افغانستان میں برطانوی فوجیوں کے جنگی عزائم

سرزمین ِافغاناں میں بے گناہ اور نہتے شہریوں کے لہو سے ہاتھ رنگ لینے والے انگریز فوجیوں کی داستان دلفگار


سید عاصم محمود October 29, 2023
سرزمین ِافغاناں میں بے گناہ اور نہتے شہریوں کے لہو سے ہاتھ رنگ لینے والے انگریز فوجیوں کی داستان دلفگار ۔ فوٹو : فائل

''طاقت جتنی زیادہ ہو، اس کے غلط استعمال کا خطرہ اتنا ہی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔''(آئرش فلسفی و سیاست داں ایڈمنڈ برک)

٭٭

حال ہی میں اسرائیل اپنی تمام تر طاقت کے نشے میں مست اہل غزہ پہ حملہ آور ہوا تو امریکا، برطانیہ اور بھارت اس کی حمایت میں پیش پیش رہے۔ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں اخلاقیات، قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جس بہیمانہ طریقے سے فلسطینی مرد وخواتین اور معصوم بچوں کا قتل عام کیا ، ان کی نسل کشی کی، اسے دیکھ کر شیطان بھی تھّرا اٹھا ہو گا۔

امریکا اور برطانیہ کے حکمران طبقوں کی نمایاں خاصیت یہ ہے کہ وہ خود کو انسانی حقوق اور قانون و انصاف کا چیمپئن کہتے ہیں۔ مگر جب اپنے مفادات کو تحفظ دینے کا سوال ہو تو وہ اخلاقیات، انسانیت، قانون اور انصاف کو پیروں تلے روندنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ظالم برطانوی حکمران طبقے کا یہی سیاہ و مکروہ پہلو برطانیہ میں اس کا اپنا میڈیا اور عدلیہ سامنے لارہے ہیں۔

ایک تاریخی مقدمہ

برطانیہ میں 9 اکتوبر 2023ء سے ایک تاریخی مقدمے کا آغاز ہو چکا۔ اس مقدمے میں دیکھا جائے گا کہ کیا برطانوی افواج کی ایلیٹ فورس...یونائٹیڈ کنگڈم اسپیشل فورسز (United Kingdom Special Forces)افغانستان میں کم از کم 80 بے گناہ شہریوں کے قتل میں ملوث ہے؟ یہ مقدمہ لندن میں واقع رائل کورٹس آف جسٹس میں سنا جا رہا ہے۔

مقدمے کے جج سر چارلس کیو (Charles Haddon-Cave)برطانوی کورٹ آف اپیل(ہائی کورٹ)سے وابستہ ہیں۔

یونائٹیڈ کنگڈم اسپیشل فورسز میں برطانوی بری ، فضائی اور بحری افواج سے تعلق رکھنے والے بہترین فوجی شامل کیے جاتے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۱ء کو جب امریکا افغانستان پہ حملہ آور ہوا تو امریکی فوجیوں کے ساتھ برطانوی فوجی بھی حملے میں شریک تھے۔یوں ماضی میں سرزمین ِافغاناں پہ دھاوا بولنے والی سپرپاور(برٹش ایمپائر)پھر افغانوں سے نبردآزما ہو گئی۔برطانوی فوجیوں میں یونائٹیڈ کنگڈم اسپیشل فورسز کے ارکان بھی شامل تھے۔



اس فورسز کے دستے پھر قندھار اور ہلمند کے افغان صوبوں میں تعینات رہے۔جب طالبان کے خلاف امریکا و برطانیہ کی جنگ عروج پہ تھی، تو افغانستان میں ڈیرھ لاکھ تک برطانوی فوجی بھی موجود رہے۔

دسمبر ۲۰۱۴ ء میں برطانیہ نے اپنی بیشتر سپاہ واپس بلوا لی، البتہ چند ہزار برطانوی فوجی افغان فوج کو عسکری تربیت دینے کے لیے موجود رہے۔ جب ستمبر ۲۰۱۲ ء میں امریکیوں کو دم دبا کر افغانستان سے بھاگنا پڑا تو ان کے ساتھ برطانوی فوجیوں نے بھی راہ فرار اختیار کی۔یوں اپنے وقت کی دو طاقتور سپرپاورز کو افغانوں نے پھر دھول چٹا دی۔

