ہمہ جہت قلم کار ابراہیم جلیس کی یاد میں
نفع بخش علمی تحریریں انسان کے لیے صدقہ جاریہ ہوتی ہیں
'' قلم گوید من شاہ جہانم'' قلم نے کہا کہ میں دنیا کا بادشاہ ہوں، اس بات میں ہرگز شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ قلم نے بادشاہ بن کر ایسے کام کیے جس کی کوئی مثال نہیں، قلم علم و دانش کا ذریعہ اور احیائے دین و اشاعت کا بہترین اور موثر وسیلہ ہے۔
پہلی وحی میں قلم کا تذکرہ فرما کر اس کی عظمت و اہمیت کو بیان کیاگیا ہے۔ سورۃ القلم میں قلم اور اہل قلم کے تقدس کی قسم کھائی گئی ہے۔ حضرت محمد ﷺ کی طرف سے لکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی گئی ہے۔
نفع بخش علمی تحریریں انسان کے لیے صدقہ جاریہ ہوتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے کہ انسان کی شمع حیات گل ہونے کے بعد تین چیزوں کو سدا بہار ذریعہ ثواب قرار دیا گیا ہے، ان تینوں میں سے ایک علم بھی ہے۔ جس نے اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے زمانے اپنے ماحول میں پیدا ہونے والی برائیوں کے خاتمے کے لیے نشان دہی کی توگویا اس نے قرآن پاک کی اس آیت کی ترجمانی کی اور اللہ کے حکم کو مانا۔
'' المعروف ونہی عن المنکر ''
جب ہم عالمی شہرت یافتہ افسانہ و ناول نگار، مزاح نویس اور ان کی دوسری تمام تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ابراہیم جلیس کی تعمیری اور تخلیقی تحریریں نہ صرف یہ کہ متاثر کرتی ہیں بلکہ بہت سی علمی و ادبی معلومات بھی فراہم کرتی ہیں۔ انھوں نے نہایت کسمپرسی اور غربت میں زندگی بسر کی لیکن ہمت نہیں ہاری اور جہد مسلسل اور اس کے صلے میں اللہ کی نصرت و مدد کو اپنا ایمان بنا لیا۔ ان کی کوئی تحریر قاری کو بھٹکانے یا گمراہ کرنے کا سبب نہیں بنی۔
ابراہیم جلیس ہمہ جہت قلم کار تھے، وہ اپنی ذات میں اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے، ان کا اصل نام ابراہیم حسین تھا جبکہ ابراہیم جلیس کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو پہنچے۔ ان کے والد کا نام احمد حسین تھا جو اپنی اولادوں پر خصوصی توجہ دیتے تھے، ان کے کئی بیٹوں نے نام اور عزت کمائی اور اہم عہدوں پر فائز رہے اس کے علاوہ کاشتکاری بھی کی، سب بہن بھائیوں میں ابراہیم جلیس کا چوتھا نمبر تھا، ابراہیم جلیس کے والد کثیرالعیال شخص تھے۔ 9 بیٹے اور ایک بیٹی کے والد بزرگوار ان کے آباواجداد افریقہ سے نقل مکانی کر کے ہندوستان میں آکر بس گئے تھے۔
ابراہیم جلیس اپنے ننھیال بنگلور میں پیدا ہوئے، ان کی تاریخ پیدائش 12 اگست 1924 ہے جبکہ میٹرک کی سند کے مطابق ان کا یوم پیدائش 11 اگست 1922 ہے۔ انھوں نے زمانہ طالب علمی سے ہی لکھنے کی ابتدا کی۔ 1938 میں ان کا ایک افسانہ '' ماں'' کے عنوان سے روزنامہ '' شہاب'' میں شایع ہوا لیکن نقادوں کے خیال کے مطابق فنی معیار پر پورا نہیں اترتا ہے، لیکن اس کی خوبی یہ تھی کہ جذبہ حب الوطنی کا عکاس تھا، دوسرا افسانہ '' جوانی دیوانی'' کے نام سے لکھا لیکن یہ انشائیے کی شکل اختیارکرگیا۔
ابراہیم جلیس نے معاشرتی حقائق اور معاشرے کے اثرات کو قبول کرتے ہوئے باقاعدہ افسانہ نگاری کی ابتدا کی۔ یہ 1940 کا زمانہ تھا، ان کی محنت، لگن اور جستجو سے یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے افسانے '' رشتے'' کو نہ صرف یہ کہ پسند کیا گیا بلکہ اس کی دو بار اشاعت بھی ہوئی، پہلی بار رسالہ '' ساقی'' میں اور دوسری بار '' قومی زبان'' کراچی دسمبر 1989 میں شایع ہو کر مقبولیت اختیار کر گیا۔
