غزل
رستہ اتنا لمبا بھی ہو سکتا ہے
دریا سوکھ کے صحرا بھی ہو سکتا ہے
حسن ہے حسن دوبالا بھی ہو سکتا ہے
چھو لینے سے میلا بھی ہو سکتا ہے
عام سی بات ہے آنکھوں کا چندھیا جانا
بندہ عشق میں اندھا بھی ہو سکتا ہے
سرخ شرارہ سی رنگت سے مت الجھو
کوئی نیلا پیلا بھی ہو سکتا ہے
کس کو خبر ہے دھوپ میں جلنے والوں پر
عشق آسیب کا سایا بھی ہو سکتا ہے
ڈھلتے سائے آوازیں کھا جائیں گے
یہ سناٹا گہرا بھی ہو سکتا ہے
عشق کی راہ سے تائب ہونے والے، تو
وقت سے پہلے بوڑھا بھی ہو سکتا ہے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
دل کے زخموں کے نشاں ڈھونڈ نہ اب چہرے پر
ہم نے دکھ درد سجائے بھلا کب چہرے پر
شدتِ درد میں جب دل پہ رکھا میں نے ہاتھ
رکھ دیے اس نے بھی آہستہ سے لب چہرے پر
لمس محسوس کیا اس نے مری سانسوں کا
رنگ بکھرے تھے محبت کے غضب، چہرے پر
دل کی جانب تو کوئی ایک بھی کب دیکھتا ہے
بس جما رکھتے ہیں نظریں یہاں سب چہرے پر
موسمِ گل میں بہر سمت کھلے کتنے گلاب
رنگ اس شوخ کا بھی آیا عجب چہرے پر
قدر ظلمت میں ہوئی چاند کی ہمراہی کی
نور اڑتا نظر آیا مجھے شب، چہرے پر
کس لیے میں ہی ولی ؔپڑھ نہیں سکتا اکثر
لکھا ہوتا ہے اگر نام و نسب چہرے پر
(شاہ روم خان ولی۔مردان)
۔۔۔
غزل
قبیلہ کس لیے میرے خلاف ہو رہا تھا
روایتوں سے اگر انحراف ہو رہا تھا
تمام ہجر کے ماروں کی آنکھیں نم تھیں جب
دیارِ وصل کا پہلا طواف ہو رہا تھا
میں سیڑھیوں پہ کھڑا مسکرائے جاتا تھا
مرے خیال پہ جب ہاتھ صاف ہو رہا تھا
قبائے زرد نے پیڑوں کو ڈھانپ رکھا تھا
برہنہ شاخ کا جب انکشاف ہو رہا تھا
یہ دستکیں مری بنیاد تک ہلا دیں گی
کہ جسم و جان میں جیسے شگاف ہو رہا تھا
کئی بلاؤں نے گھیرے میں لے لیا تھا مجھے
کسی کی یاد میں جب اعتکاف ہو رہا تھا
یہ وقت رک گیا طاہر مرے دریچے پر
کہ میرے ہونے کا یوں اعتراف ہو رہا تھا
(طاہربلوچ۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
قیدِ تنہائی میں اک وہم سا ہوتا ہے مجھے
جیسے آنگن کا کوئی پیڑ بلاتا ہے مجھے
میں ہوں مجبور بہت اپنی اَنا کے ہاتھوں
تجھ پہ غصے میں مگر پیار بھی آتا ہے مجھے
جب تری یاد کے جنگل سے گزرتا ہوں میں
کوئی درویش رہِ عشق دکھاتا ہے مجھے
اس کی خواہش ہے میں دریا کا بہاؤ ہوتا
ایک پتھر مرے رستے سے ہٹاتا ہے مجھے
میرا کردار کہانی میں نہیں ہے پھر بھی
سارے منظر سے قلمکار ملاتا ہے مجھے
اپنے ہنسنے میں تسلسل نہیں رکھ سکتا معاذؔ
رنج ایسا ہے کہ ہر بار رلاتا ہے مجھے
(احمد معاذ۔کہوٹہ، راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