متعصب اورانتہا پسند فوجی

برطانوی ہائی کورٹ میں مقدمہ اسپیشل فورسز کے ان دوتین سکواڈرنوں پہ چل رہا ہے جو ۲۰۱۰ء تا ۲۰۱۱ء افغان صوبے ہلمند میں تعینات رہے۔ ان میں یقیناً متعصب اور سفید فام انتہا پسند فوجی شامل تھے کیونکہ انھوں نے طالبان جنگجوؤں اور شہریوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتا...جو افغان مرد سامنے آیا، اسے گولیوں سے بھون دیا۔

گویا انھوں نے ماورائے قانون قتال کا ارتکاب کیا ۔یہ ایک جنگی جرم ہے اور اسی کی بنا پہ سکواڈرنوں میں شامل فوجیوں پر مقدمہ چل رہا ہے۔ان پہ یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے ''دانستہ''یہ پالیسی اختیار کر لی کہ جنگ لڑنے کے قابل سبھی افغان مردوں کو قتل کر دینا چاہیے۔

تیرہ چودہ سال پہلے جب ان سکواڈرنوں کے ہاتھوں کئی افغان شہری مشکوک حالات میں مارے گئے تو افغانستان میں موجود برطانوی فوج کے بعض اعلی افسروں نے تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے خفیہ نوٹ یا میمو لکھے جو یونائٹیڈ کنگڈم اسپیشل فورسز کی کمان میں بھی گردش کرتے رہے۔

تاہم فورسز کے کسی افسر نے انھیں غور کے قابل نہیں سمجھا۔ ۲۰۱۲ ء میںجنرل مارک اسمتھ (Mark Carleton- Smith) اسپیشل فورسز کا کمانڈر مقرر ہوا۔ اسے بتایا گیا کہ فلاں اسکواڈرن افغانستان میں ماورائے قانون قتل عام میں ملوث ہیں۔اس نے بھی حقائق نظرانداز کر دئیے۔یہی نہیں، ایک معتوب اسکواڈرن کو مزید چھ ماہ کے لیے افغانستان جانے کی اجازت دے دی۔ یہ جنرل مارک اسمتھ ۲۰۱ تا برطانوی بری فوج کا سربراہ بھی رہا۔

تفتیش بے اثر رہی

اسکوارڈن میں شامل برطانوی فوجی افغانساتن پہنچ کر دوبارہ نہتے و بے گناہ شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے لگے۔جب برطانوی فوج کے دیگر یونٹس کے فوجیوں اور افسروں نے ان کی وحشیانہ کارروائیوں کی شکایت کی تو اب سپیشل فورسز نے تحقیقات کے لیے ایک افسر افغانستان بھجوا دیا۔ یہ بڑا غیرمعمولی اقدام تھا کیونکہ عام طور پہ اسپیشل فورسز میں فوجیوں کے خلاف کسی قسم کی تحقیقات نہیں ہوتیں۔

تحقیقی افسر بھی مگر جانب دار اور غیر ذمے دار ثابت ہوا۔ اس نے صرف معتوب سکوارڈن کے فوجیوں اور افسروں سے انٹرویو کیے اور ان کا نقطہ نظر سنا ۔ان کا دعوی تھا کہ وہ صرف دفاع میں گولیاں چلاتے اور افغانو ںکو قتل کرتے ہیں۔

تحقیقی افسر نے مقتول افغانوں کے ایک بھی عزیز رشتے دار سے ملاقات نہیں کی۔نہ اس نے کسی ایک بھی جائے حادثہ کا دورہ کیا۔نتیجہ یہ کہ اس نے اپنی رپورٹ میں سکوارڈرن پہ لگے الزامات غلط قرار دئیے۔

بی سی سی کا قابل تحسین اقدام

معاملہ مگر ٹھنڈا نہیں ہوا بلکہ اس کی لگائی آگ اندرون خانہ سلگتی رہی۔ ۲۱۰۳ء میں برطانوی ملٹری پولیس افغان شہریوں کے قتل میں ملو ث اسپیشل فورسزکے فوجیوں اور افسروں کے خلاف تفتیش کرنے لگی۔

حیران کن بات یہ کہ جنرل مارک اسمتھ نے ملٹری پولیس کو یہ نہیں بتایا کہ ملزموں کی سرگرمیوں کے خلاف لکھے گئے میمو موجود ہیں اور نہ ہی یہ خبر دی کہ تحقیقات کرنے فورسز کا ایک افسر افغانستان جا چکا۔گویا اس معاملے میں جنرل مارک نے نہایت لاپروائی اور غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔اس کی بھرپور سعی رہی کہ ا س کے جوانوں پہ مقدمہ نہ چل سکے،،،،چاہے وہ قاتل، ظالم اور مجرم ہی ہوں!چناں چہ نتیجہ اب بھی ڈھاک کے پات نکلا اور ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا۔

ستمبر ۲۰۲۱ء کے بعد مقتول افغانوں کے رشتے دار کوشش کرنے لگے کہ برطانیہ میں ملزمان پہ مقدمہ چلایا جا سکے۔ برطانوی وزارت دفاع نے مگر اسپیشل فورسز کے نوجوانوں اور افسروں کے خلاف مقدمہ چلانے سے انکار کر دیا۔ مقدمہ اس کی رضامندی کے بعد ہی چل سکتا تھا۔لہذا معاملہ پھر ٹھنڈا پڑگیا۔ اس کے مردہ جسد میں نئی روح بی سی سی نے پھونکی۔

بی سی سی برطانوی حکومت کا بھونپو سمجھا جاتا ہے تاہم جولائی ۲۲ء میں اس نے مقتول افغانوں کی حمایت میں ایک طویل مضمون شائع کیا ۔اس میں دستاویزی شہادتوں کی مدد سے بتایا گیا کہ اسپیشل فورسز کے سکوارڈن غیر مسلح افغان شہریوں کے قتل میںملوث ہیں۔اسی نوعیت کا مضمون برطانوی اخبار، سنڈے ٹیلیگراف نے بھی شائع کیا۔

یوں دونوں برطانوی میڈیا اداروں نے سچائی سامنے لا کر کچھ ذمے داری کا ثبوت دیا اور اپنے حکمران طبقے کی منفی اصلیت بھی نمایاں کر دی جو جنگی جرائم میں ملوث مجرم فوجی افسروں کو تحفظ دینے میں پیش پیش رہتا ہے۔

خاموشی کی دیوار ٹوٹ گئی

بی بی سی اور سنڈے ٹیلگراف کی خصوصی رپورٹیں منظرعام پر آنے کے بعد برطانوی وزارت دفاع پہ دباؤ بڑھ گیا کہ وہ اسپیشل فورسز کے متعلقہ سکوارڈنوں پہ مقدمہ چلانے کی اجازت دے ڈالے۔چناں چہ دسمبر ۲۲ء میں یہ اجازت دے دی گئی۔

برطانیہ میں ایک لا فرم،لی ڈے (Leigh Day)مقتول افغانوں اور ان کے عزیز واقارب کو انصاف دلانے کے لیے ان کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ مقدمے سے منسلک فرم کی ایک وکیل کا کہنا ہے:

''انصاف، قانون اور عدلیہ کی تاریخ میں یہ مقدمہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اِس کے ذریعے خاموشی اور خفیہ پن کی وہ دیوار توڑی جا سکتی ہے جو حکمران طبقے نے اپنے گرد تعمیر کر لی ہے۔ یوں پچھلے دس برس سے انصاف کی تلاش میں بھٹکتے افغانوں کی بھی دادرسی ہو سکے گی۔''



یہ یاد رہے کہ امریکا اور آسٹریلیا میں بھی ان فوجیوں اور افسروں پہ مقدمے چل چکے جو افغانستان میں تعیناتی کے دوران افغان شہریوں پہ صرف اس لیے ظلم وستم کرتے رہے کہ وہ مسلمان تھے ۔یوں مذہبی و نسلی تعصب نے سفید فام مغربی فوجیوں کو اندھا کر دیا۔