ابراہیم جلیس نے زمانے کی تلخیاں، افلاس، غربت اور فسادات کو ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ حیدرآباد دکن میں ہونے والے فساد کے حوالے سے انھوں نے لکھا ہے کہ میرے دوست نواب سید علی خان اور فصیح الدین احمد نے اپنی اپنی کاریں گیراج میں بند کردی تھیں اس کی وجہ پٹرول نہیں ملتا تھا، پٹرول کا ایک ایک قطرہ حیدر آبادیوں کے لیے خون کے ایک قطرے کے برابر تھا، فساد کا سلسلہ جب دراز ہوا تو حیدرآباد کے مسلمان ہر روز تیس تیس اور چالیس چالیس مرنے لگے، مرنے والوں کو کفن تک میسر نہیں تھا۔
سقوط حیدرآباد کے بعد ابراہیم جلیس نے دکن چھوڑنے کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ میں تھک کر بیٹھ گیا مگر میرا ایک دوست جو خفیہ پولیس کا انسپکٹر تھا وہ میرے قریب آ کر بولا، '' یہ بیٹھنے کا وقت نہیں ہے، فوراً بھاگ جاؤ، ابھی ساڑھے چھ بجے ہیں، ساڑھے نو بجے تک پولیس تمہاری گرفتاری کا وارنٹ لیے گھر پہنچ رہی ہے۔'' میرے گھر والوں نے کہا'' ہاں! تم بھاگ جاؤ، ورنہ وہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے، ہماری یہی دعا ہے کہ تم زندہ سلامت رہو، چاہے کسی جگہ رہو۔''
ان حالات میں گرفتاری کے خوف سے وہ اکتوبر 1948 میں لاہور آگئے۔ کسمپرسی، بے گھری، افلاس کے دکھ میں گھرے تھے، معروف صحافی حمید اختر نے ان کی معاونت کی، نومبر 1948 میں روزنامہ '' امروز'' میں وہ سب ایڈیٹر کے منصب پر فائز ہوئے، حیدرآباد سے نکلنے والے پرچے ہفت روزہ '' رباب'' کی ادارت سنبھالی، اس کے بعد انھوں نے ہفت روزہ '' پرچم'' میں بھی حقائق کی نقاب کشائی کی، لیکن فسادات کی وجہ سے بہت سے کام ادھورے رہ گئے۔
ابراہیم جلیس حیدرآباد دکن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے سرگرم رکن تھے وہ دکن کو اسلامی ریاست کا حصہ بنانے کے لیے قلمی کاوشیں کرتے رہے۔ اپنی تحریروں کے ذریعے انھوں نے بے پناہ شہرت حاصل کی اور ان کا نام بہت جلد حیدرآباد دکن سے جنوبی ایشیا کے ساتھ دوسرے ممالک میں بھی پہنچ گیا۔
ابراہیم جلیس ایک سچے اور کھرے لہجے کے ترجمان تھے وہ بے باک اور نڈر صحافی تھے، ان کے کالم اس بات کے غماز ہیں، اسی خوبی کو کاذب اور منافق ہرگز برداشت نہیں کرتا ہے، لہٰذا اپنے ایک ایسے ہی کالم کی وجہ سے انھیں گرفتار کرلیا گیا، لیکن وہ ان حالات میں بھی نہ جھکے اور نہ بکے اس واقعے کے بعد ان کے کالموں میں انتقامی جذبہ بھی پروان چڑھنے لگا۔
ابراہیم جلیس نے تقریباً تمام ہی موضوعات پر کالم لکھے، طنز و مزاح کے حوالے سے وہ فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دلچسپ کالم لکھتے تھے۔ انھیں زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل تھا۔
ابراہیم جلیس نے افسانے، ناول، سفرنامے لکھے، اسی حوالے سے ان کی بہت سی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان میں سے چند کے نام '' تکونا دیس، زرد چہرے، چالیس کروڑ بھکاری'' سات افسانوں کے مجموعے ایک ناول '' چور بازار''، رپورتاژ (تین) 15 مضامین کے مجموعے، دو سفرنامے، اسٹیج ڈرامہ '' اجالے سے پہلے'' 9 فلمی کہانیاں وغیرہ وغیرہ۔
ابراہیم جلیس کی ادبی و صحافتی خدمات کو دائرہ قلم میں لاتے ہوئے شورش کاشمیری کا کلام یاد آگیا ہے۔
صفحۂ کاغذ پر جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
یادگاروں کا محافظ تذکروں کا پاسباں
گمشدہ تاریخ کے اوراق لاتا ہے قلم
22 اکتوبر 1977 کا عظیم سانحہ ابراہیم جلیس کی دنیائے آب وگل سے روانگی تھی۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
(تقریب جلیس کے موقع پر پڑھا گیا مضمون )