کتابِ دل کے نئے باب دیکھنے آئے
کوئی تو ہو جو مرے خواب دیکھنے آئے
میں جھیل بن گیا آخر تری محبت میں
کہ مجھ میں تُو کبھی مہتاب دیکھنے آئے
ہمیں سکون سے آتی تھی نیند گاؤں میں
اگرچہ شہر میں ہم خواب دیکھنے آئے
پھر ایک لہر اٹھی ساتھ لے گئی سب کو
وہ بے خبر تھے جو سیلاب دیکھنے آئے
میں جن کی آخری امید تھا مجھے عادس ؔ
خراب وقت میں شاداب دیکھنے آئے
(امجد عادس ۔راولا کوٹ، آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
عجب بناتا ہے یا پھر حسیں بناتا ہے
بنانے والا یونہی کچھ نہیں بناتا ہے
توُ داغدار بنا دیتا ہے گناہوں سے
خدا تو نور سے روشن جبیں بناتا ہے
یہ کائناتِ ہنر ہے یہاں ہر اک فنکار
لکیریں کھینچ کے اپنی زمیں بنا تا
ہزاروں درد چھپائے ہیں جس جگہ میں نے
ترا خیال ٹھکانا وہیں بناتا ہے
ہمارا ذہن بھی ہے،آئینے کے جیسا جمیلؔ
جو سامنے ہو اُسی کو مکیں بناتا ہے
(احمد جمیل ۔امراؤتی، مہاراشٹر، بھارت)
۔۔۔
غزل
تو مجھے جان سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے
یہ حقیقت میں سراسر بھی تو ہو سکتا ہے
تیری یادیں مری مرضی کی تو محتاج نہیں
تیرا درشن مجھے ازبر بھی تو ہو سکتا ہے
میرے نایاب خیالوں کو تو زر آب سمجھ
دل سے لکھا ہوا نادر بھی تو ہو سکتا ہے
تو مجھے چاہے، میں چاہوں تجھے تیری طرح
سلسلہ پیار برابر بھی تو ہو سکتا ہے
تیرا ہی روپ جھلکتا ہے غزل میں جاناں
تو مری سوچ کا محور بھی تو ہو سکتا ہے
دل کو توڑو گے تو پھر باسی کہاں جائے گا
یہ مرا دل کسی کا گھر بھی تو ہو سکتا ہے
(امجد ہزاروی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
خزاں میں ڈھال دیا دل کو جب بہاروں نے
تو کیا گلہ کہ لگائے ہیں زخم خاروں نے
میں اپنی ناؤ حوالے کروں بھنور کے اب
کہ مجھ سے پھیر لیا منہ مرے کناروں نے
درخت بن کے جنہیں چھاؤں کا سہارا دیا
ہوا جو زرد تو کاٹا انہیں سہاروں نے
نہ آئے حرف کوئی ان کی غمگساری پر
تبھی تو سی دیے لب میرے غم گساروں نے
ردائے درد تغافل جو تان دی مجھ پر
زباں بھی کی تھی مقفل مرے دلاروں نے
میں یاد آؤں نہ کمرے نہ اپنی چیزوں سے
مٹا دیا ہے ہر اک نقش میرے پیاروں نے
ہو اپنی تیرہ نصیبی کا کیا گلہ طاہرؔ
فلک کو لوٹ لیا اپنے چاند تاروں نے
(محمد طاہر۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
وسعتِ ارض و سمٰوات میں کھو جاتا ہے
ذہن ماضی کے خیالات میں کھو جاتا ہے
ایک تصویر پسِ حرف بنا لینے سے
آدمی اس کے بیانات میں کھو جاتا ہے
مرکزِ دل سے نکلتے ہی سرِ چشم اک اشک