وہ اخلاقیات اور انسانیت بھول کر بے گناہ افغانوں کو قتل کرنے کے گھناؤنے جرم میں ملوث ہوئے۔ امریکی وآسٹریلوی عدالتوں نے کچھ افسروں وجوانوں کو سزا بھی دی مگر بیشتر خوفناک جرم کر کے بچ نکلے۔ یہ عمل مغربی طاقتوں کی منافقت اور دوہرا پن عیاں کرتا ہے۔

افغان کیڑے مکوڑے

مقدمے کی کارروائی شروع ہونے کے بعد رفتہ رفتہ وہ معتصب باتیں،منفی سرگرمیاں اور شیطانی عمل سامنے آ رہے ہیں جو معتوب برطانوی سکوارڈنوں سے منسلک سفید فام فوجیوں نے افغانستان میں انجام دئیے۔وہ افشا کرتے ہیں کہ یہ فوجی جوان و افسر احساس برتری میں مبتلا تھے۔

وہ اٖفغانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے تھے۔بعض میں انتقام کی آگ موجزن تھی۔ وہ مغرب میں کیے گئے اسلامی مسلح تنظیموں کے حملوں کا بدلہ افغان شہریوں کو شہید کر کے لینا چاہتے تھے۔

ایک وقت ایسا آیا کہ سکوارڈنوں کے جوانوں اور افسروں میں اس امر پہ ریس شرو ع ہوگئی کہ کون زیادہ سے زیادہ افغانوں کو قتل کرے گا۔

انعام اور بڑا عہدہ پانے کی ہوس نے انھیں گھیر لیا۔ یوں لالچ کے غلام بن کر بھی برطانوی فوجیوں نے سرزمین ِافغاناں میں روح فرسا اور بھیانک جرائم انجام دئیے۔یہ حقیقت ہے کہ جب کسی انسان پہ لالچ و ہوس سوار ہو جائے تو وہ جانور بن کر تمام اعلی انسانی اقدار بھول جاتا ہے۔

بعض فوجی سادیت پسند

افغانستان میں برطانوی اسپیشل فورسز کے ارکان طالبان کے مبینہ ٹھکانوں پہ حملے کرتے تھے۔ان کا نعرہ تھا:''گرفتار کرو یا مار ڈالو۔''افغان خفیہ ایجنسیوں کے مقامی ایجنٹ انھیں یہ خبر دیتے تھے کہ کہاں طالبان کا ٹھکانہ واقع ہے۔ بعض اوقات یہ ایجنٹ ذاتی دشمنوں کو طالبان قرار دے کر انھیں مغربی فوجیوں کے ہاتھوں مروا دیتے تھے، تاہم یہ چلن کم تھا۔

فوجی افسروں اور جوانوں کو ویسے بھی تجربے کی بنیاد پہ احساس ہو جاتا ہے کہ کون گوریلے اور جنگجو ہیں اور کون شہری، مگر برطانوی اسپیشل فورسز کے بیشتر جوانوں کا نعرہ یہ تھا کہ لڑنے کے قابل زیادہ سے زیادہ افغان مرد مار دئیے جائیں۔

اسی لیے انھوں نے ماوارائے قانون قتل کیے اور اپنے ضمیر پہ کوئی بوجھ محسوس نہیں کیا۔وہ سبھی افغانوں کو اپنا دشمن اور انھیں جائز ٹارگٹ سمجھتے تھے۔ ان افسروں اور جوانوں کی باہمی مراسلت سے عیاں ہوتا ہے کہ بعض برطانوی سادیت پسند (sadistic) تھے، وہ افغانوں کو اذیت دے کر لطف اٹھاتے اور خوشی محسوس کرتے تھے۔

نہتے افغان شہریوں کو شہید کرنے کے لیے برطانوی اسپیشل فورسز کے ارکان جھوٹ اور عیاری کو بھی اپناتے رہے۔مثلاً جب حملے میں گھر یا عمارت سے کوئی اسلحہ برآمد نہ ہوتا تو فوجی دوسرے افغانوں سے چھینا گیا اسلحہ گرفتار شدگان کے ساتھ رکھ دیتے۔یوں یہ ظاہر کیا جاتا کہ وہ مسلح تھے۔یہ صورت حال پھر انھیں گولیاں مار دینے کی وجہ بن جاتی ۔

