اللہ کرے میرے سارے گمان غلط ہوں
رابطہ کرنا تو ایک طرف رہا وہ پوری کی پوری اپنے بہنوئی کے پاس آ گئی تھی
کافی دیر تک ہارن بجانے کے بعد اس نے گیٹ کھولا، گاڑی اندر کی تو وہ سائیڈ کی گلی سے اندر کو بھاگا تا کہ اندر سے جا کر مین دروازہ کھول دے۔
میں نے سامان نکال کر اسے پکڑایا اورگاڑی لاک کر کے گھر میں داخل ہوئی، '' باجی ذرا کچن میں آئیں گی؟'' اس نے ہولے سے کہا۔ ہمارے پاس وہ لگ بھگ چھ ماہ سے ملازمت کر رہا تھا، مجھے لگا کہ اس سے کوئی نقصان ہو گیا ہے، کچن میں گئی یہ سوچ کر کہ اسے کسی چیز کی ضرورت ہی نہ ہو۔ دروازہ کھولا تو وہ سامنے ہی کھڑا تھا، مجھے دیکھ کر ایک طرف کو ہوا اور اس کے عقب میں ششدر رہ گئی۔ کاجل بھری آنکھوں والی ایک خوبصورت اور کم سن سی لڑکی۔
''یہ کون ہے؟'' بے ساختہ منہ سے نکلا۔
میری سالی ہے جی۔ اس نے اٹک اٹک کر کہا۔
یہاں کیسے آئی اور کیا کر رہی ہے؟ میں نے سوال کیا۔
یہ جی دو تین دن پہلے میرے سسر کے ساتھ آئی تھی، اپنے سسر کے کہنے پر، میں نے کسی سے اس کے لیے کام ڈھونڈنے کی بات کی تھی۔
جونہی کام ملا تو میں نے اپنے سسر کو بتایا تھا اور وہ تین دن پہلے آکر اسے یہاں چھوڑ کرگئے تھے اور یہاں سے اسے وہ لوگ آ کر لے گئے تھے۔ دونوں میاں بیوی ڈاکٹر ہیں اور ان کے ہاں دو بچوں کو چند گھنٹے سنبھالنے کی ڈیوٹی ہے۔ کل اس نے مجھے کال کر کے کہا کہ اس کا دل نہیں لگ رہا ہے اور نہ ہی اس سے بچے سنبھالے جا رہے تھے۔ مجھے کہتی رہی کہ آکر لے جاؤ مگر میں اسے لے کر کہاں جاتا، اس لیے اسے سمجھاتا رہا کہ دل لگانے کی کوشش کرو مگر اب اس نے وہاں وہ انت مچائی ہوئی تھی کہ وہ زچ ہو کر اسے یہاں چھوڑ گئے ہیں۔
ہائیں، وہ لوگ اسے یہاں کیوں چھوڑ کر گئے ہیں؟
کیونکہ وہ اسے یہیں سے لے کر گئے تھے۔ اس نے جوابا کہا، اب اگر آپ اجازت دیں، دو دن کی چھٹی دے دیں اور کچھ کرایہ وغیرہ تو میں جا کر اسے واپس چھوڑ آتا ہوں ۔
تین دن پہلے آپ چھٹی کاٹ کر واپس آئے ہیں اور اب میں پھر آپ کو چھٹی دے دوں۔ آپ اپنے سسر کو کال کریں اور انھیں بتائیں کہ وہ آ کر اسے لے جائیں ۔
میں نے اس لڑکی سے اس کانام اور عمر پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کی عمر چودہ سال ہے اور اسے اس لیے کام کرنے کے لیے بھجوایا گیا ہے کہ اس کا پڑھائی میں دل لگتا ہے اور نہ گھر کے کام کار میں، والدین نے اسے سلائی اسکول میںداخل کروایا کہ وہ سلائی کڑھائی سیکھ لے تو وہ اسے سلائی مشین لے دیں گے اور گھر بیٹھے پیسے کما لے گی مگر اس کا دل سلائی سیکھنے میں بھی نہیں لگا۔
اس لیے اس کے والدین نے سوچا کہ اسے کسی بڑے شہر میں گھریلو ملازمہ کے طورپر بھجوا دیا جائے ، کم از کم کچھ اضافی آمدن کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یہاں اسی لیے بھیجا کہ اس کا بہنوئی قریب ہے اور کسی مجبوری میں اس سے رابطہ کر سکتی ہے۔
رابطہ کرنا تو ایک طرف رہا وہ پوری کی پوری اپنے بہنوئی کے پاس آ گئی تھی۔ میںنے یہی سوچ کر اسے اس کے بہنوئی کے ساتھ بھیجنے کی مخالفت کی تھی کہ بہنوئی بھی تو اس کا نامحرم تھا، کس طرح وہ کم سن اور نادان سی بچی اس کے ساتھ جا سکتی تھی۔
حوصلہ کیسے پڑا تمہارے سسرال والوں کا یوں اتنی چھوٹی سی بچی کو بھیجنے کا؟
