زباں فہمی نمبر194 روہِیل کھنڈیرام پوری اردو حصہ سوم
بھَدّ: ذلّت، بے وقعتی، بدنامی، نیز کسی شے کے ریت وغیرہ میں گڑنے کی آواز
پچھلی قسط میں راقم نے ''روہیل کھنڈ اُردو لغت'' سے خوشہ چینی کرتے ہوئے مندرجہ ذیل لفظ کی تعریف مختصراً بیان کی تھی:
بِلّی: جانور اور دیگر معنی میں دروازے میں اٹکا کر کِواڑ بند کرنے والی چھوٹی لکڑی جسے بَلِیّا بھی کہتے ہیں۔ خاکسار کے حلقہ احباب میں بات چلی تو میرے بزرگ معاصر محترم شہاب الدین شہاب ؔ صاحب نے بتایا کہ یہ لفظ بمعنی چھوٹی کُنڈی، غالباً میرٹھ میں بِلّی ہی ہے مگر، روہیل کھنڈ کے دیگر علاقوں بشمول بریلی میں 'بِلبِلی' بولا جاتا ہے، جبکہ بریلی میں بڑی کُنڈی کو 'ڈنڈیلا' کہتے ہیں۔
یہاں ایک اور انکشاف ہوا۔ ایک دوسرا لفظ ہے، ''بَلّی'' بے پر زبر اور لاف پر تشدید کے ساتھ ; استاد گرامی، (سابق ڈرائنگ ٹیچر، مسلم اسکول، دستگیر سوسائٹی، فیڈرل بی ایریا، کراچی) ممتاز شاعر جناب عادل ؔ فریدی نے اس کی بابت یہ ارشاد فرمایا:
''بَلّی (تشدید سے) لمبی درخت کی شاخ، یہ کھپریل اور جھونپڑے ڈالنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ بَلّی گاڑنا (مشہور ہونا) محاورہ تھا۔ کھاٹ (چارپائی) سے بڑے پلنگ کو ''کھٹا'' کہتے تھے۔ یہ بھی شہرت کی علامت تھا جیسے بدھن خاں کا کھٹا (غالباً استادمحترم کی مراد یہ ہے کہ معاشرے میں اعلیٰ مقام کے حامل لوگوں کے پاس ہی ایسا بڑا پلنگ ہواکرتا تھا: س اص)۔ ایک لفظ لنڈورا عام خاص طور پر خواتین استعمال کرتی تھیں بمعنی غیرشادی شدہ اے وہ تو اب تک لنڈورا پھر رہا ہے۔
(اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا: س ا ص)۔ کنڈی عام تھی (یعنی) دروازے کی زنجیر، اُسی سے کنڈا تھا، تالاب کو بھی کہتے تھے، اس کے نام سے ایک محلہ موجود ہے (یعنی رامپور میں: س اص) محلے کو ٹولا/ٹولہ بھی کہا جاتا تھا جیسے باجوڑی ٹولہ (یعنی) جہاں باجوڑ (پاکستان) کے رہنے والے (سابق باشندے) رہتے تھے''۔
بُوتا: زور، طاقت، قوت نیز رامپوری اردو میں کسی پر انحصار کرنا، تکیہ کرنا جیسے ''میرے بُوتے پر مت رہیو''۔ یہاں ایک اور لفظ 'بِرتا' یاد آتا ہے جو شاید وہاں عام نہ ہو۔
بوغما: کپڑوں کا بے ترتیب، گٹھری کی شکل میںبندھا ہوا ڈھیر۔ اگر کسی کی طرف سے کوئی رنجش دل میں ہوتو کہتے 'وہ فُلاں کی طرف سے دل میں بوغما لیے بیٹھی ہے' (غالباً زنانہ بولی ہے: س ا ص)۔ عام لغوی معانی میں بیہودہ، ناچیز، بے حقیقت اور گھوڑوں کی ایک مہلک بیماری، نیز اَلا بَلا، کوڑا کَرکَٹ۔
