پاکستان میں تھیٹر کی موجودہ صورتحال
تھیٹر کی دوسری قسم ’’سنجیدہ تھیٹر‘‘کی ہے،جس میں مختلف ادوار میں کئی لوگوں نے کام کیا اور ایک حد تک کامیابی بھی حاصل کی
برصغیر پاک وہند کا خطہ تھیٹر جیسے فن کے لیے ہمیشہ سے زرخیز رہا ہے۔ قصہ گوئی اور لوک تماشے یہاں اس فن کی ابتدائی شکل تھے۔پاکستان میں تھیٹر بنیادی طور پر دو مکتبہ فکر میں تقسیم ہے۔یہ دونوںآپس میں بحث ومباحثے کے ذریعے دونوں ایک دوسرے کے خلاف اوراپنے حق میں دلائل دیتے نظرآتے ہیں ،مگر دونوں طبقہ فکر میں ایک بات یکساں دکھائی دیتی ہے، وہ تھیٹر سے زیادہ معاشی سطح پر کامیابی حاصل کرنا ہے۔اس لیے کمرشل تھیٹر والے ہوں یا سنجیدہ تھیٹر والے،دونوں وہی انتخاب کرتے ہیں،جس کی بدولت وہ چارپیسے کما سکیں،مگر اس فن میں کئی لوگ اتنے تاک ہوگئے ہیں ،کہ بات چار پیسے کمانے سے بھی آگے نکل گئی ہے۔یہ الگ بات ہے، وہ پھر بھی خود کو تھیٹر کا خدمت گار ہی کہلواتے ہیں۔
پہلی قسم کو''کمرشل تھیٹر''کہاجاتاہے،جس میں ڈرامے کی کہانی کے مناظر کے لحاظ سے کسی مخصوص سیٹ ڈیزائننگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک کے بعد دوسرا کردار اسٹیج پر آتاہے اورجملے بازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔اس ماحول کو مزید گرمانے کے لیے ایک الھڑ حسینہ رقص پیش کرتی ہے ۔یہ ساری سرگرمی کو ''کمرشل تھیٹر'' کانام دیاگیاہے،اس نوعیت کا تھیٹر لاہور اورپنجاب کے دیگر شہروں میں بے حد مقبول ہے،جب کہ کراچی اورپشاور میں بھی مقامی انداز میںتھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ اس نوعیت کے ڈرامے اسٹیج پر پیش کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ابھی جس طرز کاانگریزی تھیٹرپیش کیا جا رہاہے،اس کو دیکھ کربھی ایسا لگتاہے،جیسے لاہور میں ہونے والے کمرشل تھیٹر کو جدید رنگ وروپ دے دیاگیاہو،تھیٹر کے نام پر کام دونوں ایک ہی طرح کا کر رہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پنجابی زبان میں ہونے والا کمرشل تھیٹر ہو یا پھر انگریزی زبان میں پیش کیاجانے والا کمرشل اسٹیج ڈراما ،دونوں کے ہائوس فل ہیں، تو کیا بامقصد تھیٹر کے زوال میں شائقین تھیٹر بھی ذمے دار ہیں؟
کمرشل تھیٹر کے نام پر ہونے والے اسٹیج ڈرامے کئی برسوں سے ہورہے ہیں،اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کہ انھیں اسٹیج ڈراموں نے ہمیں ٹیلی ویژن کے لیے کئی بہترین فن کار بھی مہیا کیے،جس کی مثال ،معین اختر، مستانہ اور البیلا ،امان اللہ ،سہیل احمد اورعمر شریف جیسے نام ہیں۔پچھلی دو دہائیوں سے یہ اسٹیج ڈرامے مقبولیت سمیٹ رہے تھے،حتیٰ کہ ایک دور وہ بھی تھا ،جب ان ڈراموں کے بیشمار آڈیو اور ویڈیو کیسٹ بھی فروخت ہوتے تھے بہرحال اس ''کمرشل تھیٹر''سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم نے تھیٹر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
تھیٹر کی دوسری قسم ''سنجیدہ تھیٹر''کی ہے،جس میں مختلف ادوار میں کئی لوگوں نے کام کیا اور ایک حد تک کامیابی بھی حاصل کی۔اس قسم کے تھیٹر والوں کا خیال ہے کہ انھوں نے مقصدیت کے تحت تھیٹر کے فن کو بطور ہنر استعمال کیا اور''کمرشل تھیٹر ''کو وہ اس فن کا حصہ نہیں مانتے۔قیام پاکستان کے بعد اس طرز کے تھیٹر کے فروغ میں ریڈیوکے ڈرامے نے بنیادی کردار ادا کیا،پھرٹیلی ویژن نے بھی اس کے رجحان میں اضافہ کیا۔ان دونوں میڈیم سے کئی اداکار ''سنجیدہ تھیٹر''کی طرف گئے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں مقصدیت کے تحت تھیٹر کے فن کوکئی لوگوں نے برتا اور نام پیدا کیا،ان میں تحریک نسواں، اجوکاتھیٹر،دستک، تھیٹر والے،رفیع پیر تھیٹر جیسے تھیٹر کرنے والے گروپ تخلیق ہوئے،جنہوں نے بامقصد تھیٹر کے لیے کام کیا۔اسی طرح انفرادی حیثیت میں ضیا محی الدین،کمال احمد رضوی، فردوس جمال،سبحانی بایونس اوردیگر کئی بڑے بڑے تھیٹر کی جدوجہد میں کوشاں رہے۔ ہرچند کہ یہ ایک دوسرے سے متفق نہیں۔ہر کوئی یہ سمجھتا ہے، اس نے سب سے زیادہ اس فن کی خدمت کی ہے۔عصر حاضر میں تھیٹر کے حوالے سے جب مزید شعور بیدار ہوا، تو بین الجامعاتی تھیٹر کے مقابلوں نے اس فن کو مزید فروغ دیا۔یوں دھیرے دھیرے کمرشل اور سنجیدہ تھیٹر نے اپنے اپنے شائقین کی توجہ اور راستے وضع کرلیے۔
موجودہ دور میں صرف کراچی میں تقریباً ایک درجن تھیٹر گروپ پیشہ ورانہ طور پر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں،جن میں ضیا محی الدین کی نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ''ریپٹری تھیٹر'' کے علاوہ ''ندابٹ'' کے '' میڈ فور اسٹیج پروڈکشن ''کے تحت ہونے والے تھیٹر کے کھیل ''انور مقصود ''کا ''پونے چودہ اگست'' اور'' شاہ شرابیل''کے فل ہائوس کرنے والے رنگی برنگی روشنیوں والے ڈرامے شامل ہیں۔ یہ سب جدید تھیٹر کا منظر نامہ ہے،جس میں روایتی اور جدید دونوں انداز کا تھیٹر پیش کیا جا رہا ہے۔معیار اور موضوعات میں یہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔
ریڈیو پاکستان اورپاکستان ٹیلی ویژن سے ہوتے ہوئے اسٹیج پر کمرشل اور مقصدیت کو پھلانگتا ہوا اکیسویں صدی میں یہ تھیٹر پاکستان میں اب ایک نئی قسم میں تبدیل ہونے جا رہا ہے،یہ عجیب قسم کا تھیٹر ٹاک شوز میں مکالماتی انداز میں کیا جانے والا تھیٹر ہے۔کمرشل اورسنجیدہ دونوں انداز کے تھیٹر والے حربوں کا استعمال کرکے اس تھیٹر کو ایک نئی شکل دی جا رہی ہے۔
