نواز شریف اور سیاسی منظرنامہ
قومی سیاسی منظرنامہ 2018کے اسکرپٹ کی روشنی میں دوبارہ سجایا جارہا ہے
نواز شریف کی پاکستان واپسی ہوگئی ہے۔ وہ بڑی دھوم دھام سے دوبارہ سیاسی منظر نامے میں وارد ہوئے ہیں۔ ان کا سیاسی استقبال ظاہر کرتا ہے کہ ان کی واپسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوئی، پس پردہ کچھ نہ کچھ تو طے ہوا ہے ۔
اس نئے سیاسی کھیل کو ماضی کے جاری سیاسی کھیل اور مہم جوئی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو بہت سے معاملات سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔نوازشریف کے جلسے میں کتنی بڑی تعداد میں لوگ شریک تھے، یہ بحث بے معنی ہے ۔
اصل نقطہ ان کی واپسی ہے ، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں قومی سیاسی منظر نامہ میں کیا رنگ بکھیرنا چاہتی ہیں ، اقتدار کس کے سپرد کیا جاتا ہے۔ ایک عمومی رائے یہ ہے کہ کھیل کا نیا اسکرپٹ تیار ہے، اسی اسکرپٹ کے تحت نواز شریف کی واپسی بھی ہوئی ہے ۔سیاسی پنڈت ان کو چوتھی بار وزیر اعظم کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔
نواز شریف کے سب سے بڑے سیاسی مخالف اور ان کی پارٹی زیر عتاب ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف جیل میں قید ہیں جب کہ ان کی جماعت کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں،بہت سے لیڈر پارٹی چھوڑ گئے ہیں، کچھ منظر سے غائب ہیں،پارٹی الیکشن کیسے لڑے گی، اس کا بھی پتہ نہیں ہے، اس ا کا بھرپور سیاسی فائدہ مسلم لیگ ن کو پہنچانا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے بیشتر حامی سیاست دان اور صحافی نواز شریف کے لیے سیاسی میدان کو خالی سمجھ رہے ہیں اور ان کے بقول چیئرمین تحریک انصاف کی عدم موجودگی نواز شریف کی اقتدار میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنائے گی ۔نواز شریف کا نیا بیانیہ ملکی معیشت کی ترقی ، پی ٹی آئی کے سوا سب سیاسی فریقین کو ساتھ لے کر چلنا ، بدلے کی سیاست یا اداروں سے ٹکراؤ کے کھیل سے گریز کرنا اور ایک فرمانبردار فرد کے طور پر سیاسی کردار کی ادائیگی ہے ۔اس کی جھلک ان کی مینار پاکستان میں کی جانے والی تقریر تھی ۔
قومی سیاسی منظرنامہ 2018کے اسکرپٹ کی روشنی میں دوبارہ سجایا جارہا ہے۔ محض کرداروں کی تبدیلی کو بنیاد بنا کر پرانا کھیل نئے سیاسی رنگ کے طور پر سجایا گیا ہے۔
بلوچستان میں قوم پرستوں، سندھ میں پیپلزپارٹی ، کے پی کے میں پی ٹی آئی اور وفاق میں مسلم لیگ ن کی مدد سے مخلوط حکومت جس میں پی ٹی آئی مائنس سب سیاسی جماعتیں جب کہ پنجاب میں کس کی حکومت ہوگی اور کیسے تشکیل دی جائے گی اس پر بظاہر لگتا ہے کہ ابھی بہت سے معاملات طے ہونا باقی ہیں ۔خود نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بن سکیں گے یا وہی اپنے بھائی شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی وجہ سے ان ہی کو وزیر اعظم کے طور پر نامزد کریں گے۔
اصل لڑائی پنجاب کی سیاست سے جڑی ہے جہاں مسلم لیگ ن کسی بھی صورت میں سیاسی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ پنجاب کے بغیر مرکز کے اقتدار کی کوئی حیثیت نہیں ۔لیکن شریف خاندان کی خواہش سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کیا ہے اور وہ کیا چاہتی ہے ، زیادہ اہم ہے ۔
اس لیے اس موجودہ کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے چلنا اور بغیر کسی مزاحمت کے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چلنا مسلم لیگ ن کی سیاسی مجبوری ہوگی ۔شریف خاندان کو معلوم ہے کہ وہ کیسے آئے ہیں یا کیسے لائے گئے ہیں اور یہ کھیل پہلی بار ان کے ساتھ نہیں ہورہا ۔
نواز شریف کی واپسی کے بعد سب سے بڑا سوال ہی سیاسی اشرافیہ یا سیاسی مباحثوں میں یہ ہی ہے کہ کیا نواز شریف اس تاثر کو زائل کرسکیں گے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے بجائے خود آئے ہیں اور ا ن کی واپسی کسی بھی سیاسی سمجھوتے کا حصہ نہیں ۔کیونکہ نواز شریف کے پیچھے ڈیل کی یہ کہانی پیچھا کرتی رہے گی اور ان کی تقریر میں جو جوش تھا وہ کم اور فکرمندی یا ایک بڑا دباؤ زیادہ غالب نظر آیا ۔
اسی طرح یہ نقطہ مسلم لیگ ن کی ضرورت تھی کہ نواز شریف کا واپس آنا اور انتخابی مہم میں حصہ لینا ناگزیر تھا ۔کیونکہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ ن کی سیاسی یا انتخابی مہم میں جان نہیں پڑسکتی تھی ۔ اس لیے نواز شریف کی واپسی نے یقینی طور پر مسلم لیگ ن کے مردہ جسم میں جان ڈالی ہے لیکن کیا واقعی وہ چیئرمین تحریک انصاف کے ووٹ بینک کا سائز کم کرسکیں گے ۔
اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومتوں کی مدد ایک طرف مگر یہ پہلو اہم ہے کہ کیا ووٹرز کی بڑی تعداد نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ کیونکہ ڈیل کی سیاست غالب رہتی ہے تو اس کا فائدہ نواز شریف کو کم اور چیئرمین تحریک انصاف کو زیادہ ہوگا۔ پھر مزاحمتی سیاست کا کارڈ نواز شریف کے پاس نہیں بلکہ چیئرمین تحریک انصاف کے پاس ہوگا۔
نواز شریف کی واپسی پر جو سیاسی دربار مینار پاکستان پر سجایا گیا اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ ایک بڑا جلسہ تھا ، لیکن اس جلسے میں لاہور جو ان کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر سمجھا جاتا ہے ،کوئی بڑا پرجوش منظر نامہ یا جوش وخروش دیکھنے کو نہیں مل سکا ۔ایک انگریزی معاصر کی ایک رپورٹ میں بھی یہی لکھا گیا ہے ۔
اس کی ایک وجہ نوجوانوں میں چیئرمین تحریک انصاف کی مقبولیت ہے، ان کی مزاحمتی سیاست نے مسلم لیگ ن کی سیاست کو عملاًکمزور کیا ہے ۔لیکن اب دیکھنا ہوگا کہ نواز شریف نوجوان ووٹرز اپنی طرف کیسے لاتے ہیں۔ فعال کرتی ہے ۔
نواز شریف کے سیاسی حامی اورمیڈیا میں موجود ان کے حامی اینکرز، تجزیہ کار اور کالم نویس انھیں '' ایک سیاسی مسیحا '' کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔ان کی گفتگو سے یہ ہی تاثر ملتا ہے کہ شاید پہلی بار نواز شریف کا سیاسی ظہور ہورہا ہے ۔ نواز شریف کی سیاست کوئی نئی نہیں اور جو لوگ ان کی سیاست کو سمجھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ دوران اقتدار اور اقتدار سے باہر کی سیاست مختلف ہے۔
یہی پہلو ہمیشہ ان کی سیاست کے تضادات، ٹکراؤ اور ذاتی سیاست کے مسائل کو نمایاں کرتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے بقول نواز شریف نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے ۔ یہ ہی منطق و دلیل ان کی جدہ سے جلاوطنی کے بعد بھی دی گئی تھی ، مگر کچھ نہیں بدلا تھا ۔
اس وقت قومی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان جو بڑا ٹکراؤ ہے، اس نے اسٹیبلیشمنٹ کو نواز شریف کے قریب کیا ہے، جیسے 2018کے انتخابات میں نواز شریف کے مقابلے میں عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پزیرائی دی گئی تھی اور اب یہ کھیل ان کی مخالفت میں اور نواز شریف کی حمایت میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ نواز شریف کا پہلا چیلنج پنجاب میں اپنی مرضی کے نتائج کا حصول ہے۔
اس کے بعد وہ خود وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں یا اپنی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پوزیشن پر دیکھنا ان کی خواہش ہے ۔لیکن اس کھیل میں وہ تنہا کچھ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان کے پاس اب وہ بڑا ووٹ بینک ہے جہاں وہ کوئی بڑا بریک تھرو کرسکیں گے ۔ ان کی طاقت اپنے ووٹ بینک سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے جڑی ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ چیئرمین تحریک انصاف سے اسٹیبلشمنٹ کی دوری کا براہ راست فائدہ ان کی سیاست کو ہو۔
نواز شریف یا ان کی جماعت کو یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔لیکن کیا محض اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ ہی وہ سب کچھ فتح کرسکیں گے، ممکن نہیں۔ سب سے پہلے تو ان کو جہاں قانونی مسائل کا سامنا ہے، وہیں ان کو سیاسی محاذ پر اور اپنی جماعت کی داخلی سیاست سمیت ووٹ بینک کی سیاست پر کافی مسائل کا سامنا ہے اور ا ن سے نمٹے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکیں گے ۔