دھوکے بازی کا چلن

بعض اوقات یہ دعوی کیا گیا کہ افغانوں کے عزیز واقارب نے ان کی گرفتاری کے بعد اسلحہ نکال لیا۔ اس لیے اپنے دفاع میں برطانوی فوجیوں کو گولیاں چلانا پڑیں۔

یہ بھی عموماً سفید جھوٹ ہوتا جو صرف اس لیے بولا جاتا کہ افغان شہریوں کو شہید کرنے کا جواز مل جائے۔ سچ یہ ہے کہ افغانستان میں افغانوں سے نبردآزما اکثر مغربی فوجی ایسے جوازوں کی تلاش میں رہتے تھے جن کے ذریعے انھیں خاص طور پہ جنگ لڑنے کے قابل مردوں پہ حملہ کرنے کا لائسنس مل جائے۔

حبیب اللہ کی داستان ِغم

۷ فروری ۲۰۱۱ء کی رات اسپیشل فورسز کے سکوارڈن نے ہلمند کے ضلع ناد علی میں واقع ایک گاؤں میں ایک گھر پر دھاوا بول دیا۔ گھر کے صحن میں مالک مکان کے دو بیٹے ، سولہ سالہ سمیع اللہ اور بیس سالہ نثار سات مہانوں کے ساتھ سوئے ہوئے تھے۔ یہ مہمان ایک جنازے میں شرکت کرنے دوسرے گاؤں سے آئے تھے۔ گھر کے مالک، حبیب اللہ بتاتے ہیں:

'' گولیاں چلنے اور چیخنے چلانے کی آوازوں نے مجھے جگا دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں میرے پاس غیرملکی آ پہنچے اور مجھے گرفتار کر لیا۔ انھوں نے اپنے مرکز لے جا کر مجھے مارا پیٹا۔ میں طالبان نہیں تھا، اس لیے انھیں کیا معلومات دیتا؟آخر انھوں نے مجھے چھوڑ دیا۔

مجھے گھر جا کر یہ اندوہناک خبر ملی کہ غیرملکیوں نے میرے دونوں بیٹے شہید کر دئیے۔ ہمارے سات رشتے دار بھی خون میں نہلا دئیے گئے۔میں تو ٖغم وصدمے سے نڈھال ہو گیا۔ میری دنیا ایک ہی رات میں تباہ و برباد ہو گئی۔''

اس حملے کے بارے میں اسپیشل فورسز کا ریکارڈ کچھ یہ بتاتا ہے: خبر ملی تھی، یہ گھر طالبان لیڈر کا ہے۔ جب فوجی وہاں پہنچے تو اندر سے ان پہ فائرنگ ہوئی۔لہذا فوجیوں نے بھی گولیاں چلائیں اور صحن میں موجود لوگ مار ڈالے۔گھر سے تین اے کے ۔ ۴۷ بھی برآمد ہوئیں۔

بی بی سی کی ٹیم نے اس سال ماہ جولائی میں ضلع ناد علی کا دورہ کیا اور حبیب اللہ سے ملاقات کی۔ انھوں نے بتایا کہ گھر میں سبھی غیر مسلح تھے، ایک پستول تک کسی کے پاس نہ تھا۔ بی سی سی کی ٹیم نے پھر دیواروں پہ گولیوں کے نشانات کی تصاویر لے لیں۔

جب یہ تصاویر ماہرین عسکریات کو دکھائی گئیں تو انھوں نے بتایا کہ جن لوگوں کو یہ گولیاں ماری گئیں ، وہ بیٹھے یا لیٹے ہوئے تھے۔گویا حبیب اللہ کا یہ دعوی درست ثابت ہوا کہ شہدا تب سو رہے تھے جب ان پہ حملہ ہوا۔

حبیب اللہ نے بھی اب برطانیہ کی اسپیشل فورسز پہ مقدمہ کھڑا کر رکھا ہے۔ ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب حملہ آور برطانوی دستے کو حبیب اللہ کے گھر سے کوئی اسلحہ نہیں ملا تو انھوں نے تین اے کے۔۴۷ رائفلیں وہاں سے برآمد کرنے کا دعوی کر دیا۔ مدعا یہ تھا کہ فائرنگ کرنے اور افغانوں کو شہید کرنے کی وجہ مل سکے۔