اس تھیٹر کے تین پہلو ہیں۔''سیاست،مذاق اور تھیٹر کا انداز''مختلف چینل اس تھیٹر کی نئی قسم کو اپنے اپنے انداز میں دکھا رہے ہیں ،کسی چینل نے ایک جگت باز ،کسی نے تین اورکسی نے چھ جگت باز بٹھائے ہوئے ہیں،وہ کام جو اسٹیج پر وہ کھڑے ہوکر کرتے تھے،وہ اب وہاں بیٹھ کر کر رہے ہیں اور جو لوگ تھیٹر ہالوں میں ان کو سننے جاتے تھے،وہ اب گھر بیٹھ کر انھیں سنتے ہیں۔اب تھیٹرکو سیاست کی پڑیا میں باندھ کر گھرگھر پہنچا دیا گیا۔یہ کمرشل تھیٹر کی ایڈوانس شکل ہے۔
سنجیدہ تھیٹر والوں کی ساری محنت آرٹ فلمیں لے اڑتی ہیں،مگر وہ پھر بھی کسی حد تک اپنا کام کررہے ہیں۔ کراچی میں قائم نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس اس کی ایک واحد مثال ہے،جس نے تھیٹر کو اس کی حقیقی صورت میں پیش کرنے کی سعی کی اورکر رہا ہے،لیکن شاید اس کا یہی جرم ہے کہ دنیا کے اعلیٰ لکھنے والوں کی کہانیوں پر کئی کئی مہینوں کی ریاضت کے بعد جب وہ کھیل اسٹیج کیا جاتا ہے،تو ہال کی کافی کرسیاں خالی رہ جاتی ہیں۔سنجیدہ تھیٹر کے فروغ کے لیے صرف تھیٹر کرنا ہی ضروری نہیں، بلکہ ہمارا سنجیدہ ہونا بھی ضروری ہے،مگر کیا ہم اس فن کے احیا میں سنجیدہ ہیں ؟
مغربی دنیا میں تھیٹر ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ہالی ووڈ کے متعدد فنکار تھیٹر کی تربیت لینے کے بعد فلمی صنعت میں داخل ہوتے ہیں،کیونکہ یہ ایک ایسا میڈیم ہے،جس میں روز نئے سرے سے آپ کو اپنا کام کرنا ہوتا ہے بنا کسی غلطی کے،مگر اتنی ریاضت ہمارے ہاں کون کرنا چاہے گا،جب یہ بھی پتا ہوکہ سنجیدہ تھیٹر کے لیے تو ہائوس بھی فل نہیں ہوتا۔بھارت میں بھی تھیٹر کی اہمیت برقرار ہے۔ان کی فلمی صنعت مکمل طور پر گلیمر کی چکاچوند سے منور ہے،لیکن اس کے باوجود وہاں نصیرالدین شاہ، اوم پوری، عرفان خان، نواز الدین صدیقی جیسے اداکار موجود ہیں،جن کا پس منظر تھیٹر کا ہی ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے نہ صرف بھارتی بلکہ عالمی فلمی صنعت میں اپنا نام بنایا۔ پاکستان کو پھر سے اچھے اور معیاری تھیٹر کی ضرورت ہے،جس کے ذریعے سے نہ صرف ایک تفریح کے بہترین میڈیم کو زندہ رکھا جائے، بلکہ اس میڈیم کے ذریعے ہمارے معاشرے کے مسائل کی عکاسی بھی کی جائے۔
رواں برس نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں عالمی تھیٹر فیسٹیول ہوا،جس میں دنیا بھر سے تھیٹر کرنے والے شریک ہوئے اوردنیا کو یہ پیغام ملا کہ ہم بھی پرامن لوگ ہیں،لیکن اگر تھیٹر کو صرف ٹیلی ویژن یا اسٹیج پر مذاق اڑانے کی حد تک محدود کیا گیا، تو پھر تھیٹر کی عالمی دنیا میں ہم خود بھی ایک مذاق بن کر رہ جائیں گے۔حکومت پاکستان اور متعلقہ اداروں کو تھیٹر کی بقا اور اس کے لیے سنجیدہ کوششوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ فن وثقافت بھی کسی قوم کے مزاج کا تعارف ہوا کرتی ہے۔