بھانتو: (کلمہ تحقیر): ایک مخصوص جرائم پیشہ قوم، نیز کوئی بھیانک اور وحشی آدمی۔
بَہَتّا: بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا (''بائیں ہاتھ والا'' کا مخفف: س اص)، رامپور میں ایک پتنگ باز اَچھّن خان بَہتّے مشہور تھے۔
بھٹخ: سوراخ، نسبتاً بڑا سوراخ ، مگر بھَٹّے (بھَٹّا) سے چھوٹا۔
بھَدّ: ذلّت، بے وقعتی، بدنامی، نیز کسی شے کے ریت وغیرہ میں گڑنے کی آواز۔ (یہ پچھلی قسط میں لکھ چکا ہوں، مگر اب مزید وضاحت کررہا ہوں );پہلے معنی کی مثال: ''اس بات سے اُس کی بڑی بھَدّ ہوگئی'' (ہمارے یہاں سننے میں آتا 'بھدّ اُڑگئی': س اص)، دوسرے معنی میں مطلب ہے، دھڑام سے گرپڑنا جیسے وہ بھدّ سے گرپڑا۔
بھَرّا دینا: (یہ پچھلی قسط میں لکھ چکا ہوں، مگر اب مزید وضاحت کررہا ہوں) رامپور میں ایک دم ڈھیل دینے کے مفہوم میں بولاجاتا ہے (غالباً یہاں مراد پتنگ بازی سے ہے، ویسے ہمارے یہاں کسی شخص کا کسی کو غیرضروری طور پر مرعوب کرنے کے لیے کوئی دعویٰ کرنے یا بڑا بول بولنے کو بھی 'بھرّا دینا' کہا جاتا ہے، شاید یہی ہندوستانی فلموں میں 'بھرم دینا' ، 'بھرم دکھانا' اور 'بھرم مارنا' بمعنی غیرضروری رُعب جھاڑنا بن گیا جو ہمارے یہاں بھی عوامی بولی یاSlangمیں رائج ہوگیا: س ا ص)۔
بھرلی: تیار کرلی، خصوصاً کوئی بات ذہن میں سوچ لینے یا طے کرنے کے معنوں میں، نیز کوئی پروگرام بنانا اور ''جھوٹی سچی'' کہنے کے معنوں میں مستعمل ہے۔
بھُس کردیا: تنکا تنکا کردیا یعنی بالکل توڑ کر رکھ دیا، جیسے 'مارمار کے بھُس کردیا'۔ یہ عام رواج میں رہا ہے، مگر شاید اب بہت سوں کے نزدیک نامانوس ہو۔
بھگل: بہروپ اور بھیس، جیسے ''ارے یہ کیا بھگل بنارکھا ہے''۔
بھولا بھُگّا: بظاہر بہت سیدھا معصوم نظر آنے والا جو حقیقت میں اس کے برعکس ہو، بِیلا بنا ہوا (یہ بھی رامپوری ہی ہے: س اص)
بھِنّو: بہن کا مخفف، پیار بھرے لہجے میں تخاطب۔ ہمارے خاندان میں، یوپی اور پنجاب کے مخلوط رواج کے مطابق یہ لفظ رائج ہے اور خاکسار نے اپنی نانی ودیگر خواتین کے علاوہ اپنے ایک رشتے کے ماموں، رفیع احمد علوی مرحوم (پاکستان کے کہنہ مشق Photojournalist، انگریزی صحافی) اور اپنی والدہ مرحومہ کے چچا جیسے متعدد بزرگوں سے بھی بارہا سُنا۔
بَیٹری: رامپوری میں کانے کو کہتے ہیں۔
بَیرا بھِنڈ: بہت زیادہ بہرا، نیز ''بَیرا پَٹ'' یعنی ایسا شخص جو لاکھ شورمچانے، چیخنے چلّانے پر بھی کچھ نہ سن پائے۔ ہمارے والد مرحوم (تعلق میرٹھ ) 'بہرابھِنڈ' بولاکرتے تھے۔
بِیرن: بھائی کو والہانہ انداز میں مخاطب کرنے کا بہنوں کا طریقہ، نیز اپنے برابر یا چھوٹی عمر والے کے لیے بطور اظہارِمحبت مستعمل۔
