سیاسی نعرے کے سوا کچھ نہیں
سندھ میں پیپلز پارٹی کس کے خلاف الیکشن لڑے گی؟ دیہی نشستوں پر تو ان کی برتری قطعی ہے
الیکشن اگلے برس کے آغاز میں ہو بھی جائیں تو ان کی منصفانہ حیثیت کیا ہوگی؟ اگر ووٹنگ محض مکینیکل نظام ہے جسے ایک کمزور الیکشن کمیشن کے سپرد کر دیا گیا ہو' ووٹ ڈالنا سرکاری عمال کی زیر نگرانی ایک عامیانہ سی مشق ہو' تو کیا واقعی اسے غیر جانبدارنہ، منصفانہ اور شفاف الیکشن کہا جا سکتا ہے؟ ہمارے نظام میں ایک مخصوص دن پر' پرچی ڈالنے کے روایتی عمل کو جنرل الیکشن کا نام دیا جاتا ہے۔
چھوٹے سے کاغذ کی پرچی' ڈبے میں ڈالنے کے بعد ووٹر اجنبی بن جاتا ہے، جیتنا کس نے ہے، اس کا پہلے سے طے ہے، بس جیت کا رسمی اعلان کردیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین سے شفافیت کا ٹھپہ لگوانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
اس کے بعد ایک چابی والے کھلونے کو مسند شاہی پر بٹھا دیا جاتا ہے اور اس کی شان میں قصیدے بھی پڑھیں۔ نمبر ٹانگنا اور مداح سرائی میں حد سے گزر جانا کسے کہتے ہیں۔
اس کا ایک نمونہ وسطی پنجاب کے ایک سابقہ ایم این اے کے ارشادات عالیہ ہیں ' موصوف نے اپنی سیاسی پارٹی کے قائد کے استقبال کے لیے جانے والوں کو جنت میں جانے کی بشارت دے ڈالی، اس سے بڑھ کر خوشامد اور کیا ہو گی۔ ہمارے نظام میں پستی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
قیادت کی سلیکشن تو کرلی جاتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ ملک کنگال ہوکر انٹرنیشنل بھکاری بن جاتا ہے' ذہانت کا قحط پڑ جاتا ہے، نالائق اور ایوریج لوگ پورے سسٹم پر قابض ہوجاتے ہیں ، یوں ریاست ترقی سے کوسوں دور ہو جاتی ہے۔
جو ملک' اپنی قیادت کے چناؤ میں ہلکی سی بھی لغزش کرتے ہیں۔ وہ کبھی' کسی حال میں ترقی نہیں کر سکتے۔ اس انجام سے بہرحال کوئی مفر نہیں ہے۔ عوام اور ووٹرزکو ان حقائق سے لاعلم رکھنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے۔
سچ بولنا مشکل بنا دیا جاتا ہے ۔ طالبان کے جن کو ہم نے خود بوتل سے نکالا۔ جب وہ جن کنٹرول سے آزاد ہوکر ہمارے اپنے بچوں کو کھانے لگ گیا تو ہوش آیا ہے، شاید اب بھی پورا ہوش نہیں آیا۔ کیا کوئی یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے' کہ حضور! جن کو بوتل سے نکالتے وقت اسے بوتل میں دوبارہ بند کرنے کا فارمولہ بھی تیار رکھنا تھا لیکن جوابدہی کون کرے اور کہاں سے ابتدا کرے؟
اس وقت سیاسی ماحول پر بات کرنا ضروری ہے۔ کسی کو اب تک یہ پتہ نہیں چل رہا کہ الیکشن میں سیاسی حریف کون کون ہیں۔ ووٹر کس سیاسی جماعت کو دوسری جماعت پر فوقیت دینگے، کیونکہ چوائس نظر نہیں آرہی ہے، اس وقت قومی سیاسی پارٹی کوئی نہیں ہے، سب علاقائی پارٹیوں کا روپ دھار چکی ہیں ۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کس کے خلاف الیکشن لڑے گی؟ دیہی نشستوں پر تو ان کی برتری قطعی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی باآسانی حکومت بنا لے گی۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں بھی کوئی مضبوط فریق موجود نہیں ہے، جماعت اسلامی میں اتنا دم خم نہیں رہا ۔ پھر سوال تو موجود ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کس سیاسی بیاینے کے خلاف الیکشن لڑیں گی۔
