مسلمانو جاگو
اسرائیل کی ہمت افزائی کرنے میں امریکی حکومت پیش پیش ہے، وہ اگر چاہے تو اسرائیل کی مجال نہیں ہے
فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اس وقت پورے پاکستان میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے جاری ہیں۔
کراچی میں اس ضمن میں ایم کیو ایم پاکستان نے کراچی کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ایک مشترکہ شاندار مظاہرہ کر کے تمام پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں۔ یہ مظاہرہ جمعہ 20 اکتوبرکو کراچی کی سب سے اہم شاہراہ شارع فیصل پر کیا گیا۔ اس میں مسلم حکمرانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو فلسطین کی مدد اور اسرائیلیوں کے خلاف اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں۔
اس مظاہرے میں نیشنل عوامی پارٹی کراچی کے سربراہ شاہی سید، جمعیت علما اسلام سندھ کے سربراہ راشد سومرو، سندھ نیشنل گرانڈ الائنس کے ناہید عباسی کے علاوہ جمیل راٹھور، علامہ حسن ظفر، مفتی عطا شاہ اور عبدالخالق فریدی نے خطاب کیا۔
ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کراچی کے عوام کو مبارک باد پیش کی کہ ان کے شہر میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور یہودی حکومت کے خلاف سب سے بڑا مظاہرہ منعقد کیا گیا ہے جس میں ان کی بھرپور شرکت نے تمام پاکستانیوں کی ترجمانی کی ہے۔ دشمن ان کے عزم و استقلال سے ضرور متاثر ہوا ہوگا اور دوسری جانب فلسطینی بھائیوں کو ضرور ڈھارس ملی ہوگی کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، ان کے بھائی پاکستانی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں پر پاکستانیوں کا متفقہ بیانیہ اسلام آباد سے نہیں کراچی سے جاری ہوا ہے۔ اس مظاہرے میں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما مصطفیٰ کمال، فاروق ستار اور دیگر نے بھی صہیونی دہشت گردوں کو مظلوم فلسطینیوں پر اپنے مظالم فوراً بند کرنے کا مطالبہ کیا، ساتھ ہی اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اپنی قراردادوں کے مطابق مسئلے کا دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت کرے۔
اسرائیل کے غزہ پر اب سفاکانہ اور بزدلانہ حملوں کو پندرہ دن سے زیادہ گزر چکے ہیں مگر اسرائیل کے حملوں کو روکنے کی قرارداد پاس نہیں کی جاسکی ہے، یہ ایک المیہ ہے۔ حالانکہ روس کی جانب سے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے قرارداد پیش کی جاچکی ہے مگر صد افسوس کہ انسانی حقوق کی پاسداری کا نام نہاد دم بھرنے والے امریکا نے اسے ویٹو کردیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی ہمت افزائی کرنے میں امریکی حکومت پیش پیش ہے، وہ اگر چاہے تو اسرائیل کی مجال نہیں ہے کہ وہ جنگ بندی سے راہ فرار اختیار کرسکے مگر امریکی حکومت خود فلسطینیوں کا نام و نشان مٹانے کے اسرائیلی ایجنڈے میں اس کی مددگار بنی ہوئی ہے۔ جہاں تک اقوام متحدہ کا تعلق ہے اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہی ہے کیونکہ وہ اپنے منشور پر عمل نہیں کرا پا رہی ہے اس طرح وہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں مکمل ناکام ہے۔ وہ ممبر ممالک کے باہم مسائل کو حل کرانے میں مسلسل ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ لگتا ہے بہت جلد اس کا حشر لیگ آف نیشنز جیسا ہونے والا ہے۔
لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی کہانی بڑی درد ناک ہے اس کے ہوتے ہوئے دنیا دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئی۔ اسے اس وقت کے سرکردہ ممالک نے پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم کیا تھا کہ وہ دنیا کو مزید تباہی و بربادی سے بچائے گی مگر افسوس کہ وہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں قطعی ناکام رہی۔ لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ بڑی طاقتوں کی آلہ کار بن چکی تھی وہ چھوٹے یا غریب ممالک کے مفادات سے بالکل بے نیاز ہو چکی تھی بس بالکل ویسا ہی حال آج یواین او کا ہے۔
یہ بھی اس وقت بڑی طاقتوں کی آلہ کار بن گئی ہے وہ وہی کرتی ہے جس کا وہ اسے حکم دیتے ہیں۔ حالانکہ اس کا منشور بڑا واضح ہے کہ وہ بغیر کسی مصلحت کے کسی ملک کو دوسرے پر ظلم کرنے سے روکے گی اور دنیا میں متنازع خطوں اور محکوم عوام کے مسائل حل کرائے گی۔
یو این او کے قیام کو اب 76 سال گزر چکے ہیں مگر یہ ابھی تک فلسطین اور کشمیر جیسے دیرینہ مسائل کو حل نہیں کرا سکی ہے، وہ خاص طور پر مسلمانوں کے مسائل حل کرانے میں مکمل ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ایک طرف جنوبی سوڈان اور تیمور جیسے علاقوں کو سوڈان اور انڈونیشیا سے کاٹ کر وہاں کے عوام کو آزادی دلا دیتی ہے مگر اسرائیل اور بھارت کو فلسطینیوں اور کشمیریوں کو آزادی دلانے سے گریزاں ہیں۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ وہ مذہبی تعصب کا بھی شکار ہے۔ پھر یہ مغربی ممالک کی گھر کی باندھی بنی ہوئی ہے وہ کوئی قدم ان کی مرضی کے خلاف نہیں اٹھا سکتی۔
اقوام متحدہ کی امن فوج اس وقت بھی کئی ممالک میں امن قائم کرنے کے لیے موجود ہے کیا اسے جارح اسرائیل کو فلسطینیوں پر تابڑتوڑ حملوں کو روکنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا؟ ایسا ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے اسے امریکا بہادر سے اجازت لینا ہوگی۔ لگتا ہے اس وقت امریکا خود فلسطینیوں کو تہہ و بالا کرنے پر تلا ہوا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق وہ فلسطینیوں کو خوفزدہ کرکے انھیں اپنے ایک خودساختہ معاہدے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ اس سازشی منصوبے کے مطابق امریکی حکومت ایک طرف اسرائیل کی نہ صرف پشت پناہی کر رہی ہے بلکہ وہ اسرائیلی حکومت کو یہ ترغیب دے رہی ہے کہ وہ غزہ اور حماس کا قصہ ختم کرنے کے لیے حملے جاری رکھے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکا غزہ کے علاقے پر فلسطینیوں کے وجود سے بیزار ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پورے غزہ پر اسرائیل کا قبضہ ہوجائے تاکہ اسرائیل کو غزہ کا علاقہ اور اس کی ساحلی پٹی حاصل ہو جائے اور اس طرح اس کی سلامتی کو ہمیشہ کے لیے محفوظ بنایا جاسکے۔
اب رہا مغربی کنارہ تو وہ اسے پہلے ہی فلسطینیوں کا علاقہ تسلیم کر چکا ہے اور پھر اس وقت جبکہ اسرائیل غزہ پر حملہ آور ہے اور وہاں دن رات تباہی پھیلا رہا ہے مگر محمود عباس کی حکومت اس سے بالکل لاتعلق ہے۔ امریکا نہایت چالاکی سے فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل جس کا سلامتی کونسل بھی تقاضا کرتی ہے اور تمام اسلامی ممالک بھی چاہتے ہیں ممکن بنانا تو چاہتا ہے مگر اسرائیل کے غزہ پر قبضے کے بعد۔ ظاہر ہے ایسے حل کو ممکن بنانے کیلئے اسے اسرائیلی حکومت پر دباؤ بھی نہیں ڈالنا پڑے گا۔
کیا عرب ممالک اور حماس امریکا کے اس فارمولے کو قبول کرسکتے ہیں یہ تو سراسر فلسطینیوں کے وجود کے خلاف اور اسلامی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہے کیونکہ اس میں غزہ کو فلسطینی علاقہ تسلیم کیا گیا ہے اور دو ریاستی حل میں غزہ کا علاقہ بھی شامل ہے، چنانچہ امریکی فارمولا سراسر فلسطینیوں کے خلاف ایک سازش ہے جسے فلسطینی عوام اور عرب ممالک کو کبھی بھی قبول نہیں کرنا چاہیے۔