مجبوری سب کچھ کروا دیتی ہے باجی۔ میرے سسر حوالدار تھے، ٹانگ میں گولی لگ گئی اور اس کے بعد انھیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔
جو پنشن اکٹھی ملی اور جمع پونجی تھی وہ علاج معالجے پر لگ گئی، اب ماہانہ پنشن کے علاوہ کوئی ذریعۂ آمدن نہیں ہے۔ تین بیٹیاں ہیں، بڑی والی میری بیوی ہے، اس کے بعد جو ہے وہ دسویں میں پڑھ رہی ہے۔ بیٹا نشے کی لت میں مبتلا ہو گیا ہے۔
میںنے اس سے پھر پوچھا تو اس نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے تھے، چھ اور آٹھ سال کے عمروں کے۔ وہ اتنے شرارتی ہیں کہ مجھے تنگ بھی کرتے ہیں اور میرا کہا بھی نہیں مانتے، میں انھیں کیسے سنبھالوں ۔ واقعی یہ سوچ کر مجھے اس پر ترس بھی آیا کہ اتنی کم عمر بچی جس کی اپنی کھیلنے کی عمر ہے، وہ کس طرح ایسا مشکل کام کرے، بچوں اور بالخصوص لڑکوں کو سنبھالنا تو کافی مشکل کام ہے۔
میں نے اسے کہا کہ بہتر ہے وہ سلائی کا کام دل لگا کر کرے تو میں اسے اچھی قسم کی سلائی مشین لے دوں گی۔اس کے والد سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا، بار بار ہمارا ملازم کہہ رہا تھا کہ مجھے خود ہی جانا پڑے گا اس کو چھوڑنے کے لیے اور اس کے اسی اصرار کے باعث میرا دل اس پر تیار نہیں ہو رہا تھا۔ بالآخر اس کا اپنے سسر سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ اسے وہیں رکھو، کام نہیں کرتی تو میری طرف سے جہاں مرضی جائے، دارالامان یا یتیم خانے میں داخل کروا دو مگر اسے واپس نہ بھیجنا ۔ میں اس بے حسی پر لرز گئی مگر یہ سوچا کہ جانے کس قدر مجبور لوگ ہیں۔ اسی طرح کی مجبوریوں کے باعث یہ والدین کو اپنے بچوں کو کم عمری میں گھریلو ملازموں کے طور پر بھیجنے پر مجبور ہوتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان بچوں کو تنخواہ کے نام پر بہت کم عوضانہ دیا جاتا ہے بلکہ ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور زیادہ تر انھیں جنسی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
کچھ اور چارہ نہ بن رہا تھا، ملازم کو میں بھجوانا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔ بالآخر اس نے بتایا کہ کشمیر سے اس بچی کا ماموں زاد اسے لینے کے لیے آ رہا ہے، اس کے والد نے اسے بھجوایا ہے اور اسے کہا ہے کہ اس بچی کو فیض آباد میں واقع بسوں کے اڈے تک چھوڑنے کے لیے جانا پڑے گا، جہاں سے اس کا کزن اسے لے لے گا۔
اس کی اجازت دیے بغیر چارہ نہ تھا، وہ اسے اڈے پر چھوڑ کر سات آٹھ گھنٹوں کے بعد لوٹا، اتنی دیر میں تو وہ اسے مظفر آباد تک چھوڑ کر بھی آجاتا۔ اگلے ہی روز اس نے کہا کہ اس کی بیوی کی اس کی والدہ کے ساتھ لڑائی ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی والدہ نے اسے گھر سے نکال دیا ہے، اسے ہر صورت جانا ہو گا کیونکہ اس کی بیوی اس کے معصوم بچے کے ساتھ سڑک پر تو نہیں رہ سکتی اور نہ ہی اس کے پاس کوئی رقم ہے کہ وہ خود سے کہیں جا سکے۔ تیار ہو کر وہ روانہ ہوا، بعد میں دیکھا تو علم ہوا کہ وہ اپنا سارا سامان ہمراہ لے کر گیا تھا۔ جانے کیوں میرے دل کو آج تک بے چینی نہیں جاتی کہ اس نے کیا کھیل کھیلا، کیا جھوٹ بولا اور کیا ڈرامہ کیا۔
یا ممکن ہے کہ میرے سارے گمان غلط ہی ہوں، اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو...