پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی
ہندوستان کی ٹیم تو اس وقت ایک چوٹی کی ٹیم ہے لیکن ہماری ٹیم تو افغانستان کی ٹیم سے بھی ہار گئی ہے
ہماری کرکٹ ٹیم کے ورلڈ کپ میں کھیل کو دیکھتے ہوئے ایک واقعہ یاد آ گیا یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں وزارتِ مواصلات میں تعینات تھا۔ کولمبو میں سارک تنظیم کے زیرِانتظام وزراء مواصلات و ٹرانسپورٹ کی ایک کانفرنس ہونے جا رہی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک ایم این اے وزیرِ مواصلات تھے۔ اس کانفرنس کے لیے ایک بڑا وفد ترتیب دیا گیا تھا جس میں وزارتِ مواصلات کے ساتھ ساتھ،وزارتِ خارجہ ، وزارتِ دفاع اور ریلوے سے بھی افسران نے شرکت کرنی تھی۔
وفد کی سربراہی وزیرِ مواصلات نے کرنی تھی لیکن وہ گو مگو میں تھے اور پروگرام فائنل نہیں ہو رہا تھا۔روانگی سے صرف دو دن پہلے انھوں نے اپنے گھر سے پیغام دیا کہ وہ نہیں جا رہے۔اب غور شروع ہوا کہ کیا کیا جائے۔سیکریٹری خارجہ سے بات ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ پاکستان کی شرکت بہت ضروری ہے۔
اگلے دن وزیرِ مواصلات کی اجازت سے میرے جانے اور وفد کی قیادت کی قرارداد ٹھہری۔یوں جلدی میں پروگرام بنا ۔کانفرنس کی تیاری کا کوئی موقع نہ ملا۔ کولمبو کے لیے ڈائریکٹ فلائٹ نہ ہونے کی وجہ سے براستہ دبئی روانگی ہوئی۔وفد کے شرکاء سے وہیں دبئی ہوائی اڈے پر ملاقات ہوئی اور دبئی سے ہم اکٹھے کولمبو روانہ ہوئے۔کولمبو پہنچے تو بڑا اچھا استقبالی انتظام تھا۔
سری لنکا نیا نیا تامل ٹائیگرز کی بغاوت اور اس کے نتیجے میں تکلیف دہ خانہ جنگی سے نکلا تھا اس لیے کولمبو ہوائی اڈے سے ہوٹل تک جا بجا چیک پوسٹیں دیکھنے کو ملیں،ساحلِ سمندر کے بالکل قریب ہلٹن کولمبو میں ٹھہرایا گیا۔ ایشیائی ممالک میں ہونے والی کانفرنسوں میں پروٹوکول اور کھانے پینے پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔
اس کانفرنس میں بھی یہی کچھ تھااگلے دن صبح کانفرنس کا افتتاحی اجلاس تھا۔ چند ایک رسومات کی ادائیگی کے بعد تمام ممبر ممالک کی طرف سے افتتاحی Statements تھیں۔مجھے تو پاکستان میں تقریر تیار کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔وزیر صاحب نے بھی کوئی کاغذات نہیں بھجوائے تھے البتہ ہوٹل پہنچ کر وفد کے شرکاء کے ساتھ بیٹھ کر مشورے سے ایک امریکامنٹ تیار کر لی گئی تھی اور اسےVettingاور انفارمیشن کے لیے وزارتوں کو بھجوا دیا گیا تھا۔پاکستان کی باری آنے پر وہ اسٹیٹمنٹ پڑھ دی گئی۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم اُن دنوں سری لنکا کے دورے پر تھی۔کولمبو میں ٹیسٹ میچ شروع ہو رہا تھا اس لیے کرکٹ سے متعلق گفتگو کو Avoidنہیں کیا جا سکتا تھا۔سری لنکا کے وزیر نے مجھ سے دریافت کیا کہ آیا میں اپنے وفد کے ساتھ میچ دیکھنے جاؤں گا۔
میں نے افسران سے پوچھا تو صرف ریلوے کے ایک افسر نے میچ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔سری لنکن انتظامیہ نے اُن کے لیے بندوبست کر دیا۔اگلی شام سری لنکن وزیرِ ٹرانسپورٹ کی طرف سے ایک بڑی دعوت کا پروگرام تھا جس میں مشہور گائیک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔وزیرِ موصوف کی اہلیہ بھی گانا گانے والوں میں شامل تھیں۔
جب پروگرام کے لیے پہنچے تو ہندوستان کے وزیرِ مواصلات اور میرے درمیان بنگلہ دیش اورنیپال کے وزرا بیٹھے ہوئے تھے۔چند ہی منٹوں کے بعد ہندوستانی وزیرِ مواصلات نے دونوں وزرا سے بات کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو ہندوستان اور پاکستان کی نشستیں اکٹھی کر دی جائیں۔وہ مان گئے اور انڈین وزیر اور میں اکٹھے ہو گئے۔
انڈین وزیرِ مواصلات اچھے قد کاٹھ اور اچھی شکل و صورت کے حامل تھے۔میرے بیٹھتے ہی انھوں نے بتایا کہ ان کے آباؤ اجداد ساہیوال کے رہنے والے تھے۔سارا خاندان ابھی تک ساہیوال کو یاد کرتاہے۔ہم دونوں کے درمیان بہت اچھی گپ شپ رہی ۔دورانِ گفتگو کرکٹ کی بات چل نکلی۔شومئی قسمت سے اس دن گراؤنڈ پر ہماری ٹیم کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔
انڈین وزیر میچ کی پیش رفت سے آگاہ تھے۔کہنے لگے پاکستان کی ٹیم بہت اچھی ہے لیکن اس کی کارکردگی یکساں نہیں رہتی۔
میچ شروع ہونے سے پہلے ٹیم کی کارکردگی کے بارے میں کبھی کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ایک دن یہ ٹیم اتنا زبردست کھیلتی نظر آتی ہے گویا کہ اس جیسی کوئی دوسری ٹیم نہیں جب کہ اگلے ہی روز یوں عامیانہ کھیل پیش کر رہی ہوتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ایک دن Demigodsکی طرح کھیلتی ہے جب کہ اگلے دن کسی محلے کی ٹیم کی طرح۔
انڈین وزیرِ موصوف کی رائے توجہ طلب ہے کیونکہ یہ ایک فریقِ مخالف،ایک حریف کی رائے ہے۔ یہ رائے ایک دہائی سے زیادہ پرانی ہو چکی ہے جب کہ اس دوران ہماری ٹیم مزید کمزور ہوئی ہے۔ پاکستان میں سیاست اور معیشت کو کئی چیلنجز درپیش ہیں ۔ ہر شعبۂ زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔کرکٹ کا کھیل بھی ہماری سیاست کی زد میں رہا ہے۔
کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی مسند کے ساتھ عزت وشرف اور بے پناہ مراعات و سہولیات جڑی ہوئی ہیں اس لیے اس مسند کے لیے چھینا جھپٹی جاری رہتی ہے۔یہ کرسی ایک میوزیکل چیئر بنی ہوئی ہے۔وہی پرانے چہرے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے اگر ماضی میں انھوں نے اس کھیل کو کچھ نہیں دیا تو اب کیا دیں گے۔پچھلے کئی سالوں سے کوئی انتظامیہ بھی موثر نہیں رہی اس لیے ہماری ٹیم کی کارکردگی بہت ناقص رہی ہے۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم میںسفارش اور اقرباپروری کا عنصر بہت نمایاں ہے۔
