فیصلہ ابھی باقی ہے
نیتن یاہو نے جس گریٹر اسرائیل کا نقشہ بڑے طمطراق سے دکھایا وہ تو کوئی اور ہی کہانی سناتا ہے
پاکستان میں ڈالرزکی قیمت میں کمی سے دل کو ذرا قرار آیا تھا۔ سیاسی صورت حال بھی کسی ایک جانب سفر کر رہی تھی کہ فلسطین کی خبروں نے دل اداس کر دیا۔ جیسے سارا ماحول سوگوار ہوگیا۔
سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی دل خراش ویڈیوز اور معصوم بچوں کے صدمات۔۔۔ اف کیا کچھ نہیں ہے جو کسی بھی پتھر دل کو رُلا سکتی ہے اور آنکھیں خشک اور دل مردہ تو ان کے ہیں جو ٹھکرائے ہوئے مفرور لوگ ہیں۔
ایک طویل عرصے سے فلسطین کے حوالے سے ویڈیوز شیئر ہوتی رہی ہیں کبھی کوئی معصوم دس سالہ بچہ ہے جسے صہیونی فوجیوں کا ٹولہ گھیرے پوچھ گچھ کر رہا ہے تو کہیں کسی گھر کے مرد کو زبردستی پکڑ کر لے جایا جا رہا ہے اور پیچھے گھر کی خواتین، بچے بچیاں رو رو کر دہائی دے رہی ہیں، ان تکلیف دہ چلتی پھرتی تصویروں کو دیکھ کر دل سے نکلتا تھا کہ آخرکب تک؟
اور پھر وہ آخرکس طرح اسرائیل پر آفت بن کر ٹوٹی، اس سے ایک بات تو ظاہر ہو چکی ہے کہ یا تو مار دیں گے اور اپنا وطن چھین لیں گے یا مر جائیں گے اور جو سر پرکفن باندھ کر اس طرح نکلیں تو بات تو سوچنے کی ہے۔
بات اگر صرف کسی خطے کی ہوتی تو شاید سمجھ میں آتی لیکن جس غاصبانہ انداز سے فلسطینیوں کو انھی کے گھر سے نکل جانے کا حکم دیا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ نیتن یاہو نے جس گریٹر اسرائیل کا نقشہ بڑے طمطراق سے دکھایا وہ تو کوئی اور ہی کہانی سناتا ہے کہ ہٹلرکے دورکے بچے کچھے یہودی اپنے اسی پرانے پلان کے اوپر خاموشی سے کام کرتے رہے تھے۔ یہ پلان تھا کیا؟
یہ پلان یہودیوں کے ایک وطن کا قیام تھا جسے 1896 میں ایک کٹر یہودی جو صہیونیت کا بانی کہلایا جاتا ہے ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل تھا۔ اس کا خواب فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت قائم کرنا تھا کیونکہ صہیون صحرائے سینا میں ایک پہاڑ کا نام ہے اسی نسبت سے اس تحریک کا نام صہیونیت رکھا گیا۔
فلسطین کی ہی سرزمین کیوں چنی گئی؟ اس کی دینی اعتبار سے ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے صہیون پہاڑ پر ہیکل (معبد یہودیوں کی عبادت گاہ) کی شکل خواب میں دیکھی تو اسے تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی ان کے بیٹے حضرت سلیمانؑ نے اس ہیکل کو مضبوط بنیادوں پر تعمیر کیا۔ اس معبد کے لیے لکڑی لبنان کے صنوبر کے درختوں کی استعمال کی گئی۔ ہیکل سلیمانی کے احاطے میں سے ایک دیوار جسے '' دیوارگریہ'' کہا جاتا ہے مسجد اقصیٰ کی مغربی دیواروں میں سے ایک دیوار ہے جو باقی رہ گئی ہے۔ یہی وہ دیوار ہے جس کے پاس آ کر یہودی گریہ و زاری کے مظاہرے کرتے ہیں اور اسے چومتے چاٹتے ہیں۔
آج فلسطین کی ایک جماعت حماس اسرائیل پر ان کے مظالم سے تنگ آ کر حملہ کرتی ہے، تو سارا یورپ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ بائیڈن تو ویسے بھی عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکے ہیں کہ کب ان کا اگلے جہان کا ٹکٹ آ جائے لیکن انھوں نے اپنے لاکھوں کروڑوں امریکیوں کی مرضی کے خلاف جا کر اسرائیل کا ہاتھ تھام لیا، صرف اس لیے کہ امریکی قوم نے ایک ڈوبتے تارے کو اپنے سرکا تاج بنا لیا تھا، کیا بائیڈن تاریخ بھلا بیٹھے ہیں۔فری میسن کا نام تو ہم سب نے سن ہی رکھا ہے۔ اس کے معنی آزاد تعمیر اور آزاد معمار بھی ہو سکتے ہیں ان سے مراد وہ لوگ جنھوں نے ہیکل سلیمان کی تعمیر میں ابتدا ہی سے حصہ لیا تھا۔