خیبر پختونخوا میں ذرا میری رہنمائی فرما دیجیے۔ وہاں اے این پی' پشتو بیلٹ کے شہری علاقوں میں مضبوط ہے۔ دیہی علاقوں میں مولانا کا ووٹ بینک زیادہ ہے ۔ پھر کون سا الیکشن؟ نتیجہ' سب کو معلوم ہے۔ بلوچستان میں جو ''باپ'' کے سائے تلے آگیا، وہ جیت گیا۔
ویسے ایک خیال لکھتے لکھتے ذہن میں آیا۔ میں نے طویل عرصہ بلوچستان میںگزارا ہے، وہاں کے اندرونی خلفشار کو سمجھتا ہوں لیکن یہ بلوچستان کی محرومی کا کیا قصہ ہے، اس کی سمجھ نہیں لگ سکی؟ آجکل تو وزیراعظم پاکستان' چیف جسٹس آف پاکستان' سینیٹ کا چیئرمین، وفاقی وزیر داخلہ سب کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ اسلام آباد پہنچ کر بلوچستان کے قائدین اپنے صوبے کے معاشرتی نظام میں تبدیلی لانے کے کسی عمل کو پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا احساس محرومی کا منتر پڑھا جاتا رہے گا۔ پاکستان کی ہرحکومت نے بلوچستان کے لیے کثیر سرمایہ فراہم کیا، لیکن تبدیل کچھ بھی نہیں ہوا ۔
ذرا پنجاب کے سیاسی حالات کی طرف آئیے۔ مسلم لیگ (ن) کو پورا سسٹم سپورٹ کر رہا ہے ۔ مسلم لیگ کے قائد تو اپنے آپ کو الیکشن سے قبل ہی چوتھی مرتبہ وزیراعظم قرار دے چکے ہیں۔
مگر ذرا سوچیں، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا سیاسی حریف کون ہے؟ جناب کوئی بھی نہیں۔ پی ٹی آئی کے سرکردہ لوگ تو مقدمے اور گرفتاریاں بھگت رہے، الیکشن کون لڑے گا۔ رہ گئی پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں، ان کا پنجاب میں ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر پنجاب میں (ن) لیگ کس کے مقابلے میں الیکشن لڑے گی؟ نتیجہ واضح ہے۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آج بھی پورے ملک میں ووٹ بینک صرف ایک جماعت کا ہے۔ تحریک انصاف کا ملک کے ہر علاقے میں موثر ووٹ بینک موجود ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل جانے سے اس جماعت کا ووٹ بینک حیران کن حد تک بڑھا ہے۔
تحریک انصاف آج بھی ملک کی مضبوط سیاسی قوت ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کے قائدین اور ورکر مصائب سے گزر رہے ہیں، جن میں حوصلہ کم تھا وہ سیاست سے الگ ہوکر خاموش ہوگئے ہیں، باقی پریس کانفرنس کرکے کسی اور پارٹی کا رخ کر رہے ہیں، میرا خیال ہے، عوام بھی ان پریس کانفرنسوں کو سیریس نہیں لے رہے ، البتہ حیران ضرور ہوتے ہیں کہ جیسے ہی ایک سیاستدان یا سابق رکن اسمبلی جس پر کئی مقدمات درج ہیں۔
دس پندرہ منٹ کی پریس کانفرنس کے بعد مکمل پاک صاف ہو جاتا ہے۔ اس کے بعدکوئی مقدمہ' نہ وارنٹ نہ کوئی کورٹ کچہری۔ معاشی بربادی،دہشت گردی اور عالمی تنہائی کا سارا ملبہ پی ٹی آئی حکومت پر ڈال کر یہ کہنا ہے کہ اس کے بعد خیر ہی خیر ہے۔
ذرا سوچیے کہ جنھوں نے اٹھارہ ماہ حکومت کی، معیشت معیشت مستحکم ہونے کے مزید تنزلی کا شکار ہوئی ، کیا وہ پارٹیاں اور ان کے قائدین میں اتنی صلاحیت و ذہانت موجود ہے کہ انھیں دوبارہ اقتدار دیا جائے تو وہ معیشت بحال کردیں گے، انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کردیں گے۔ صاحبان! کچھ بھی درست نہیں ہو رہا اور پھر یہ اعلان کہ ہم سب کچھ ٹھیک کر دیںگے، ایک سیاسی نعرے کے سوا کچھ بھی نہیں؟