چند روز قبل ایک اہم شخصیت کے خطاب کی خبر نظر سے گزری، جس میں انھوں نے کہا ہے تعلیم آپشن نہیں ضرورت ہے، طلبا ملکی مسائل کا حل تلاش کریں۔ ان کا پہلا جملہ تو بالکل درست ہے کہ تعلیم ضرورت ہے لیکن دوسرے جملے پر مجھے حیرت ہوئی کہ کیا انھیں اپنے ملک کے تعلیمی نظام کی خستہ حالی کا علم نہیں؟
یہ بات درست ہے کہ طلبا کو ملکی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے اور ملک کو ترقی دینے کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ ان کی اہم ذمے داری ہے اور حصول تعلیم کا اہم مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنے مستقبل کے معمار تیار کر رہے ہیں جو ملک اور معاشرے کے مسائل کے حل کےلیے کوشش کریں اور ملک کو ترقی دینے کےلیے بہترین اقدامات کریں۔ مگر ہمارے ہاں نظام ہی ایسا ہے جو طلبا کو اس قابل نہیں بناتا۔
ہمارا تعلیمی نظام نہایت خستہ حالی کا شکار ہے، جس میں طلبا کو کچھ سکھایا نہیں جاتا، صرف لکھایا اور رٹایا جاتا ہے۔ اساتذہ بغیر تیاری کے آتے ہیں، جو کتاب پر لکھا ہوتا ہے اسے بورڈ پر لکھ دیتے ہیں۔ طلبا بورڈ سے دیکھ کر کاپی میں نقل کرلیتے ہیں اور پھر اسی کو رٹا لگا لیتے ہیں۔ اس طرح ایسے امتحانات پاس کرکے دوسرے درجے میں بیٹھ جاتے۔ یہی حال اعلیٰ ڈگریوں کا بھی ہے کہ طلبا کو کسی طرح کی تحقیق یا تخلیق کی طرف راغب نہیں کیا جاتا، فقط ڈگریوں کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے، جس میں ہر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہا ہے۔ والدین، اساتذہ، تعلیمی ادارے اور حکومت سبھی نمبروں پر توجہ دے رہے ہیں۔ کسی کو طلبا میں تعمیری و تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے کی فکر نہیں۔
علم حاصل کرتے ہوئے طلبا کو یہ سکھانا چاہیے کہ اس علم کے ذریعے سے اپنی اصلاح کریں اور اس حاصل کیے ہوئے علم سے دوسرے لوگوں کو بھی نفع پہنچائیں۔ اسی طرح معاشرے میں پیار، محبت اور اخلاص پھیلے گا۔ معلم بھی طلبا کو رواداری اور دوسروں کی خدمت کرنے کا درس دیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں علم حاصل کرنے کا اصل مقصد ہی فوت ہوگیا ہے۔ لوگ علوم و فنون سیکھتے ہیں صرف دولت کمانے کےلیے۔ شروع سے ہی بچے کو سکھایا جاتا ہے کہ پڑھ لکھ کر افسر بننا ہے۔ اس لیے بچے کے ذہن میں یہ بات پختہ ہوجاتی ہے اور وہ صرف حصول ملازمت کےلیے ہی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ ٹھیک ہے افسر بننا اچھی بات ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ انہیں دوسروں کےلیے ہمدردی بھی سکھانی چاہیے۔
علم کے ذریعے سے اپنی اصلاح یا معاشرے کی فلاح و بہبود کا جذبہ تو بالکل ہی مفقود ہوگیا ہے۔ آج ہمارے طلبا بھی مضامین کا انتخاب کرنے میں اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ان مضامین کا انتخاب کیا جائے جن کو پڑھنے کے بعد ملازمت کے مواقع زیادہ ہوں یا زیادہ دولت کمائی جاسکے۔ حالانکہ مضامین کے انتخاب کا درست طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مضامین منتخب کیے جائیں جن میں طالب علم کو دلچسپی زیادہ ہو۔ کیوں کہ جس مضمون میں دلچسپی ہو اور اسی کو پڑھا جائے تو زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں، بجائے اس مضمون کے جس میں دلچسپی نہ ہو یا مضمون کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کس فن کی معاشرے میں ضرورت ہے۔ اس فن سے متعلقہ مضمون کو اختیار کیا جائے تاکہ اپنے علم کے ذریعے سے معاشرے کو نفع پہنچایا جاسکے مگر ہمارے معاشرے میں صرف ان مضامین کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کے ذریعے سے دولت زیادہ کمائی جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں ہمیں ہر طرف ملازمت کی تلاش میں ڈگریاں اٹھا کر گھومنے والے تو بہت ملتے ہیں مگر معاشرے کی خدمت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔
معاشرے میں خودغرضی کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی تنخواہوں میں اضافے کےلیے اساتذہ طلبا کو پڑھانا چھوڑ کر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنی مراعات کے حصول کی خاطر ڈاکٹر تڑپتے مریضوں کو اسپتالوں میں چھوڑ کر سڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے تعلیم ہی اپنی دولت کمانے کےلیے حاصل کی ہے، نہ کہ اپنی اصلاح اور انسانیت کی خدمت کےلیے۔ جب ہر ایک کی ترجیح حصول ملازمت ہے تو اس وجہ سے آج بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور اس اضافے کو دیکھ کر بہت سے نوجوانوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ پڑھ کر کیا کریں گے، نوکری تو ملتی نہیں۔ ان کی یہ بات سن کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آج حصول علم کا مقصد فقط حصول ملازمت یا حصول زر ہے۔
طلبا کے حصول تعلیم کا مقصد فقط سرکاری ملازمت ہوتی ہے کہ کسی طرح ڈگری حاصل کریں اور اچھی سرکاری ملازمت مل جائے، ان کی تعلیم کا مقصد صرف اتنا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں تمام ڈگری ہولڈر ملک کو فائدہ پہنچانے میں ناکام ہیں بلکہ وہ ملک پر بوجھ بنتے جارہے ہیں، کیونکہ وہ ڈگریاں اٹھا کر سرکاری ملازمت ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ سرکاری ملازمت نہ ملنے پر پرائیویٹ ملازمت تلاش کرنے لگ جاتے ہیں اور انتہائی کم تنخواہوں پر ملازمتیں کرتے رہتے ہیں، جو ان کی اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے بھی ناکافی ہوتی ہے تو ملک کو انہوں نے کیا فائدہ پہنچانا ہے یا ملکی مسائل کا حل کیا تلاش کرنا ہے؟
ہمارے تعلیمی نظام میں فنی تعلیم کی بھی کمی ہے۔ یہاں ڈگریوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے جبکہ ملکی ترقی میں ہنرمند لوگ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا طلبا کو اگر ڈگریوں کے حصول میں پڑنے کے بجائے فنی تعلیم دے دی جائے تو یہ نہ صرف اپنے لیے بہترین روزگار کا انتظام کرسکتے ہیں بلکہ ملک کے لیے بھی انتہائی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ جب کسی طالب علم کے پاس علم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی ہوتا ہے تو وہ ملازمتوں کی تلاش کے بجائے تعلیم سے فارغ ہوتے ہی اپنا کام شروع کردیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے لیے بہترین روزگار کا انتظام بھی کرتا ہے اور ملک کی صنعت و حرفت کی ترقی کا باعث بھی بنتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اکثر ممالک میں طلبا کو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سکھایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے اندر ہی انہیں مختلف قسم کے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ چین کے تعلیمی اداروں میں طلبا کو زراعت بھی سکھائی جاتی ہے۔ چین، جاپان، کوریا، فن لینڈ، کینیڈا اور دیگر کئی ممالک ایسے ہیں جہاں فنی تعلیم کا رجحان ستر سے سو فیصد تک ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ملک میں یہ رجحان محض 5 سے 6 فیصد ہے۔ ہمارے ملک میں بڑے بڑے نامور تعلیمی ادارے ہیں، بڑے بڑے اسکولوں کا تعلیمی معیار بہت اچھا سمجھا جاتا ہے حالانکہ ان کا ملکی ترقی میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے کوئی محقق، مدبر پیدا نہیں کیے، وہاں فقط انگریزی طور طریقے سکھائے جاتے ہیں اور ہمارے ہاں اسے اچھی تعلیم خیال کیا جاتا ہے۔
اوپر کھینچا گیا نقشہ تو سرسری سا تھا، ورنہ تعلیمی نظام کے حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ اخلاقیات کا تو جنازہ ہی نکل چکا ہے۔ اساتذہ خود اخلاقیات سے عاری ہیں کیونکہ وہ بھی تو اسی فرسودہ تعلیمی نظام کے فارغ التحصیل ہیں تو وہ طلبا کو کیا سکھائیں گے؟ یہ بات درست ہے کہ طلبا کو ملکی مسائل کا حل تلاش کرناچاہیے لیکن پہلے طلبا کو اس قابل تو بنائیے کہ وہ ملکی مسائل کا حل تلاش کرسکیں۔ صرف تقریریں کرنا اور نصیحتیں کرنا تو آسان ہے لیکن عملاً ملکی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کےلیے کوئی کوشش نہیں کرتا۔ اگر واقعی ایسے طلبا چاہئیں جو ملکی مسائل کا حل تلاش کریں تو تعلیمی نظام کو مکمل طور پر بدلنا ہوگا اور ایک نیا تعلیمی نظام لانا ہوگا جس میں طلبا رٹا لگانے کے بجائے کچھ سیکھیں، تبھی وہ ملکی مسائل کا حل تلاش کرسکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