جیسا کہ بتایا گیا،شہدا کو بستروں میں سوتے ہوئے گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ اگر وہ طالبان ہوتے تو یقیناً چوکنا رہتے اور برطانوی دستے کی آمد پر اس کا بھرپور مقابلہ کرتے۔ یہ خلاف عقل بات ہے کہ طالبان جنگجو دشمن سے بے خبر ہو کر سوئے پڑے تھے۔

اس سچائی سے عیاں ہے کہ برطانوی اسپیشل فورسز نے کسی مخبر کی جھوٹی اطلاع سنی ، اس کو نہ جانچا نہ پرکھا اور ایک غریب افغان کے گھر دھاوا بول کر نہتے شہریوں کو قتل کر دیا۔ انھیں گرفتار کرنے کی زحمت بھی نہ کی گئی۔اس قسم کی وحشت اور ظلم صرف وہی انسان دکھا سکتے ہیں جو ہر انسانی جذبے و احساس سے عاری ہو چکے ہوں۔

بی بی سی کے محققوں کو تحقیق سے پتا چلا کہ ۲۰۱۳ء میں جب رائل ملٹری پولیس نے اسپیشل فورسز کے متنازع حملوں کی تفتیش کی تھی تو اس کے ماہرین نے بھی گولیوں کے نشانات کی تصویر کا جائزہ لیا تھا ۔۔۔۔اور وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ سوئے ہوئے افغانوں کو گولیاں ماری گئیں۔ شہدا کے سینوں اور دل پہ گولیوں کے نشان تھے ۔ اسپیشل فورسز کے فوجی کسی کو دانستہ ایسے ہی کلوز رینج''سے نشانہ بناتے ہیں۔

رائل ملٹری پولیس کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا :''ہم گولیوں کے نشانات والی تصاویر کی بنیاد پہ اسپیشل فورسز کے متعلقہ افسروں و جوانوں کو معتوب قرار دینا چاہتے تھے، مگر ہمیں علم تھا کہ یہ شہادت ان کے اعلی افسر قبول نہیں کریں گے۔اس لیے مجبوراً ہمیں خاموش رہنا پڑا۔''

عبدالعزیز کی دنیا اندھیر

ضلع نیمروز میں شیش ابا نامی گاؤں واقع ہے۔ وہاں ستر سالہ عبدالعزیز ازبکی اپنے پچیس سالہ بیٹے، حسین، بہو رقیہ اور دو پوتوں تین سالہ عمران اور ڈیرھ سالہ بلال سمیت مقیم تھے۔ چھ اگست کو دو نامعلوم افراد ان کے گھر آئے اور کھانے کی بابت دریافت کیا۔

مہمان نوازی کی دیرینہ افغان روایات پر چلتے ہوئے انھوں نے اپنے گھر کے در وا کر دئیے۔کھانا کھا کر اجنبی دس بجے رخصت ہو گئے۔گرمی زیادہ تھی، اس لیے حسین اور رقیہ مع بیٹوں کے صحن میں گدے بچھا کر سو گئے۔ عبدالعزیز اپنے کمرے میں محو خواب ہوئے۔

صبح سویرے ہیلی کاپٹر پہ سوار اسپیشل فورسز کا دستہ ان کے گھر پہنچ گیا۔ فوجی فائرنگ کرتے گھر میں داخل ہوئے۔عبدالیعزیز صاحب کا بیان ہے، فوجیوں نے انھیں پکڑا، آنکھوں پہ پٹی باندھ دی، مارا پیٹا اور تفتیش کرتے رہے کہ رات کو کون لوگ آئے تھے۔انھوں نے بتایا کہ وہ اجنبی تھے۔

جب فوجی چلے گئے تو عبدالعزیز ازبکی پہ منکشف ہوا کہ ان کا بیٹا اور بہو خون میں لت پت بستر پہ پڑے ہیں جبکہ دونوں پوتے غائب ہیں۔