بھَیّے: بھائی کی تصغیر۔ ایک بھائی کا دوسرے کو پیار سے مخاطب کرنے کا کلمہ۔ عموماً اپنے برابر یا عمر میں کچھ چھوٹے کو بھیّے کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ یہ یو پی میں دیگر مقامات پر بھی مستعمل ہے۔
بِیلا: سب کچھ جانتے ہوئے انجان بنا رہنے والا، سمجھ دار، بہانہ باز، مکّار، نیز لہجے کے فرق سے پیار بھرے تخاطب میں رائج۔
بَیلا: انڈے نہ دینے والی مرغی۔
بے مانٹی: بے ایمانی، خصوصا ً کسی کھیل میں۔ (راقم کی معلومات کے مطابق یہ بچکانہ بولی میں عام مستعمل ہے، ہم نے اپنے بچپن سے سنا: س ا ص)۔
بے مانٹی خور: بے ایمان۔ ایضاً۔
بِینڈیا (کلمہ تحقیر): موٹا تازہ کالا کلوٹا، بھینسے جیسا آدمی، لغوی اعتبار سے بیل، گاڑی میں جوتا جانے والا تیسرا یا پانچواں بیل۔
بَینگا (کلمہ تحقیر): بے وقوف، بے ڈھنگا۔
پارے: پیارے کا مخفف، بہت زیادہ پیار جتانے کے لیے ، گویا دل کا ٹکڑا۔ اپنے چھوٹے کو نیز کسی کو پیار سے مخاطب کرنے کے لیے بولاجاتا ہے۔ قدیم اردو میں یہ لفظ بجائے 'پیارا ' مستعمل تھا۔ ہمارے یہاں بھی خصوصا ً خواتین کی بولی میں بہت زیادہ سننے میں آیا۔
پارہ/پارے: قرآن مجید کا سِپارہ (سی یعنی تیس اور پارہ یعنی ٹکڑا)۔ یہ بھی دیگر مقامات پر عام ہے۔
پَتّے ٹٹولنا: کسی معاملے میں خواہ مخواہ، بات سمجھے بغیر اِدھر اُدھر ہاتھ مارنا یعنی بیکار کی تلاش۔
پَٹاخا/پٹاخہ: چنچل، چلبُلا معشوق، نوعُمر، نوخیز، پشتو میں پٹاخو۔ یہ بھی دیگر مقامات پر عام ہے۔ کسی کا شعر ہے:
تحفہِ شب برات کیا بھیجوں؟
جانِ من تم تو خود پٹاخہ ہو
پُٹَروا: چھوٹا سا، خوبصورت، تندرست بچہ ، جیسے ''ماشاء اللہ ! کیسا پُٹَروا سا بیٹھا ہے۔
پَٹھَن وَلی: اکڑ فُوں، غیرت داری، روہیل کھنڈی میں پٹھانوں کی سرشت میں موجود ضِد کے مادّے کو، گویا کھرے پٹھان ہونے کی پہچان کے طور پر بھی اس عادت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خاکسار نے یہاں کراچی میں پٹھان اہل قلم کی تحریروں میں یہ اصطلاح دیکھی ہے۔
پَٹّی دینا/پَٹّی پڑھانا: دھوکا دینا، جھانسہ دینا۔ (یہ وہی ہے جو کراچی کی عوامی بولی ٹھولی [Slang]میں 'گولی دینا' بولا جاتا ہے یا ٹوپی کرانا: س ا ص)
پِچھ لَگّو ُ(پِچھ +لگ گُو) (کلمہ تحقیر): طفیلی، ہر وقت کا ساتھی، ہروقت چپکے رہنے والا۔
پَخ پَلے: مذاق اُڑانا، پیچھے پڑنا۔ یہاں کراچی میں کہیں سنائی دیا تو خاکسار نے کئی پختون حضرات کے سامنے دُہراکر پوچھا، انھوں نے ہنس کر کہا کہ پشتو میں یہ کوئی چیز نہیں!
