھنے والو! تم پر سلام ہو۔

اے دنیا کے اسیرو! دنیائے ذلیل کی چاہت میں خوار ہونے والو! اے نام نہاد اسلامی ریاستوں کے بے حمیت حکم رانو! بے حسی کے مجسمو! دیکھو یہ ہے زندگی۔

اہلِ غزہ تم پر سلام ہو۔

وہ دیکھو شہداء کے خون سے پھوٹنے والی سحر۔ دیکھو! آنکھیں چرانے سے یہ انقلاب نہیں رکتا۔ اپنے محلات کو بچانے کی آخری کوششیں کر لو۔۔۔۔! نہیں بچیں گے یہ، رب کعبہ کی قسم کچھ بھی نہیں بچے گا۔

وہ دیکھو اقبال آیا:

از زلزلۂ می تر سند ہما کاخ نشیناں

ما خانہ بہ دوشم غمِ سیلاب نہ داریم

(امراء کے محلات پر زلزلہ طاری ہے۔ خانہ بہ دوش سیلاب کا غم نہیں پالتے)

اے کیمپوں میں پیدا ہونے والو، در بہ در ہوجانے والو، برستے بارود میں رقص کرنے والو، بھوک و پیاس کے عادی جری لوگو، خاک بہ سر رہنے والو! تم پر سلام ہو۔ اے اہلِ غزہ! تم پر سلام ہو۔



اے اس مٹ جانے والی ذلیل دنیا کے پرستارو! بچا سکتے ہو تو بچا لو۔ کچھ نہیں بچے گا۔

کوئی بھی تو نہیں رہے گا۔۔۔۔۔ بس نام رہے گا اﷲ کا۔

خوفِ تادیب سے مظلوموں پہ رویا نہ گیا

شامِ مقتل میں کوئی بھی نہ عزادار اٹھا

سامنے تیرے زرافشاں ہے نئی صبحِ امید

اپنی پلکوں کو ذرا دیدۂ خوں بار اٹھا

اور سنو! دنیا کے چاہنے والو سنو! سنو اے حقوق انسانی کا راگ الاپنے والو سنو! سنو اے حق خودارادیت کا ڈھونک رچانے والے مفاد پرستو! سنو اور غور سے سنو! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہاری بے سر و پا تسلیوں سے، تمہارے رچائے ہوئے ناٹک سے، تمہاری دکھاوے کی اچھل کود سے اہل فلسطین پھر سے تمہارے فریب میں آجائیں گے۔۔۔۔ ؟ اس مرتبہ ایسا لگتا تو نہیں ہے کہ ایسا ہوگا، اس لیے کہ وہ جان چکے ہیں کہ

اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ٹوٹا بدن اپنا

کہ جب تک سانس چلتی ہے، کوئی کاندھا نہیں دیتا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