غزہ مکمل محاصرے میں

چلیے رہنے دیتے ہیں انہیں! وہ تو اپنا کام کر رہے ہیں اور ہم۔۔۔۔۔۔۔ ؟


’’ان‘‘ کا کتا بھی مرجائے تو اس کے حقوق کا واویلا ہونے لگتا ہے، ہمارے معصوم بچوں کے خون کی ندی بہادی جائے تو خاموشی چھائی رہتی ہے ۔ فوٹو : فائل

بھاشن ہی بھاشن، منڈی لگی ہوئی ہے بھاشنوں کی، ٹکے سیر بھاشن، اگر وہ بھی پلے نہ ہو تو مفت میں دست یاب ہیں۔ دانش وروں کے بھاشن، حقوق انسانی، اقدار، رواداری کے بھاشن۔ پک گئے کان لیکن صاحبو! یہ نہیں تھکتے، وہی گھسے پٹے لفظوں کی جگالی۔ بھاشن، بھاشن کھلیتے کیوں ہیں یہ۔۔۔ ؟

ارے یہ بھی راز ہے کیا! ان بھاشنوں کا انہیں صلہ ملتا ہے، ان کے کھیسے میں دام ڈالو اور بس سنتے چلے جاؤ، ان سے جو چاہے، جہاں چاہے کہلوالو۔

کیا آپ انسانی حقوق سے مراد انسان کو ہی لیتے ہیں؟

نہیں صاحبو! ان کی لغت میں انسان سے مراد صرف وہ انسان ہیں جو ان کے خیالات سے مکمل متفق ہوں، ان کے نام کی مالا جپیں، ان کے گن گائیں، بھری دوپہر کو وہ نصف شب کہیں تو سب راگ الاپنے لگتے ہیں، جی جی رات ہے کہ کتنی اندھیری۔ وہ ڈانٹ دیں کہ کہاں ہے اندھیرا۔۔۔۔ ! تو ناچ ناچ کر پکارنے لگتے ہیں، ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے جی!

ان مسخروں کو دیکھیے، ان کی اچھل کود دیکھیے اور کم از کم داد کے تو یہ مستحق ہیں ہی کہ کیا کمال کے ہیں یہ مسخرے، جب چاہیں رونے کی اداکاری اور جب چاہیں قہقہوں کی برسات، جب چاہیں سنجیدگی اور جب چاہیں متفکر ہونے کا اداکاری۔ قسم ہا قسم کے مکھوٹے سجائے مسخرے۔

چلیے رہنے دیتے ہیں انہیں! وہ تو اپنا کام کر رہے ہیں اور ہم۔۔۔۔۔۔۔ ؟

غزہ میں بھی کیا انسان بستے ہیں۔۔۔۔ ؟ معلوم نہیں!

سنا ہے ان پر بارود کی بارش ہو رہی ہے، بارش کیا بارود کا طوفان بلاخیز، جن کا نشانہ انسان ہیں، اور انسانوں کے ساتھ اسپتال، کلیسا، مسجد سب کچھ ان کی زد میں ہے، رقص ہر سو موت کا رقص۔ رقص بسمل۔۔۔۔۔!

غزّہ مکمل محاصرے میں ہے، تیاری کیا ہے؟ یہ کوئی اتنا بڑا معما ہے کیا جو سمجھ میں نہیں آئے۔ سامنے کی سچائی یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے وظیفہ خواروں نے طے کرلیا ہے کہ کسی بھی طرح غزہ کو خالی کرایا جائے اور انہیں ایک کونے میں دھکیل کر خود اس پر قابض ہُوا جائے، پھر جو باقی رہ جائیں گے انہیں تو ایک ہلے میں ختم کیا جاسکتا ہے۔

ہو بھی جائے گا کیا ایسا۔۔۔۔!

