غزہ کا المیہ
امریکا ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنھوں نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق غزہ پر اسرائیل کی بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت مزید19فلسطینی شہید ہوگئے، جب کہ پچاس سے زائدزخمی ہوئے، دوسری جانب اسرائیل نے القدس اسپتال خالی کرنے کی دوبارہ وارننگ جاری کردی ہے، مصر سے رفح راہداری کے ذریعے امدادی سامان کے بیس ٹرک غزہ میں داخل ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک درد ناک باب کا اضافہ کردیا ہے۔ اسرائیل اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کر رہا ہے جب کہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے جو بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ غزہ زمین کی ایک تنگ پٹی ہے جو اسرائیل اور بحیرہ روم کے درمیان واقع ہے لیکن جنوب میں اس کی زمینی سرحد مصر سے لگتی ہے۔
صرف 41 کلومیٹر (25 میل) لمبے اور 10 کلومیٹر چوڑے، اس علاقے میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں اور یہ زمین پر سب سے زیادہ گنجان آباد مقامات میں سے ایک ہے۔
1948-49 کی جنگ کے نتیجے میں غزہ پر 19 سال تک مصر کا قبضہ رہا۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں غزہ پر قبضہ کیا تھا اور وہ 2005 تک اس پر قابض رہا۔ اس دوران اسرائیل نے وہاں یہودی بستیاں تعمیرکیں۔
2005 میں اسرائیل نے غزہ سے اپنے فوجیوں اور آباد کاروں کو واپس بلا لیا، تاہم اس نے اس کی فضائی حدود، مشترکہ سرحد اور ساحل پرکنٹرول برقرار رکھا۔ اقوام متحدہ اب بھی اس علاقے کو اسرائیل کے زیر قبضہ سمجھتی ہے۔
غزہ میں اسپتالوں پر اسرائیلی بمباری سے ڈاکٹروں اور نرسوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ اسرائیل نے کئی دنوں سے غزہ کے لیے بجلی، پانی، ادویات اور اشیائے خورونوش کی ترسیل روک رکھی ہے، غزہ میں ڈاکٹروں نے خبردارکیا ہے کہ ہزاروں افراد کی جانیں چلی جائیں گی،کیونکہ فیول اور بنیادی سپلائی گھٹ چکی ہے۔
محصور ساحلی پٹی میں فلسطینی غذا، پانی اور سلامتی کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ انھیں توقع ہے کہ اسرائیل کا زمینی حملہ ہونے والا ہے۔
بم دھماکوں میں زخمی سیکڑوں لوگ اسپتال آئے ہیں، جہاں پیرکو فیول ختم ہوجائے گا۔اسپین کی سماجی حقوق کی وزیر نے عالمی طاقتوں سے اسرائیل کی غزہ میں منصوبہ بند ی کے ساتھ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ امریکا اور یورپی یونین اسرائیل کے قبضے، ظلم اور بربریت کو جائز قرار دے رہے ہیں، اقوام عالم کو چاہیے وہ اس بربریت کے خلاف متحرک ہو۔ ایک اسپتال پر اسرائیلی جارحیت سے سیکڑوں مریضوں، ڈاکٹروں اور نرسوں کی شہادتیں ہوئی تھیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسپتال پر حملے کی ذمے داری فلسطینی تنظیم پر عائد کر دی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل اور امریکا دونوں ایک پیج پر ہیں۔ امریکا نے سلامتی کونسل میں بھی یہ رویہ اختیار کیا۔ چند دن پہلے روس نے اسرائیل، فلسطین جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی تھی۔
اس قرار داد میں انسانی بنیادوں پر جنگ روکنے، امداد کی ترسیل یقینی بنانے، غزہ سے عام شہریوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ چین اور متحدہ عرب امارات سمیت چار ممالک کی حمایت کے باوجود یہ قرارداد منظور نہیں ہو سکی۔
وجہ یہ کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جاپان نے اسے ویٹو کردیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تمام طاقتور ممالک بغیرکسی ڈر، خوف کے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انھیں دنیا کے ایک خطے میں ہونے والی بربریت اور خون ریزی روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اس صورتحال میں امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ جوبائیڈن نے اسرائیل کو روکنے کے بجائے، اس سے اظہار یکجہتی کیا۔ یہ بات دہرانی پڑتی ہے کہ دنیا میں پچاس کے قریب مسلمان ممالک ہیں۔ ان ممالک میں ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان بستے ہیں۔
بیشتر ممالک تیل اور دیگر معدنیات کی دولت سے مالا مال ہیں، لیکن ان کی ضعیفی اور بے بسی دیکھیں کہ یہ فلسطین کو اسرائیل کی بربریت سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ دوسری طرف اسرائیل ہے جو تقریبا نوے لاکھ آبادی کا حامل ملک ہے، یہ مسلمان ممالک میں گھرا ہوا ہے، لیکن امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک کی حمایت ، مالی اور دفاعی امداد کی وجہ سے اسرائیل دنیا کی بڑی عسکری قوت سمجھا جاتا ہے۔
چند روز بیشتر اسلامی ممالک کی تنظیم یعنی او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔ اجلاس میں ایران نے مسلمان ممالک سے اپیل کی ہے کہ اسرائیل پر پابندیاں عائد کی جائیں، اس کے سفیروں کو ملک بدرکر دیا جائے، اسرائیل پر تیل کی بندش کی جائے۔
ایران کی ریاستی پالیسی اسرائیل کی مخالفت پر چل رہی ہے،لیکن ترکی، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، مراکش اور عمان فلسطینیوں کی الگ ریاست کی تو حمایت کررہے ہیں مگر حماس کے حق میں نہیں ہیں اور نہ ہی ایرانی حکومت کے موقف سے ہم آہنگ ہیں ۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بیحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔
غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کردیا ہے، وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی 'کھلی جیل' کہا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔
فلسطینیوں کی حالت ِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے چلے جانا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز ہی سے اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خود مختار ریاست ہوگا۔
فلسطینیوں کو دنیا کی سب سے بد نصیب قوم کہا جائے تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور مغربی اردن کے ساتھ ساتھ شام کی گولان کی پہاڑیوں، غزہ اور مصر کے علاقے سینائی پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔
زیادہ تر فلسطینی پناہ گزین اور ان کی اولادیں غزہ اور مغربی اردن کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک اردن، شام اور لبنان میں رہتی ہیں۔ اسرائیل نے نہ تو انھیں اور نہ ہی ان کی اولاد کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دی ہے۔
اسرائیل اب بھی مغربی کنارے پر قابض ہے اور پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے، جب کہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو اس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں جس کے مستقبل میں قیام کے لیے وہ پرامید ہیں۔
امریکا ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنھوں نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔ گزشتہ 50 برسوں میں اسرائیل نے غربِ اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں بستیاں تعمیر کی ہیں جہاں اب سات لاکھ سے زیادہ یہودی رہتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے تحت ان بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے تاہم اسرائیل اسے مسترد کرتا ہے۔
امریکا، اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور یہودی ریاست کو 260 ارب ڈالر سے زیادہ کی فوجی اور اقتصادی امداد دے چکا ہے۔ اس نے حماس کے حملے کے بعد اضافی سازوسامان، فضائی دفاعی میزائل، گائیڈڈ بم اور گولہ بارود کا وعدہ کیا ہے اور مشرقی بحیرہ روم میں دو طیارہ بردار جنگی بحری جہاز بھی بھیجے ہیں۔
روس اور چین دونوں نے حماس کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے اورکہا ہے کہ وہ تنازع میں فریقین کے ساتھ رابطے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ روس کے صدر پیوٹن نے مشرق وسطیٰ میں بدامنی کا ذمے دار امریکا کو قرار دیا ہے۔
امریکا دنیا کی طاقتور ترین معیشت ہے ، دنیا کی سب سے بڑی دفاعی و عسکری طاقت ہے، امریکی معیشت کا انحصار مشرق وسطیٰ کے تیل پر ہے، اسرائیل کا قیام اسی لیے عمل میں لایا گیا تاکہ یہودیوں کو یورپ سے رضاکارانہ طور پر نکال دیا جائے اور اسرائیل میں بیٹھ کر بحیرہ روم اور بحیرہ عرب تک پر کنٹرول رکھا جاسکے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں ۔ بیشتر مسلمان ممالک امریکا، آئی ایم ایف وغیرہ پر انحصار کرتے ہیں۔ ان حالات میں یہ ممالک کس طرح امریکا یا اسرائیل سے اپنی بات منوا سکتے ہیں؟