کپتان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں امید ہو چلی تھی کہ ہماری ٹیم دنیا کی بہترین ٹیم بن جائے گی، تمام ضروری اور اہم فیصلے ہو پائیں گے اور خامیاں دور ہو جائیں گی لیکن ان کے دور میں بھی کچھ نہیں ہوا۔شاید ان کی مصروفیات نے انھیں اس طرف پوری توجہ نہیں دینے دی ۔ایشیا کرکٹ کپ میں ہی نظر آنے لگا تھا کہ ہماری ٹیم کسی بھی بڑے ایونٹ کے لیے تیار نہیں ہے۔سب سے پہلے تو ہمارے کھلاڑیوں کی جسمانی فٹنس اچھی نہیں ہوتی۔
آئے روز ہمارے کلیدی کھلاڑیوں میں سے ایک یا دوانجری کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل کرکٹ کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس بہتر کی گئی تھی لیکن اگر یہ کام ہر سال میں چند ہفتے کر لیا جائے تو شاید بہتری آ جائے۔ورلڈ کپ میں ابتک ہماری ٹیم کی پرفارمنس بہت ناقص رہی ہے۔ہم نے جو دو میچز جیتے ہیں۔
ان میں بھی ہماری جیت بہت مارجن سے نہیں تھی۔ہندوستان کے ساتھ میچ میں ہماری ساری ٹیم دبی دبی سی رہی اور ایک موقعے پر جب ہم ایک بڑا ٹوٹل بنانے کے قابل تھے اگلے صرف36رنز میں ٹیم کولیپسCollapsکر گئی۔ ہماری ٹیم کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انڈین کرکٹ اسٹار ٹنڈولکر نے افسوس بھرے لہجے میں کہا کہ پاکستانی ٹیم میں جذبہ مفقود ہے،کہ جذبے کے بغیر ٹیم کا کم بیک کرنا محال ہو گا۔
ہندوستان کی ٹیم تو اس وقت ایک چوٹی کی ٹیم ہے لیکن ہماری ٹیم تو افغانستان کی ٹیم سے بھی ہار گئی ہے۔جب ٹنڈولکر نے کمنٹ کیا تو برا لگا تھا لیکن شاید اس کی رائے ایک ایکسپرٹ کی رائے تھی جو سچ ثابت ہوئی۔
افغانستان سے شکست کے بعد ہماری ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے کہا کہ اگر ہم بیٹنگ اچھی کر لیتے ہیں تو باؤلنگ اچھی نہیں کر پاتے اور اگر باؤلنگ بہتر ہو تو بیٹنگ فیل ہو جاتی ہے۔ہماری فیلڈنگ تو کبھی بھی معیاری نہیں رہی۔ وہ کیچ جو بظاہر بہت سادہ اور آسان ہوتا ہے وہ بھی ہمارے کھلاڑی سے چھوٹ جاتا ہے۔
کیچز میچ جتواتے ہیں اور کیچ پکڑنے کے لیے پریکٹس، حاضر دماغی اور فزیکل فٹنس اہم ہوتی ہے۔ جس پچ پر دوسری ٹیمیں آسانی سے رن بنا رہی ہوتی ہیں ہمارے کھلاڑیوں کے لیے وہی پچ مشکل بن جاتی ہے۔ کھیل تو ریلیکس کرنے اور انجوائے کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ کھلاڑی اور پریشر دو متضاد چیزیں ہیں۔ جو کھلاڑی پریشر لیتا ہے یا تو اس کی کھیل کے لیے تربیت پروفیشنل نہیں ہوئی یا پھر وہ ذہنی طور پر بہت کمزور ہے۔
مثبت Attitude اچھا پروفیشنل کھلاڑی بناتا ہے۔ہماری کرکٹ ٹیم پاکستان کے شہریوں کو اچھی انٹرٹینمنٹ تو دیتی نہیں ، الٹاپہلے سے پھیلی مایوسی ضرور بڑھاتی ہے۔ انتہائی مشکل حالات میں یکسو رہ کر اپنا کام کرتے جانا ہی اصلی ٹیسٹ ہوتا ہے۔قوم کی کسی بھی شعبے میں نمایندگی کرنے والوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