فقیر تو کچھ بھی نہیں جانتا بس اتنا کہ انسان کے بنائے ہوئے منصوبوں پر رب تعالی کے منصوبے ہمیشہ غالب آتے ہیں، پھر سب کچھ تار عنکبوت ثابت ہوتا ہے، بس پھر حسرت آہ بن جاتی اور منہ چھپاتی ہے۔

غزہ کے پراسرار بندے تو آتش نمرود میں رقص کر رہے ہیں، نمازعشق کا وضو اپنے لہو سے کر رہے ہیں، انہوں نے تو اپنی نذر پوری کرلی، وہ تو اپنی مراد پاگئے، اور رہ گئے ہم۔ آزمائش ان پر نہیں ہم پر آگئی کہ ہم کیا کرتے ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں ہم کیا کر رہے ہیں۔

چلیے چھوڑیے! مجھ فقیر کی بک بک تو جاری رہے گی۔

آئیے! سیمینار، سیمینار کھیلیں۔ آپ سیمینار نہیں کھیل سکتے! کوئی بات نہیں، ریلی، ریلی کھیلتے ہیں۔ نہیں! چلیے پریس کلب چلتے ہیں، اسرائیل مردہ باد کا نعرہ تو بلند کر سکتے ہیں ناں۔ ظالموں، سفاکوں، بے رحم قاتلوں، عیاری و مکاری کے اماموں سے رحم کی بھیک مانگتے ہیں۔ ارے یہ بھی نہیں کر سکتے! تو چلیے مذمت مذمت کھیلتے ہیں۔ کیا بگڑتا ہے اس مذمت میں! زبانی کلامی مذمت کرنے میں حرج ہی کیا ہے! کیا آپ قرارداد، قرارداد بھی نہیں کھیل سکتے! ارے ہاتھ ہی تو اٹھانا ہوتے ہیں اس میں اور کیا ہوتا ہے۔ اتنے سارے کھیلوں میں تو آپ کو اپنی پسند کے کھیل کا انتخاب کرنا ہی ہوگا۔ یہ ضروری بھی نہیں ہے۔

بھول جائیے! سب کچھ بھول جائیے۔ آئیے کھانا کھائیے، رقص و سرود کی محفل سجائیے۔ یارو سجانے کا کون کہہ رہا ہے۔ بس گھر میں رکھے ہوئے بے حس و مردہ ڈبے کا بٹن دبائیے، ریموٹ کنٹرول تھامیے، پھر دیکھیے تماشا۔ بھرمار ہے۔ اپنی پسند کا بٹن دبائیے، کھو جائیے پھر اس میں۔ ہمیں کیا لینا دینا! ہم پر بمباری تو ہو نہیں رہی۔

ارے ہاں چلیے کرکٹ دیکھتے ہیں۔

امت مسلمہ کے ہردل عزیز حکم رانوں نے ہمیں بچا لیا۔ آئیے! ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعائیہ تقریب منعقد کریں۔ وہ نہ ہوتے تو ہم نہ ہوتے۔ سلامت رہیں آپ۔ مستند ہے آپ کا فرمایا ہُوا جناب، مستند۔ سکہ رائج الوقت ہے آپ کا فرمانِ امروز۔ ٹکسالوں میں ڈھلے ہوئے سکّے بھی وزن رکھتے ہیں پھر آپ تو ظل الٰہی ہیں۔ فرش پر خدا کا سایا۔ آپ کا اقبال بلند ہو۔ آپ کی توہین! میرے منہ میں خاک۔ کوئی سوچ بھی کیسے سکتا ہے! خیال کا گزر بھی دل میں نہ در آئے۔ سدا سلامت رہیے۔

اور کیا کریں۔۔۔۔ ؟

صاحبو! کچھ نہیں کر سکتے۔ کوئی سدا نہیں جیا، کوئی بھی نہیں، کبھی بھی نہیں، ساقیٔ مہ خانہ بھی نہیں، رندِ بلانوش بھی نہیں، صوفی و گم راہ بھی نہیں، مواحد و ملحد بھی نہیں، شاہ و گدا بھی نہیں، مقرب بھی نہیں، راندۂ درگاہ بھی نہیں، مفلس و اغنیاء بھی نہیں، بادشاہ بھی نہیں، رعایا بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، فنا فنا اور فنا۔ ہر طرف زندگی پر موت کا پہرہ ہے۔ جہاں چاہے گی دبوچ لے گی، کوئی راہِ فرار نہیں، کوئی پناہ گاہ نہیں۔ میدانوں میں، کھیتوں میں، کھلیانوں میں، محلوں میں، ایوانوں میں، گلیوں اور بازاروں میں، قلعہ بند مکانوں میں کوئی جائے پناہ نہیں۔ لڑ کر نہ مرے تو بستر پر مریں گے۔ عزت کو دھتکارا تو ذلت سے مریں گے۔ سینہ سپر نہ ہوئے تو بزدلوں کی طرح مریں گے۔ زمینی خداؤں کے آگے سرِ تسلیم خم کیا تب بھی مریں گے، کوئی نہیں بچا سکتا۔

ہاں ہاں کون مرنا چاہتا ہے، کوئی بھی نہیں مرنا چاہتا۔ کیوں مریں ہم! موت ہمیں ڈھونڈتی ہے ناں، ہم موت کو کیوں تلاش نہیں کرتے؟ جب لکھا ہے فنا تو پھر کیا خوف۔ آج نہیں تو کل، پلک جھپکتے ہی موت کا پھندہ۔ ہر سمت پہرہ۔۔۔۔ پھر بقا کیوں نہیں ڈھونڈتے! بکھری پڑی ہے بقا ہر سمت، سامنے کھڑی ہے، کیوں نہیں اسے سینے سے لگا لیتے۔ خدائے واحد و قہّار نے کہا ہے: میری راہ میں مرو، تم زندگی پا جاؤ گے۔ اسی رب ذی وقار کا کہنا ہے، کہنا کیا ہے، ذرا لہجہ دیکھیے: مردہ کہنا، نہیں نہیں زندگی پالی ہے انھوں نے۔ خیال میں بھی نہ لانا وہ مردہ ہیں، ہماری راہ میں مرنا، موت کو فنا کے گھاٹ اتارنا ہے۔



میں پھر بھٹک گیا ہوں ناں۔ چلیے کچھ دیر اور برداشت کیجیے، پہلے بھی تو اتنا برداشت کرتے آئے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ کے پسندیدہ پروگرام کا وقت قریب آ پہنچا ہے، مجھے احساس ہے۔ آپ ہی کا تو احساس ہے۔ یقین جانیے! سچ کہہ رہا ہوں، اتنی بڑی نعمت بٹ رہی ہے، ہم کیوں محروم ہیں!

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

کیوں کرتا ہے فقیر ایسی باتیں؟ کسی دانا نے میرے سینے میں اتار دی ہیں۔ فقیر کیا کر سکتا ہے، کچھ بھی نہیں۔ اے عقل و خرد کے پتلو! دنیا دھوکے کا گھر ہے۔ پل پل موت، ہر پل مرنا۔ کب جی رہے ہیں ہم! انھیں اپنے دل کے ارمان نکال لینے دیجیے۔ کچھ تو کیجیے۔ کیا بس اسی طرح رہیں گے! سانس کی آمد و رفت کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں ہم۔ لعنت بھیج دیجیے، تھوک دیجیے ایسی زندگی پر۔

اقبال کو دیکھیے کیا کہہ رہا ہے۔ اقبال کو بھی قبر سے نکال لیجیے، اس پر بھی مقدمہ درج کیجیے، امنِ عامہ کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے ناں وہ! یہی کہتے ہیں ناں آپ۔

ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سراغ

اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو

نہیں ہے بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ

اور سناؤں آپ کو اگر آپ کچھ وقت فارغ کر سکیں!

