پنجاب میں کم سن بچوں سے جبری مشقت لینے کا رجحان برقرار
چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود جبری مشقت، جنسی وجسمانی تشدد کے واقعات معمول، لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر عمل نہ ہوسکا
پنجاب میں چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود جبری مشقت اور بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد کے واقعات معمول کی بات ہیں، لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر بھی تاحال عمل درآمد نہیں ہورہا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے گھروں سمیت کارخانوں، فیکٹریوں اور ورکشاپس پر کمسن بچوں سے جبری مشقت لینے پر پابندی کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کرتے ہوئے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کوحکم دیا ہے کہ وہ بچوں سے جبری مشقت لینے والے مالکان، بچوں کے والدین اور انہیں کام پر رکھوانے والوں کے خلاف مقدمات درج کروائیں جبکہ پولیس حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ بچوں سے جبری مشقت روکنے کے لیے متعلقہ محکموں کے ساتھ مکمل تعاون کریں لیکن تاحال احکامات پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کا کہنا ہے جب تک لیبر ڈیپارٹمنٹ، پولیس اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو سمیت دیگر محکمے ایک پیج پر نہیں آتے اس وقت تک چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن نہیں ہے، ملک کے دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی کم سن بچوں سے جبری مشقت لینے کا رجحان عام ہے،اس حوالے سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ ڈومیسٹک چائلڈ لیبر کے دوران بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد اور بدسلوکی بھی کی جاتی ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر بیورو پنجاب نے رواں سال کے دوران اب تک 25 کے قریب بچوں کو ریسکیوکیا ہے۔ ایکسپریس ٹربیون کو موصول ہونے والے پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2017ء سے 2021ء تک فیکٹریوں، کارخانوں، اینٹوں کے بھٹوں اور دیگر کام کی جگہوں پر ایک لاکھ 81 ہزار942 انسپکشن وزٹ کیے گئے اور پانچ برس میں جبری مشقت کے شکار 13 ہزار 184 بچوں کو ریسکیو کیا گیا، 7 ہزار 207 مقدمات درج کرکے 3 ہزار 163 افراد کو گرفتارکیا گیا۔اینٹوں کے بھٹوں پرکام کرنے والے 2322 بچوں جبکہ دیگرمقامات سے 10862 بچوں کو ریسکیوکیا گیا۔
ڈائریکٹر لیبر پنجاب داؤد عبداللہ نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے تین قوانین موجود ہیں جن پر عمل درآمد کرانا ہماری ذمہ داری ہے، 2016ء میں بچوں کی مشقت اور بھٹہ مزدوری کے حوالے سے جو دو قوانین آئے، ان پر عمل درآمد کے حوالے سے ہم روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لے رہے ہیں، اس کیلئے جدید میکنزم اپنایا گیا ہے، اب انسپکٹر کو وہاں جاکر وہاں کی تصویر دیگر تفصیلات دینا ہوتی ہیں
انہوں نے کہا کہ ہمارا انسپیکشن کا سارا نظام آن لائن ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے، 2017ء سے اب تک ہم ہر سال چائلڈ لیبر کے حوالے سے کم از کم 1 ہزار ایف آئی آر درج کرواتے ہیں جن میں سے 80 فیصد مجرمان پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں جبکہ بیشتر کو قید کی سزا بھی سنائی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے حوالے سے ایکشن لینے میں چارد چار دیواری کا تقدس پامال ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، اس قانون پر عمل درآمد کے لیے یونین کونسل کی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو اپنے اپنے علاقے میں موثر کام سکیں گے۔
بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سرچ فارجسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخار مبارک کا کہنا ہے کوئی بھی بچہ کسی دکان، فیکٹری اور گھر میں اپنی خوشی سے کام نہیں کرتا، بچے کے والدین یا پھر سرپرست اسے کام پر بھیجتے ہیں، یہ ایک طرح سے جبری مشقت ہے جس کا فائدہ بچے کے والدین، سرپرست اور وہ مالکان اٹھاتے ہیں جو اس بچے سے مشقت لیتے ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ والدین بچوں کو کام پر رکھوانے کے عوض ایڈوانس رقم لے لیتے ہیں، چائلڈ ڈومیسٹک لیبر بچوں سے مشقت کی بدترین مثال ہے بچے جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، ان کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے۔ جب ایسے واقعات سامنے آتے ہیں تو پھر چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو ہے جو ایسے بچوں کو نہ صرف ریسکیو کرکے ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ ان بچوں کو قانونی معاونت فراہم کی جاتی ہے اور مالکان کے خلاف مقدمات درج ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کہ ہے کہ بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کے لئے تمام محکموں لیبرڈیپارٹمنٹ، پولیس، چائلڈ پروٹیکشن بیورو، سوشل سیکیورٹی اور پراسیکیوشن کو ایک پیج پرآنا ہوگا علاوہ بچوں سے مشقت لینے کے خلاف قوانین کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی ضرورت ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن ندیم اشرف نے بچوں کی جبری مشقت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ معاشی مجبوریاں اپنی جگہ مگر والدین سمیت کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بچے کی زندگی خراب کریں، وہ سجمھتے ہیں کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے مختلف محکمے آئسولیشن میں کام کر رہے ہیں، آپس میں روابط کا فقدان ہے، محکمہ لیبر، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، محکمہ داخلہ، چائلڈ پروٹیکشن بیوریو، وویمن ڈیپارٹمنٹ، محکمہ قانون و دیگر محکمے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، ہم نے پنجاب حکومت کو خط لکھا کہ صوبائی اور ضلعی سطح پر چائلڈ پروٹیکشن اور چائلڈ رائٹس کمیٹیاں بنائیں جن میں تمام متعلقہ محکموں کے نمائندے شامل ہوں اور مل کر کام کریں۔
دوسری طرف چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو حکام کے مطابق ادارہ چائلڈ لیبر کو تو نہیں روک سکتا تاہم ہمارے پاس یہ اختیار ہے کہ اگرکسی جگہ بچے سے جبری مشقت لی جارہی ہے اس پر تشدد کیا جاتا ہے اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی ہوتی ہے تو ہم ایسے بچوں کو ریسکیوکرکے اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔
انہوں ںے مزید بتایا کہ بھیک مانگنے بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر ریسکیو کیا جارہا ہے۔ ایسے بچوں کی کونسلنگ کی جاتی ہے، ان کی تعلیم اورہنری مندی کا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ والدین کو تنبیہ بھی کی جاتی ہے تاہم اب لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر بچوں کو جبری مشقت پربھیجنے والے والدین کے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے اورانہیں جرمانے کے ساتھ ساتھ جیل میں بھیجا جائے گا۔