یروشلم میں فری میسن کی پہلی مجلس ہیروڈوس اغریبا نے منعقد کی تھی۔ اس یہودی حکمران نے37ء سے 44ء تک حکومت کی، یہ ہیروڈوس اکبر کا پوتا تھا۔ ہیروڈوس اکبر کا ذکر تورات میں بھی آیا ہے یہ وہ ظالم یہودی بادشاہ تھا جس نے بیت لحم کے بچوں کو محض اس خوف سے قتل کیا تھا کہ مسیح منتظر ان میں پیدا ہونے والا ہے جو اس کی حکومت کا خاتمہ کرے گا۔
ہیروڈوس اکبر اپنی دانست میں ٹھیک کر رہا تھا جیساکہ آج کل اسرائیل کر رہا ہے لیکن کیا ہوا؟ فرشتے نے بی بی مریمؑ کو حکم دیا کہ وہ اپنے بچے کو لے کر مصر کی طرف چلی جائیں اور اس طرح اپنی جان بچائیں۔ اس بات سے مراد دراصل یہ ہے کہ رب العزت نے جس کو بچانا ہوتا ہے وہ ترکیبیں ذہن میں ڈال دیتا ہے، راستے ہموار کر دیتا ہے، غیب سے مدد کر دیتا ہے کیونکہ وہ قادر ہے۔
فرانس کے وزیر اعظم ایمانوئیل میکرون ابھی پھر بھی جوان ہیں لیکن بائیڈن نے اپنے پچھلے اتنے گزرے سالوں میں اپنی مذہبی تاریخ اٹھا کر نہ دیکھی۔ روم کا ظالم بادشاہ نیرون بھی اسی یہودی اغریبا خاندان کا تھا۔ اس کی بھی ایک کہانی ہے۔ اغریبا خاندان دو حصوں میں بٹ گیا، ایک فلسطین پر حکومت کرتا تھا۔ بخت نصر شاہ عراق نے شکست فاش دے کر انھیں قید کر لیا۔ ہیکل سلیمان کو تباہ کیا اور بہت سے یہودیوں کو گرفتار کرکے لے گیا۔ اس خاندان کے کچھ لوگ روم کی طرف بھاگ گئے۔ انھی لوگوں میں نیرو بھی تھا۔
اس نے 54ء سے 68ء تک حکومت کی، اس نے یولص کو قتل کر کے عیسائیت کو تہس نہس کیا اور روم میں یہودیت کا پنجہ گاڑ دیا۔ کبھی یہودیوں نے بھی اپنے محسنوں کے احسان کو مانا جیساکہ آج کل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آج جو یورپی ممالک امیر لیکن ڈھکوسلے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ہٹلر کے غیض و غضب سے بچنے کے لیے کس کس کے در پر دستک نہ دی اور اب بھی سوشل میڈیا پر وہ تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں جب بڑے بحری جہاز پر ہماری امیدوں کو نہ توڑو، ہمیں قبول کر لو، فلاں فلاں کے نعرے درج تھے۔
ہم مسلمان۔۔۔۔ کھلے دل کے لوگ اب اس کو آپ طنز سمجھیں یا حماقت، آج کے منظرنامے کے حوالے سے یعنی انیسویں سے حالیہ صدی تک کے مسلمانوں پر یہ چند فقرے کس طرح چبھتے ہیں، بات پھر کدھر سے کدھر جا نکلے گی، کھیل تو کھیل ہے لیکن جس طرح پاکستان کے افغانستان سے ہارنے کے بعد سوشل میڈیا پر مخصوص حوالوں سے جو باتیں سننے اور دیکھنے کو ملیں تو ذہن میں ہزاروں سوال کلبلانے لگے ہم سب کچھ بھول سکتے ہیں لیکن جسے رب نے مسترد کردیا تو کر دیا، جو قرآن پاک میں یہود و نصاریٰ کے حوالے سے بات کی گئی یقین جانیے بالکل اپ ڈیٹڈ ہے، اس لیے کہ اوپر والے نے لکھ کر کنفرم کر دیا ہے تو بھائیوں سب کچھ بھول جاؤ پر اسے یاد رکھو جو یاد رکھنے کو کہا گیا ہے۔
بہرحال غلطی کس کی تھی اور کس کی نہیں، کیا یہودیوں کو پناہ دینا چاہیے تھا یا نہیں، کیا حماس کو حملہ کرنا چاہیے تھا یا نہیں، کیا فلسطینیوں کو قیامت تک گھٹ گھٹ کر جینا چاہیے یا نہیں، کیا یہود و نصاریٰ کو اکٹھا ہونا چاہیے تھا یا نہیں، فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ اہل یورپ کے سربراہان اپنی تاریخ بھول بیٹھے ہیں پھر اوراق پلٹ کر دیکھ لیں کہ رب العزت کے مسترد کیسے لوگ سر پر بٹھانے کے لائق نہیں۔