اپنا ڈراما لیٹ نائٹ میں دیکھ لیجیے گا۔ رپیٹ ٹیلی کاسٹ میں۔

سنیے!

دلِ مردہ دل نہیں ہے' اسے زندہ کر دوبارہ

کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ

آپ ابھی تو معلوم کر رہے تھے کیا حل ہے اتنے سارے مسائل کا۔ اپنے دل کو زندہ تو کیجیے۔ خود بہ خود نظر آنے لگے گا حل بھی۔ سینے میں بند دل کو ذرا سا راستہ دیجیے، پھر ہم انھی پر تکیہ کیے بیٹھے رہیں گے۔

جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست

باقی نہیں اب میری ضرورت تہہِ افلاک

او آئی سی کا اجلاس مسئلہ حل کر دے گا ؟ کیا آپ اتنی سی بات بھی نہیں جانتے!

یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کے بیچ کھاتا ہے

گلیمِ بوذرؓ و دلقِ اویسؓ و چادرِ زہرا ؓ

آئیے! چھوڑ دیجیے انھیں اپنے حال پر۔ چھوڑ کیوں نہیں دیتے آپ انھیں! سب اپنے اپنے حصے کی قبر میں جائیں گے۔ یقین جانیے! ضرور جائیں گے۔ کوئی مفر نہیں ہے۔ ہم اپنی قبر کو کیوں مٹی کا ڈھیر بنا دیں، آخر کیوں؟

راہ و راہ نما انسانیت آقا و مولا مخبرِصادق ﷺ نے فرمایا اور کیا خوب فرمایا: ''قبر کو مٹی کا ڈھیر نہ سمجھو۔ یہ جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ۔''

آپ کیا پسند کریں گے، یہ آپ پر ہے ناں۔

ہمیں درسِ انسانی دینے والوں سے ذرا معلوم کیجیے کہاں ہیں وہ اب؟ کہاں ہیں؟ روشن خیالی کے مدرس، کہاں ہیں برداشت کا بھاشن دینے والے خطیب، کہاں ہیں حقوق انسانی؟ کس چڑیا کا نام ہے یہ؟ کہاں پائی جاتی ہے یہ؟ ذرا ہمیں بھی بتائیے۔ دیکھیے ہم ہمہ تن گوش ہیں۔

ان کا کتا بھی مر جائے تو اس کے حقوق کا واویلا ہونے لگتا ہے۔ ہمارے معصوم بچوں کے خون کی ندی بہادی جائے تو خاموشی چھائی رہتی ہے۔ خاموش رہیں گے آپ! بتائیے ناں۔ ان کے کتے کے بھی حقوق ہیں اور ہمارے۔۔۔۔!

ہمیشہ سے اسرائیل ایسا ہی کرتا رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں، ہم بہت جلد بھول جاتے ہیں، تاریخ کی کتاب کی گرد جھاڑیے ناں، چلیے ماضی میں چلتے ہیں۔

اس خبرکو دوبارہ پڑھیے۔ بہت پہلے اسرائیل کا وزیراعظم ایہودالمرت ہُوا کرتا تھا جس نے لبنان پر بادود برسایا تھا۔

''اسرائیلی وزیراعظم ایہودالمرت نے لبنان میں شہریوں کے قتل عام پر یورپ کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ خود یورپی ملکوں نے کوسوو میں دس ہزار سے زاید شہریوں کا قتل عام کیا۔ جرمن اخبار کو انٹرویو میں ایہودالمرت نے کہا کہ وہ کوسوو میں یورپی ملکوں کی مداخلت کو غلط قرار نہیں دے رہے، مگر یورپ اسرائیل کو یہ سبق نہ پڑھائے کہ عام شہریوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ یورپ کو لبنان پر اسرائیلی حملے بند کرانے کی کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔''

سن لیا جناب آپ نے۔۔۔۔! چلیں سیمینار سیمینار کھیلیں، سیمینار نہیں تو ریلی ریلی تو کھیل ہی لیں۔ n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں