آئی ایم ایف کی آقائی
اس سلسلے میں سرمایہ دارانہ ذہن نے اپنی برتری کو منوانے کا بظاہر ایک معصوم سا اقدام کیا
دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور جاپان شکست سے دوچار ہوکر تباہی کے دہانے پر پہنچے، برطانیہ اور اس کے حلیف بھی بے مایہ ہو گئے۔
برطانیہ جو ایک عالمی طاقت تھا اور دنیا بھر کے ممالک پر اس کی شہنشاہیت کا سکہ چلتا تھا، اب اس قابل نہیں رہ گیا تھا کہ اتنے بہت سے ملکوں پر اپنی آقائی کو قائم رکھ سکے۔
چنانچہ وہ ایک نئے عالمی نظام کے قیام کے لیے کوشاں رہا۔ ایک ایسا نظام جو اس کے زیر تسلط ملکوں کا بار بھی نہ اٹھا سکے مگر ان کو اپنے قابو میں رکھ سکے اور انھیں سر اٹھانے کی ہمت نہ ہو۔ پہلے سے اس عالمی نظام کا ہیولا مغربی طاقتوں کے ذہن میں تھا۔ اب ایک اور عالمی طاقت ابھر کر سامنے آگئی تھی وہ امریکا تھا جس نے سارے سرمایہ دار ممالک کی لیڈر شپ حاصل کر لی تھی۔
چنانچہ یہ عالمی نظام کا خواب اس طرح پورا ہوا کہ ایک بین الاقوامی انجمن کا قیام عمل میں آیا اور دنیا بھر کے ممالک کو اس میں شراکت کے لیے مدعو کیا گیا۔ اقوام متحدہ کا یہ ادارہ بظاہر بڑا معصوم سا ادارہ تھا مگر اس کے پس پشت جو سرمایہ دارانہ ذہنیت کارفرما تھی، وہ بعد میں رنگ لائی۔ اس ادارے کے متعدد ذیلی ادارے تھے۔
ان میں سے ایک سیکیورٹی کونسل تھی جس کے 5 اہم ممبران کو ویٹو کا اختیار حاصل تھا یعنی وہ اگر کسی زیر تصفیہ معاملے میں اقوام کی اکثریت سے اتفاق نہ کرتے ہوں تو وہ اسے ویٹو کر کے غیر موثر کرسکتے تھے۔ گویا یہ پانچ عالمی طاقتیں اب دنیا بھر کے ممالک کی قسمتوں کا فیصلہ کرسکتی تھیں۔ یہ سرمایہ دارانہ آمریت کا نیا روپ تھا جو بھیس بدل کر سامنے آیا اور ترقی پذیر ممالک اپنی بے چارگی کے باعث چوں چرا نہ کرسکے اور یوں غلامی کی ایک نئی مگر بین الاقوامی شکل وجود میں آئی۔
اس سلسلے میں سرمایہ دارانہ ذہن نے اپنی برتری کو منوانے کا بظاہر ایک معصوم سا اقدام کیا۔ اقوام متحدہ کے عظیم ادارے کے تحت اس کا ذیلی ادارہ انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ قائم کیا گیا جس کو ایک طرح اقوام متحدہ کی ٹریژری کی حیثیت حاصل تھی۔
اس ذیلی ادارے کو رقم کی فراہمی، سیکیورٹی کونسل کے وہ پانچ ممالک فراہم کرتے تھے جو خود ترقی یافتہ اور ہنوز مال دار تھے۔
ترقی پذیر ممالک کو اسی فنڈ سے قرض فراہم کیا جاتا تھا تاکہ وہ ترقی کر سکیں۔ قرض دار ممالک اصل رقم اور اس پر عائد سود کو بالاقساط ادا کرتے اور یوں اپنے اپنے ملک کو بہتر سہولتیں فراہم کرتے اور اپنے خیال میں اس صورتحال سے بڑے خوش تھے لیکن دھیرے دھیرے ان پر کھلا کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ ترقی پذیر ممالک اب ان ترقی یافتہ ملکوں کے دست نگر ہوگئے اور ان کے حکمران، حکمران نہیں رہے۔
اصل حاکم وہ ممالک ٹھہرے جو ملکی ترقی کے لیے ان کو بڑی رقوم بطور قرض دیتے اور پھر انھیں ان رقوم کو خرچ کرنے کے آداب بھی سکھاتے اور ان آداب کی نگرانی بھی فرماتے۔جو ملک ان کے قرض ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا، اس کا وہی حشر ہوتا جو انفرادی طور پر ساہوکار سے قرض لے کر سفید پوش لوگوں کا ہوا کرتا تھا۔
ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ سری لنکا دیوالیہ قرار دیا جا چکا ہے۔ اس ملک میں قرض کی ادائیگی کی سکت نہیں رہی اب وہ آئی ایم ایف کی ہدایت اور رہنمائی کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش کرے گا۔
آئی ایم ایف کا شکار ہم خود بھی ہیں پچھلے ڈیڑھ سالوں میں آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے جس طرح ہماری ناک رگڑوائی گئی ہے اسی کو تو غلامی کہتے ہیں بات صرف نئے جال کی ہے ورنہ شکاری تو وہی پرانے ہیں۔
اب آئی ایم ایف سے ہماری حکومت نے جو معاہدے کیے ہیں اس میں یہ بھی طے ہوا ہے کہ ہم اپنی رعایا کو بجلی کس قیمت میں فراہم کریں گے ،کن کن چیزوں پر ٹیکس لگائیں گے، کتنا ٹیکس لگائیں گے تاکہ آئی ایم ایف کے قرض کی قسط ادا کرسکیں۔
اب ملک پر حکمرانی ہماری نام نہاد حکومت کی نہیں ہے بلکہ اصل حکمراں آئی ایم ایف ہے، وہ اپنا قرض مع سود وصول کرنا جانتا ہے اور اس کے لیے وہ ایسی شرائط منوا رہا ہے جس سے ہمارے ملک کے باسیوں کی زندگی حرام ہو جائے مگر آئی ایم ایف کے احکام کی تکمیل ضروری ہے پٹرول کی قیمت کیا ہوگی، کس کس قیمت پر اور کتنا فراہم کیا جائے گا، غرض ملک کی آمد و رفت کے جملہ اختیارات آئی ایم ایف کو حاصل ہوں گے اور ہمارے حکمران صرف ان کے لیے دولت فراہم کر کے ان کا '' قرض'' اتارتے رہیں گے۔
یہ معاشی غلامی جسمانی غلامی سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ اب آئی ایم ایف سرمایہ داروں کی آقائی کی خاطر آزاد ملکوں کو غلامی کے ایسے جال میں پھانسنے کا ذریعہ ہے، یہ جال ہم رنگ زمین ہے جبھی تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم آزاد قوم ہیں۔