لیاری صدیوں پرانی بستی
لیاری کراچی کی قدیم ترین بستی ہے جسے اگر کراچی کی ماں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
لیاری کراچی کی قدیم ترین بستی ہے جسے اگر کراچی کی ماں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ لیاری ندی کے کنارے آباد اس بستی کا رقبہ 1800 ایکڑز پر مشتمل ہے۔ لیاری کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ سے بھی زیادہ ہے گیارہ یونین کونسلز پر مشتمل لیاری میں مختلف قومیتیں آباد ہیں جن میں بلوچ، لاسی،کچھی میمن، بوہری، سندھی، پٹھان، پنجابی، ہندو اور عیسائی بھی اس آبادی کا حصہ ہیں۔
لیاری مچھیروں اور محنت کشوں کی وہ بستی ہے جس کی کوکھ سے کراچی نے جنم لیا یہاں کے زیادہ تر لوگ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں یا ملازمت پیشہ ہیں۔ گزشتہ 7سالوں سے لیاری کے حالات کی ابتری میں ناگفتہ بہ اضافہ ہوا ہے۔ لیاری کا اپنا ایک سیاسی مزاج ہے اور یہاں کے لوگ سیاسی طور پر بڑے سر گرم ہیں اس کے باوجود ان کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں جس کی وجہ سے بعض لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ ان ابتر حالات سے لیاری کا اپنا مخصوص انداز بہت متاثر ہوا ہے۔ اس تکلیف دہ صورتحال نے بہت سارے مسائل کو جنم دیا اور اس حوالے سے بہت ساری تنظیموں نے لیاری کے لوگوں خصوصی طور پر نوجوانوں کو مایوس کن حالات اور ماحول سے دور کرنے کے لیے بہت سے پروگرام ترتیب دیے۔
''لیاری امن کانفرنس'' اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اس کانفرنس کے ذریعے ہم نے لیاری کے تابناک ماضی کو اجاگر کرنے اور اس کے نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں سے آگاہ کرنے کی ایک کوشش کی ہے جس سے لیاری کی پرانی تہذیب وتمدن، اس میں رہنے والی مختلف طبقوں کی ثقافت، ان کے رہن سہن اور روشن پہلوؤں کو اجاگرکیا ہے جس سے لیاری کا کراچی اور ملک کے باقی حصوں سے تعلق پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ ایک کتاب شایع کی ہے۔ یہ دریا کوکوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کے حوالے سے رمضان بلوچ ،راقم الحروف اور طارق انصاری نے اس سلسلے میں علم وتحقیق اور اپنی مہارت سے کم وقت میں یہ مشکل کام سر انجام دیا ہے۔ اس کانفرنس میں ایسے سیشن رکھے گئے جس میں لیاری کے بارے میں عوام الناس کو ایک حقیقی تصویر دکھائی جا سکے کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم تصویر کے ایک رخ کو دیکھ کر ایک ہیولہ بنا لیتے ہیں جو اکثر صحیح نہیں ہوتا۔ لیاری کے ہنر مند لوگوں کے فن پاروں کو ثقافتی اسٹالوں کے ذریعے پیش کیا گیا اور لیاری کی تاریخی تصاویر کے ذریعے خوبصورت ماضی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہماری ٹیم جس میں ہمارے بورڈ ممبران اور ایڈوائزری بورڈ کے ممبران خاص طور پر ڈاکٹر جبار خٹک، ڈاکٹر فوزیہ خان، عبدالرحیم موسوی، انیس دانش، عابدہ میمن، نسیم بخاری، یوسف بلوچ، صابرہ عبدالغنی اور رزاق کامران نے ایثار کیا اور بہت ساتھ دیا اور اس مشکل مرحلے کو آسمان کرنے میں مدد دی، اس کے علاوہ ہماری ٹیم میں عظمت قاضی، حاصل مراد، سہیل یونس، ابو