پَدَر پَدَر: ڈرکے بھاگنا جیسے'' وہ پَدَر پَدَربھاگ گیا''۔
پھَٹِیچَر: خستہ حال جیسے ''وہ تو آج کل حلیے سے بھی پھَٹِیچَر نظر آرہا ہے''۔ روہیل کھنڈ اُردولغت کے مؤلف جناب رئیس رامپوری نے لکھا تھا کہ ''لغت میں یہ لفظ نہیں ملا''، تو عرض یہ ہے کہ جدید اردولغت میں شامل ہوچکا ہے جو اُردولغت بورڈ نے شایع کی ہے، جبکہ یہ لفظ محض اُسی علاقے سے مخصوص نہیں، کراچی کی عوامی بولی ٹھولی [Slang] میں بھی عام ہے۔
پِچَیت: چالاک، عیار، داؤں پیچ کرنے والا، کشتی گیِر، چال باز، فریبی، نیز فریب کے داؤں سے واقف شخص۔
پَرپَٹیوں: بہت تیز بھاگنا جیسے ''ارے! وہ تو پَرپَٹیوں ہوگیا''۔ (میرے خیال میں یہ 'چپمپت ہوجانا' ہی کا دوسرا رُوپ ہے: س ا ص)
پِشّو، پِشّی: بلّا اور بلّی۔ افغانستان کی پشتو میں بِلّے کے لیے پِشّے اور بلّی کے لیے پِشّی مستعمل، نیز پِشّو دونوں کے لیے، جبکہ رامپور میں بلّی کو پِشّو اور پِشّی، جبکہ بلّے کو پِشوا کہتے ہیں۔ بلّی کو بُلانے کے لیے پشتو میں ''پُش پُش'' (جو ہمارے یہاں پُچ پُچ ہوگیا ہے: س اص)، اور بھگانے کے لیے پِشے پِشے اور پِشّہ کی آواز مستعمل، جبکہ رامپور میں بھی یہی دھتکار مروج ہے۔ عام لغوی معنی میں بچوں کے پیشاب کے لیے 'پِشّی' استعمال ہوتا ہے ، مگر رامپور میں 'اِش کرنا' بولاجاتا ہے، جیسے ''بیٹے! کیا اِش آرہی ہے'' ۔یا۔ ''بیٹے! چلو اِش کرلو''۔
پَکار: پشتو میں بمعنی کارآمد، فارسی کے ''بَکار'' کی تبدیل شدہ شکل۔ رامپور میں منفی معنی میں مستعمل ہے اور زنانہ بولی میں زیادہ، جیسے ''فُلاں چیز میرے کس پکار کی ہے''۔ اسی طرح عورتوں میں 'ناپکار' اور 'ناپکارہ' بمعنی ناکارہ مروج ہے۔
پَلِتھّا: پلتھّی یعنی دونوں پاؤں اندر کی طرف، گھُٹنوں سے موڑکر آرام سے بیٹھنا۔ (یہ ہمارے یہاں پَلَتھّا یا پَلَتھّی مارکر بیٹھنا کہلاتا ہے: س اص)۔
ِ پِلَنٹیوں: اَن گنت، بہت زیادہ تعداد میں، جیسے ''وہاں تو پلنٹیوں لوگ جمع تھے''۔ (راقم کی رائے میں اس کا براہ راست تعلق انگریزی کے Plenty سے ہے جس کا استعمال بہت زیادہ، کثیر اور کافی کے معنوں میں ہوتا ہے: س ا ص)
پَلّی طرف: اُس طرف۔ (یہ ہمارے دادا جان اور والد گرامی مرحومین بھی بولا کرتے تھے: س ا ص)
پِلَج کے /پِلچ کے: انتہائی طاقت سے، زور سے، جیسے ''ہاں بھیّے! ذرا پلچ کے چوٹ مار!''۔ رامپور میں کھیلے جانے والے گیڑیوں کے کھیل میں بھی یہی چوٹ، لغوی معنی میں مضبوطی سے، جم کر، پوری طاقت سے۔ شعر:
مارے تھے گومنجھے ہوئے اُس نے پلچ کے ہاتھ
کھائی مگر شکست ، رہی فتح سچ کے ساتھ