ان کی تو ہنستی بستی دنیا ہی لٹ گئی اور وہ نیم پاگل ہو گئے۔ ظالم برطانوی فوجیوں نے آناً فاناً ایک ہنستا بستا گھرانا خاک وخون میں نہلا دیا۔ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ فائرنگ سے دونوں بچے زخمی ہو گئے تھے لہذا فوجی انھیں اپنے ساتھ لے گئے اور اسپتال میں داخل کرا دیا۔

اس دھاوے میں ایک عورت شہید ہو گئی تھی اور دو بچے بھی زخمی ہوئے۔ برطانوی ملٹری قانون کہتا ہے کہ جس لڑائی میں خواتین اور بچے شامل ہو جائیں ، تو اس کی بابت ملٹری پولیس کو باخبر کرنا ضروری ہے۔لیکن افغانستان میں تو برطانوی اسپیشل فورسز قانون سے ماورا بنی بیٹھی تھیں۔ چناں چہ اس واقعے کی خبر ملٹری پولیس کو نہیں دی گئی۔

عبدالعزیز کے پڑوسی، لال محمد چھ بیٹوں اور تین بیٹیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ برطانوی حملہ آور ٹیم نے وہاں بھی دھاوا بول دیا۔بوڑھے لال محمد کو مارا پیٹا اور اس سے اجنبیوں کی بابت پوچھ گچھ کرتے رہے۔بعد ازاں انھیں، بیٹیوں اور چھوٹے بیٹے کو کمرے میں بند کر دیا۔ صبح پڑوسیوں نے دروازہ توڑا تو لال محمد کو پتا چلا کہ ظالم غیرملکی فوجی ان کے دو بیٹوں کو شہید کر گئے ہیں۔

اس واقعے سے عیاں ہے کہ شاید شیش ابا آنے والے دو اجنبی طالبان سے تعلق رکھتے تھے۔ گاؤں والوں نے انھیں صرف کھانا کھلایا، مگر مغربی افواج کی نظر میں یہ عمل ان کا جرم بن گیا۔ چناں چہ بے گناہوں اور معصوم لوگوں کی جانیں لے لی گئیں۔

آج بلال اور عمران ہوش سنبھال چکے۔انھیں کچھ یاد نہیں کہ ۷ اگست ۲۰۱۲ء کی رات ان پہ کیسی قیامت ٹوٹی تھی۔وہ اپنے والدین کو جب بھی یاد کریں تو آنکھیں پانی سے بھر جاتی ہیں۔ باپ کی تو پھر تصویر موجود ہے، وہ اپنی ماں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ وہ کیسی تھی۔اسپیشل فورسز کے فوجیوں کے ظلم وجبر نے ان بچوں کو باپ کی شفقت اور ماں کی مامتا سے محروم کر دیا۔

دکھ وٖغم زندگی بھر ساتھ

برطانیہ کی اسپیشل فورسز نے افغانستان میں نہتے شہریوں پر جو حملے کیے، درج بالا ان کی صرف دو مثالیں ہیں۔ ورنہ ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اور ان کی غیر انسانی اور غیر قانونی سرگرمیاں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ہر دھاوے میں برطانوی فوجیوں نے اخلاقیات اور قانون کو پامال کیا ہو گا۔

مگر کوئی نہیں جو ان سے اس ظلم وزیادتی کا حساب کتاب کر سکے۔ رائل کورٹس آف جسٹس میں یونائٹیڈ کنگڈم اسپیشل فورسز کے خلاف ضرور مقدمہ چل رہا ہے،مگر اس کی بیشتر تفصیلات خفیہ ہیں۔ حتی کہ افغان شہریوں کو شہید کرنے میں ملوث سکوارڈرنوں کے سربراہوں کے نام بھی پوشیدہ رکھے گئے ہیں۔

اس امر سے عیاں ہے کہ مقدمے میں شاید ہی کسی برطانوی فوجی افسر یا جوان کو سزا ملے، انھیں بس سخت باتیں سنا کر بری کر دیا جائے گا۔ مگر ان کی ماورائے قانون کارروائیوں سے شہید افغانوں کے اہل خانہ اور عزیز واقارب جس دکھ، غم اور غصّے سے گذر رہے ہیں، وہ شاید زندگی بھر ان کا ساتھ نہ چھوڑ سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