اسلامی ممالک کی معیشت اور بجٹ خسارہ
بیرونی ادائیگیوں میں اضافے کے باعث ڈالر کی قدر میں دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے
غزہ پر اسرائیلی بمباری نے پوری دنیا میں اس کو رسوا کر دیا ہے، اس کی بربریت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اس کی درندگی حد سے بڑھ گئی ہے۔
اب اسرائیل دنیا کے سامنے ایک انتہائی ظالم، طاقتور ملک کے طور پر سمجھا جانے لگا ہے جس کا کام نہتے شہریوں پر بمباری کرنا رہ گیا ہے اور اب خود اسرائیلیوں میں زبردست بددلی پھیلتی چلی جا رہی ہے، اب یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہودی واپس یورپ چلے جائیں۔ اس طرح واپسی کی سوچ رکھنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے اور خود غزہ کے شہریوں سے اب اسرائیل کا خوف بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ اب انھوں نے اس بات کا تہیہ کر لیا ہے کہ '' ہم یہیں پر ہیں غزہ سے کہیں نہیں جائیں گے۔'' اسی دوران امریکا کا چہرہ بھی بے نقاب ہوکر رہ گیا ہے۔
غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت اور اسرائیل کو حاصل امریکی حمایت پر مسلم امریکی رکن کانگریس الہان عمر نے امریکی صدر جوبائیڈن کی انسانی ہمدردی پر سوال اٹھا دیا ہے اور یہ کہا کہ ہمارے پاس ایسا صدر ہے جو غزہ میں پھنسے امریکیوں کے لیے بات نہیں کرسکتا۔ دنیا کی اکثریت فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے لیکن ہندوستان کے ہندو اسرائیل کے زبردست ہم نوا بنتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسا وہ صرف مسلم دشمنی میں کر رہے ہیں۔
عرب لیگ بھی اس وقت عملی اقدامات سے کہیں دور نظر آ رہی ہے۔ غزہ میں ظلم کی انتہا ہو رہی ہے اور یہ سوال تیزی سے ابھر رہا ہے کہ عرب ممالک کہاں ہیں، اسلامی ممالک کہاں ہیں؟ البتہ بحرین میں انتہا پسند ہندو ڈاکٹر کو اسرائیل کی حمایت پر برطرف کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی سفیر نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی پراڈکٹس پر پابندی لگائیں۔
دنیا بھر کے تمام اسلامی ممالک ایسے ہیں جن کے پاس اگر تیل کی دولت نہیں ہے تو وہ غریب ممالک کی فہرست میں شامل ہیںجب وہ اپنی مصنوعات یا زرعی اجناس یا دیگر اشیا لے کر عالمی منڈی میں جاتے ہیں تو انھیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کی مصنوعات غیر معیاری ہیں، ناپائیدار ہیں، ان کی کوالٹی اچھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کی زرعی اجناس کو درجہ دوم کا ظاہر کر دیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
کبھی چائلڈ لیبر کے استعمال کا بہانہ بنا لیا جاتا ہے اور کبھی ان پر ٹیکس اور زیادہ ڈیوٹیز لگا دی جاتی ہیں۔ اس طرح وہ اس قابل بھی نہیں رہتے کہ اپنی مصنوعات کی پیداواری لاگت ہی واپس لے آئیں یا ان کی زرعی اجناس پر جتنی لاگت آتی ہے اس میں ہی انتہائی معمولی منافع کما کر زرمبادلہ واپس اپنے ملک لے کر جائیں۔ اس کے برعکس مغربی ممالک کی ہر مصنوعات انتہائی مہنگی ہوتی ہے اور مختلف ذرایع استعمال کرکے جن میں تشہیر، مارکیٹنگ اور دیگر طریقوں سے مختلف صنعتی ممالک اپنی مصنوعات غریب اسلامی و امیر اسلامی ممالک پر تھوپ دیتے ہیں اور وہ خریدنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔
کبھی فیشن کے نام سے مہنگی سے مہنگی قیمتی مشینریاں فروخت کی جاتی ہیں کہ اب کپڑوں کا نیا فیشن آگیا ہے اور ہمارے صنعتکار ان کی مانگ پورا کرنے کے لیے صنعتی ممالک سے نت نئی ٹیکنالوجی سے بھرپور ہزاروں ڈیزائن سے لیس اور دیگر بہت سی مصنوعات کی حامل مشینریاں خریدنے یا ان پر سرمایہ کاری کے لیے آناً فاناً رضا مند ہوجاتے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ تمام اسلامی ممالک کو اپنے معاشی رخ کو تبدیل کرنا ہوگا، اگر تمام اسلامی ممالک ایسا کوئی معاشی لائحہ عمل طے کر لیتے ہیں جس سے ان کی درآمدات کی اصلاح ہو جاتی ہے تو وہ اپنے اپنے بجٹ خساروں تک کو ختم کر سکتے ہیں اور اس کے مثبت اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔
آئی ایم ایف بھی جن ممالک پر مسلط ہوتا ہے تو اس کی ایک اہم شرط یہ ہوتی ہے کہ بجٹ خسارہ ختم کیا جائے۔ پاکستان نے اس شرط کو پورا کرنے کے لیے اپنی پوری معیشت کو داؤ پر لگا دیا، عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ دیے، بالآخر تازہ ترین خبر یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی یہ اہم ترین شرط پوری کرتے ہوئے بجٹ خسارہ ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ ٹیکس وصولی ہدف 65 ارب روپے سے زائد ہوا ہے۔ ریونیو میں 165 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پہلے جائزے کی تمام شرائط پوری کردی ہیں، لیکن اس شرط کو پورا کرنے کی خاطر حکومت نے بھاری بھرکم اقدامات اٹھائے ہیں جس کا اصل بوجھ عوام پر ہی ڈالا گیا ہے۔
ایک اور تازہ ترین صورت حال ڈالر کے حوالے سے سامنے آئی ہے کہ بیرونی ادائیگیوں میں اضافے کے باعث ڈالر کی قدر میں دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔ چلتے چلتے یہی عرض کر سکتا ہوں کہ حکومت ان ممالک کے ساتھ تجارت پر گہری نظر رکھے جن کے لیے ہماری کل درآمدات کا زیادہ حصہ مختص ہے۔