پنجاب: صحیح لفظ ''پنج آیات'' یعنی قرآن شریف کی پانچ آیات پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنا۔ خاکسار کا گمان ہے کہ مؤلف لغت نے شاید 'پنجات' کو پنجاب لکھ دیا۔
پَنچھُلّا (پن چھل لا): پنچھالہ یعنی وہ شخص جو ہمہ وقت ساتھ رہے، غالباً دُم چھَلّا کے مترادف۔ پتنگ کے آخر ی سرے میں باندھا ہوا پھُندنا بھی پَنچھُلا کہلاتا ہے۔
پَورَکھ: لغوی معنی میں پورا کرنے والا، مجازاً شوہر، مگر رامپوری میں ہمت اور سکت کے مفہوم میں بولا جاتا ہے جیسے ''تجھ میں اگر یہ کام کرنے کی پورکھ ہو تو آگے بڑھ!'' ۔یا۔ ''اُس میں اتنے پورکھ کہاں کہ وہ فُلاں کام کرسکے''۔
پُوسا: بھولے بھالے شخص کے لیے اظہارَتخاطب۔ پشتو میں احمق، نادان کو کہتے ہیں۔
پُھوٹ: چلے جانے، دفع ہوجانے، ہٹ جانے، نکل جانے کے لیے کہتے ہیں: ''ارے چل پھُوٹ!''، ''پھُوٹ لیے'' یعنی نکل لیے (نکل بھاگے: س اص)، چل دیے، جیسے ''دفعتاً باب العزیز کی طرف پھُوٹ لیے''۔ (یہ ہمارے یہاں بھی عام رائج ہے: س اص)
پوئی: کسی کا بہت تیز بھاگنا، جیسے ''اُس نے جب دیکھا کہ یہاں خطرہ ہے تو وہ تو پوئی ہوگیا'' یعنی بہت تیز بھاگ گیا۔ (فارسی میں پوئیدن مصدر کا مطلب ہے بھاگنا، اسی سے مشتق ہے :تگ و پو اور تگاپو۔ س اص)۔ گھوڑے کی ایک تیزرَو چال کو بھی پوئی اور پوئیا کہتے ہیں، جب وہ پچھلے دونوں پیر یا اگلے دونوں پیر ایک ساتھ اُٹھا کر کودتا اور آگے کو ڈالتا ہے۔ یہ عام لغوی معنی ہیں۔
پھُٹکل: بلامحنت ومشقت کسی چیز کا حاصل ہونا، Free میں، جیسے ہلدی لگے نہ پھٹکری، مثال: وہ تو پھُٹکل میں ہِیرو بن گیا۔
پھُوَڑیا: پھُوہڑ، پھوہر اور پھوئڑ کی ایک اور شکل۔ معانی: بے سلیقہ، بدتہذیب، گھامڑ۔
پھوکٹ: مفت کی چیز، بلاقیمت شے، جیسے ''یار! تُو تو پھوکٹ کے مال کی فکر میں رہتا ہے''۔ یہ پھوک یعنی کسی چیز کا رس نکال لینے کے بعد باقی رہ جانے والے مادّے سے بنا ہے۔ (یہ ہماری عام بول چال میں بہت عام ہے اور کراچی تابمبئی عوامی بولی یا Slang میں ہر کوئی سمجھتا ہے۔ پھوک سب سے زیادہ گنّے کا مشہور ہے اور انگریزی میں دیکھیں تو زیتون کا پھوک یعنی Pomace or marc جس کا روغن یعنی تیل Pomace Olive Oil مالش کے لیے استعمال ہوتا ہے: س اص)
پیٹنا: لگاتار کسی بات پر چیختے رہنا، جیسے ''کیا پیٹنا مچارکھا ہے''۔ (ہمارے یہاں کے لحاظ سے رونا پیٹنا کہیں گے: س اص)
پیرزونہ: رامپوری خواتین کی بولی میں اس سے مراد محبت اور خیال ہے جیسے کسی کے تحفے کی وصولی پر کہنا کہ ''تھوڑے بہت کا کیا دیکھنا، اُن کا ہم پر پیرزو تو ہوا ''یا اَزراہِ شکایت'' واہ بہن! ہم پر فُلاں چیز کا پیرزو نہ ہوا ''یا ''پیرزونے میں خاک کی چُٹکی بھی بہت ہے''۔ اصل میں پشتو الفاظ ہیں، پیرزو، پرزو، پیرزونہ : پہلے دو کے معانی مشتاق، موزوں اور مناسب کے ہیں، جبکہ آخری دو سے مراد اشتیاق اور موزونیت ہے۔