چاک دامن کے مضافات میں کھو جاتا ہے
کربلا، شام، نجف، کوفہ، بقیع، بیتِ نبی
میرا غم ہجرتِ سادات میں کھو جاتا ہے
ورنہ اک کوہِ گراں کچا گھڑا ریگِ عرب
دل ہے جو ایسی مہمات میں کھو جاتا ہے
تب کہیں حسنِ کرامات پہ ہوتا ہے یقیں
جب گماں اُسکے کمالات میں کھو جاتا ہے
(علی اعجاز سحر۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
دل ہم نے ایک شخص پہ ہارا تو کیا ہو
اس نے بھی تیر پشت پہ مارا تو کیا ہوا
اس کاروبارِ عشق میں ہمدم! مری طرح
حاصل ہوا تجھے بھی خسارہ تو کیا ہوا
دل میں کسی کی یاد کو رکھا تو کیا ہوا
صدقہ کسی کا ہم نے اتارا تو کیا ہوا
سو ہی گیا ہے آج وہ مہتاب بام پر
بجھ ہی گیا ہے آج وہ تارہ تو کیا ہوا
اک شخص کہہ رہا ہے درختوں کو کاٹ کر
چڑیوں سے چھن گیا ہے سہارا تو کیا ہوا
تونے بھی ایک عہد کو توڑا تو کیا ہوا
تونے بھی روپ وقت کا دھارا تو کیا ہوا
ہر پھول دے رہا ہے جیا دم بدم صدا
ہم نے چمن لہو سے نکھارا تو کیا ہوا
(جیا قریشی۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
تیرے جیسا کوئی دلربا ہی نہیں
زندگی ساری تجھ سا ملا ہی نہیں
یہ محبت مری جس سے منسوب ہے
اس کے وعدے میں کوئی وفا ہی نہیں
چند لمحے مرے سامنے بیٹھ جا
تیرے دیدار سے دل بھرا ہی نہیں
ظلم سہہ کر محبت کے ایسا لگا
میرے نازک بدن کچھ ہوا ہی نہیں
چھوڑ دے اے جہاں بھر کی پگلی مجھے
چند سانسوں سوا کچھ بچا ہی نہیں
ساتھ کیسے محبت کا جوڑوں میاں
جس کی نظروں میں شرم و حیا ہی نہیں
ایک دن مجھ سے بلبل نے رو کر کہا
باغ میں کوئی نغمہ سرا ہی نہیں
(ملک نعمان حیدر حامی، بھکر)
۔۔۔
غزل
دشت کے تلخ مناظر کی طرف بھاگتے ہیں
ہم سے عشاق کہاں گھرکی طرف بھاگتے ہیں
رات کٹتی ہے کسی خواب زدہ کمرے میں
دن نکلتا ہے تو دفتر کی طرف بھاگتے ہیں
عصرِ عاشور کوئی اسم بلاتا ہے ہمیں
اور ہم لوگ بہتر کی طرف بھاگتے ہیں
ڈھونڈتے ڈھونڈتے آسانیاں آیات کے ساتھ
لوگ تھک جائیں تو پھر شر کی طرف بھاگتے ہیں
ہم ترے پاؤں پہ سر رکھیں گے سب سے پہلے
اور ہوتے ہیں جو بستر کی طرف بھاگتے ہیں
(بلال قیس ۔شورکوٹ)
۔۔۔
غزل
زندگی کو کہا خدا حافظ
ہر خوشی کو کہاخدا حافظ
بے کلی تیرے ساتھ تک تھی ساتھ
بے کلی کو کہاخدا حافظ
آگہی آگ ہوئی جب یارو
آگہی کو کہاخدا حافظ
ایک امید کی کرن پھوٹی
بے بسی کو کہاخدا حافظ
آدمیت نہ آدمی میں رہی
آدمی کو کہاخدا حافظ
عہد ہم بھی نبھانے آئے تھے
پھر شفیؔ کو کہاخدا حافظ
(ملک شفقت اللہ شفی۔ جھنگ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی