حماس کا حملہ
حماس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ قسطوں میں مرنے کے بجائے اسرائیل پر حملہ کر کے دنیا کو جگائیں
www.facebook.com/shah Naqvi
اسرائیل کے لیے 7اکتوبر کا دن ایک بھیانک خواب کی مانند تھا۔ صبح سویرے اسرائیل پر ہزاروں راکٹوں کی بارش ہوگئی۔
5منٹ کے اندر یہ راکٹوں کی ایسی بارش تھی جس نے دنیا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس اور ڈیفنس سسٹم کوناکارہ کر کے اسرائیل امریکا سمیت پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔
ایسا تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کا سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا اس طرح ان کے بہت سے فوجی یرغمال بن گئے اسرائیلی فوج کے بریگیڈئیر کمانڈر سمیت 900سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوگئے۔
حماس نے اسرائیل پر ہونے والے اس حملے کو طوفان الاقصی قرار دیا اور اس حملے کو غزہ اور فلسطین کے مقدس مقامات پر اسرائیلی ظلم کا ردعمل قراردیا۔
وہ ظلم جو اسرائیل اپنے قیام سے فلسطینی عوام پر مسلسل کر رہا ہے۔ اندازہ کریں اسرائیل 2014سے فلسطینیوں سے بات تک کرنے کا روادار نہیں ہے، یہ 9طویل سال بنتے ہیں ان سالوں میں فلسطینیوں کو مسلسل درجنوں کے حساب سے مارا گیا گھروں سے زبردستی نکالا گیا۔ ان کے گھر مسمار کیے گئے۔
2018میں پر امن احتجاج کرتے ہوئے بیک وقت 300 فلسطینیوں کو مار دیا گیا۔ اسرائیل کا سرپرست امریکا اور مغربی دنیا اس ظلم پر خاموش رہی یا نام نہاد مذمت کی۔ حماس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ قسطوں میں مرنے کے بجائے اسرائیل پر حملہ کر کے دنیا کو جگائیں۔ حماس حملے نے پوری دنیا کو دو کیمپوں میں تبدیل کر دیا یہاں تک کہ امریکی یونیورسٹی ہارورڈ اور دوسری یونیورسیٹوں کے طلبا حماس کی حمایت میں آگئے جن پر امریکی حکومت نے شدید دباؤ ڈالا کہ وہ اپنا موقف بدلیں۔
برطانوی اخبار گارجین کے کارٹونسٹ کو اسرائیل مخالف کارٹون بنانے پر نوکری سے نکال دیا گیا۔ غزہ اسپتال پر حملے کے بعد عالمی دباؤ اور ردعمل کے باعث اسرائیل دفاعی پوزیشن پر چلا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے وحشیانہ حملے بدستور جاری ہیں۔
حماس حملے کے بعد امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے بیان دیتے ہوئے ایران پر سعودی عرب اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کو ڈائنا مائٹ سے اڑانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اور سزا کے طور پر ایران کے 6بلین ڈالرز جو عرصے سے منجمد تھے انھیں دوبارہ سے فریز کر دیا ۔ اور حماس پر ایران کا آلہ کار بننے کا الزام عائد کر دیا۔
ایران اسرائیل کو اپنا ازلی دشمن قرار دیتا ہے اور اس نے اس بار لبنانی حزب اللہ سے زیادہ حماس کی مدد کی ہے۔ اس نے حماس کو ٹریننگ فراہم کرتے ہوئے اس پلان کوآخری وقت تک خفیہ رکھا اور دنیا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس موساد کو جسے دنیا بھر میں اپنے خفیہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا گھمنڈ ہے اس کا یہ گھمنڈ خا ک میں ملا دیا۔
اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار حماس کے نوجوانوں نے موٹر سائیکلز پیرا گلائیڈرز اور کشتیوں کے ذریعے بیک وقت حملہ کرتے ہوئے اسرئیل کی سر زمین کے اندر سے اسے آن دبوچا۔ حماس حملے کے آغاز پر امریکا نے الزام عائد کیا حماس حملے کے پیچھے ایران ہے لیکن امریکی انٹیلی جنس نے واضح کیا کہ حماس کے اچانک حملے سے خود ایرانی قیادت حیران رہ گئی کیونکہ اس حملے سے وہ بے خبر تھی ۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کی اسرائیل کی اندھی حمایت بلا وجہ نہیں۔ اور اس حمایت کا آغاز امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے دور سے ہوتا ہے۔
اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی چوکی کہا جاتا ہے۔ ایرانی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے اسرائیل کے قیام سے ہی بہت اچھے تعلقات قائم ہوگئے تھے کیونکہ دونوں مل کر مشرق وسطی میں امریکی سامراجی مفادات کی نگہبانی کرتے تھے لیکن اس مفادات کو اس وقت خطرہ لاحق ہوا جب ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق کی حکومت قائم ہوئی جب انھوں نے امریکی و برطانوی تیل کمپنیوں کو قومیا لیا۔
لیکن امریکی سی آئی اے نے ایرانی سرمایہ داروں، جاگیر داروں، میڈیا صحافیوں اور اس وقت کے ایرانی فتویٰ فروش ملاؤں کو ایسا خریدا کہ آخر کار ان سب نے مل کر مصدق حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ یوں امریکا کا ایران پر دوبارہ قبضہ ہوگیا۔
اس کو ہم اس طرح سے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ یہی کام 1977میں پاکستان میں امریکا نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر کیا۔ لیکن امام خمینی کے بعد ایران میں پھر سے امریکی مفادات کا خاتمہ ہوگیا ۔
یہی وہ وقت تھا جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہو گیا۔ یہ ہول ناک منظر دیکھ کر پورا مغرب تھرا گیا ۔ یہ تو پورے مشرق وسطی سے امریکی سامراجی مفادات کا جنازہ نکلنے والی بات تھی ۔
بہرحال یہ ایک لمبی کہانی ہے جو ایک کالم نہیں بلکہ کتاب کی متقاضی ہے مشرق وسطی پر قبضے کے لیے امریکا نے ایک لمبی سازش تیار کی جس میں امریکا نے افغان مجاہدین کو مہرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کا خاتمہ کرکے دنیا پر قبضہ کرلیا، اس کے بعد عراقی صدر صدام کو استعمال کرتے ہوئے ایران پر 8سالہ طویل جنگ مسلط کی جس میں لاکھوں انسان کام آئے۔
اس کے بعد ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کا شوشہ چھوڑتے ہوئے عراق کو تباہ کیا گیا ۔ پھر فلسطینی کاز میں مدد گار شام اورلیبیا کو تباہ کر کے خطے میں اسرائیل اور امریکی مفادات کو محفوظ کیا۔ آخر میں لبنان کو فتح کر کے شام پہنچ کر ایرانی انقلاب کا خاتمہ مقصود تھا لیکن حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل کی شکست کے باعث یہ سب کچھ نہ ہوسکا ۔ اس ناکامی کے بعد امریکا نے اپنا طریقہ واردات بدلا ۔ ٹرمپ دور میں معاہدہ ابراہیمی کے ذریعے عرب ممالک کو دباؤ میں لاکر اسرائیل کو تسلیم کروایا گیا۔
اسرائیل نے غزہ میں رہائشی عمارتوں' پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جو یقیناً جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے لیکن امریکا اور اقوام متحدہ اس کا کوئی نوٹس نہیں لے رہی۔
اب دباؤ سعودی عرب پر تھا۔ اس طرح حماس حزب اللہ اور ایران کو تنہا کر کے مسئلہ فلسطین کو دفن کرنا تھا لیکن حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے نہلے پر دہلا ماردیا۔
اس طرح بقول امریکی وزیرِ خارجہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سارا پروسس ڈائنا مائٹ ہو گیا اس کے بعد معاشی راہ داری جو بھارت سے ہوتے ہوئے سعودی عرب اسرائیل اور یورپ پہنچتی وہ بھی مشرق وسطی کا نقشہ بدل دیتی۔ بھارت اور اسرائیل دونوں کا مشرق وسطی پر کنٹرول ہو جاتا ۔ پھر آئی ایم ایف سعودی عرب، عرب امارات کا مقروض پاکستان کہاں کھڑا ہوتا اور اس کا ایٹمی پروگرام۔ مسئلہ کشمیر غتر بود ۔ سرحدیں سوفٹ ہو جاتیں۔