پیزوان: نتھ یا نکیل۔ پشتو لفظ ہے۔ جب کوئی شخص کوئی بات باربار دُہرائے یا کوئی چیز باربار مانگے تو رامپوری خواتین کہتی ہیں ''تم نے تو اِس کو میری ناک کا پیزوان بنالیا''۔
پیغلہ: کنواری لڑکی۔ پشتو میں بھی یہی معنی۔
پیغور: پشتو میں طعنہ، تشنع، زنانہ بولی میں ''فُلاں عورت کیسا پیغور مارگئی''۔
پے مُکھا: پشتو کے مرکب لفظ پئی (دودھ یا عرق) اور مُخ (چہرہ) کا مخرب یا بگاڑ۔ پئی مخے خوبصورت مرد کے لیے اور پئی مخہ عورت کے لیے، نیز بے ڈاڑھی مونچھ والے لڑکے کو افغان لوگ پئی مخے کہتے ہیں، یہی لفظ بعد میں بگڑ کر پے مُکھا ہوگیا۔ (ضمنی بات یہ ہے کہ پشتو کا مُخ اور ہندی کا مُکھ مترادف ہیں: س اص)
پے وَر: انگریزی لفظ Pure بمعنی خالص کا بِگاڑ۔
تار روٹی: تارتندوری، عام تنوری /تندوری یا توے والی روٹی سے بڑی جو تقاریب خصوصاً محفل نیاز میں بڑی بڑی دیگوں میں پکائے جانے والے ''تار'' یعنی شوربے یا سالن کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔ اس پکوان میں گوشت، پانی اور چکنائی، مصالحے ڈال کر ایسے پکایا جاتا تھا کہ اسے کھانے والا کھانے کے درمیان یا بعد میں پانی نہ پیتا، بلکہ سالن کے کئی کئی پیالے پی جاتا تھا۔ جدید دور میں یہ پکوان ویسا نہیں رہا، بلکہ قورمے جیسا ہوگیا ہے۔
تِتّو بِتّو: جیسے تیسے، نیز جُگاڑ، جیسے ''اُس نے تو تِتّو بِتّو کرکے اپنا گھر بنالیا ہے''۔
تَل پہ تَل چَڑھے چَڑھائے: پشتو میں تَل کا مطلب ہے 'نیچے'۔ روہیل کھنڈ میں یہ بچوں کا ایک کھیل ہے جس میں ایک بچہ دوسرے کی پیِٹھ پر سوار ہوکر، مَرکَب کو اِدھر اُدھر پھِراتا ہے اور مَرکَب ہر آنے جانے والے سے پوچھتا ہے کہ ''چچا! تَل پہ تَل یا چَڑھے چَڑھائے؟'' اگر جواب میں کہا جائے،''چَڑھے چَڑھائے'' تو سوار اور سواری اپنی اپنی جگہ اُسی حالت میں برقرار رہیں گے، اور اگر کہا،''تَل پہ تَل'' مَرکَب، راکِب پر سوار ہوجائے گا اور یہی عمل دُہرائے گا۔
ابھی تک آپ نے دیکھا کہ روہیل کھنڈ اُردولغت کے اندراجات میں غالب حصہ رامپور ہی کا ہے، دیگر کا ذکر خال خال ہی نظر آتا ہے تو اِس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ مؤلف رئیس رامپوری صاحب کا اپنے وطن کے متعلق علم زیادہ تھا ۔ آگے چل کر خاکسار کچھ اور مثالیں پیش کرے گا جن سے دیگر مقامات کی بھی نمایندگی ہو۔ (جاری)