ذر موسوی، حسیب کاظم، محمد عارف بلوچ، اشفاق مینگل اور تصور عباس نے اس مشکل چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اس کے لیے دن رات محنت کی جس کے لیے یہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں جب کہ سندھ گریجویٹ ایسوسی ایشن تھردیپ، WINF، میزان بینک، ایکشن ایڈ، SPO لیاری کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ اور عوامی آواز جیسے اداروں نے دامے درمے، سخنے، قدمے ہمارا ساتھ دیکر اس پروگرام کو کامیاب کروایا۔ تاہم ہمارے پارٹنر (KARACHI YOUTH INITIATIVE) کی مالی اور تکنیکی مدد کے بغیر اس کانفرنس کا انعقاد ہمارے لیے انتہائی مشکل ہوتا جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔''
''لیاری صدیوں سے'' 156 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی کتاب ہے۔ جو لیاری کی مثبت رخ کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کتاب میں شامل تحقیقاتی مضامین کے عنوانات سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ کس قدر معلوماتی ہے۔ اس کتاب میں گل حسن کلمتی کے 8مضامین ہیں جن کے عنوانات یہ ہیں۔
٭ لیاری کا نام کیسے پڑا؟ ٭ لیاری کی قدیم بستیاں ٭ تقسیم سے قبل لیاری میں انتخابی عمل ٭ تقسیم کے بعد لیاری میں سیاست ٭ وہ شخصیات جنھوں نے لیاری کو اپنا مسکن بنایا ٭ لیاری میں ادب و صحافت ٭ لیاری میں سماجی تنظیموں کی ابتدا۔٭ لیاری کے مشہور فنکار، گلوکار اور اسپورٹس مین ۔بلوچ دانشور محمد یوسف نسکندی کا ایک مضمون ''کراچی میں بلوچوں کا تاریخی پس منظر۔ راقم الحروف کے 5تحقیقاتی مضامین ٭ لیاری کے تاریخی پس منظر میں آبادی پر ایک نظر ٭ کراچی میں بلوچوں کی سیاسی و سماجی حیثیت۔٭ لیاری کے مختلف شعبہ ہائے زندگی ٭ لیاری میں گندے پانی کی نکاسی کا قدیمی نظام ٭ لیاری کا دل آٹھ چوک پر ایک نظر۔ شامل ہیں۔
شاعری میں حبیب جالب کا ''اے مدیر امن'' اور نثری نظم، نور محمد شیخ کا شامل ہے۔ رمضان بلوچ کی یادوں پر مبنی تین مضامین، ٭ لیاری میں موروثی سیاست پر ایک نظر ٭ ایل ڈی اے کے ثمرات سے لیاری کیوں محروم؟ ٭ چاکیواڑہ ٹرام جن کشن کی یادیں، شامل ہیں۔٭ پرنس لیاری، پر امن لوگ: لیاری میں کچھی برادری کی داستان (اسحاق یوسف) ٭ کمہار واڑہ لیاری کی کہانی (رضوان طارق) ٭ خواتین کی ترقی میں لیاری کی سماجی تنظیموں کا کردار (صبیحہ شاہ) گل محمد کھتری (ڈاکٹر فیروز خان) ٭ لیاری کی خوشگوار یادیں (ڈاکٹر عبدالقدیر خان) لیاری میں لیز کا اجرا اور اس کی اہمیت (منیر اختر) ٭ لیاری فٹ بال کے شائقین کے لیے برازیل تھا (نذیر لغاری) اور ٭ لیاری: سنجیدہ کوششوں کی شدید ضرورت ہے (ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کے مضامین بھی شامل ہیں جو لیاری کی ماضی پر روشنی ڈالتے ہیں۔ علاوہ ازیں کتاب میں لیاری کے حوالے سے اعداد و شمار بھی شایع کی گئی ہیں۔ کتاب کا دوسرا حصہ انگریزی زبان میں ہے جس میں لیاری کے متعلق مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ مجموعی طورپر یہ ایک ریفرنس کتاب ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے پڑھنا ضروری ہے جو لیاری کو صرف ''جرائم پیشہ عناصر کی آماج گاہ'' کہتے ہیں۔