ماحولیاتی تبدیلی اور سائنسی ایجادات

قدیم زمانے سے بھی یہ بات کہی جا رہی ہے جو اب سچ ثابت ہو گئی ہے


Zamrad Naqvi October 30, 2023
www.facebook.com/shah Naqvi

لیبیا میں اس سال 11ستمبر2023 کو ایک ایسا تباہ کن سیلاب آیا جسے اگر طوفان نوح سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس سیلاب نے 20ہزار سے زائد لوگوں کی جان لے لی۔ دس ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہو گئے۔ پانی اتنا زیادہ تھا کہ دو ڈیم پھٹ گئے۔ نتیجے میں قریبی شہر میں 30 ملین کیوبک پانی داخل ہو گیا جس کی وجہ سے اتنی زیادہ اموات ہوئیں۔

ورلڈ میٹرو لوجیکل سسٹم نے بتایا طوفان کے لیبیا سے ٹکرانے کی وجہ سے 22گھنٹوں میں ایک سال کے برابر بارش ہوئی۔ اندازہ کریں صرف 22گھنٹوں میں۔ اس بارش کی مقدار 414ملی میٹر تھی۔ سمندر میں لوپریشر سسٹم کی وجہ سے یہ تباہی ہوئی۔

وجہ یہ ہے کہ سمندروں کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے جو ویکیوم پیدا ہوا اس نے چھوٹے طوفان کو بڑے طوفان میں تبدیل کر کے اس کی شدت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ اس کی وجہ ایک تو کلائمیٹ چینج اور دوسری وجہ لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک طویل مدت سے جاری سول وار ہے۔ اس خانہ جنگی کے باعث ڈیم اور نہری نظام اور اس سے متعلقہ چیزوں پر توجہ نہ دی جا سکی۔

اس سے پہلے یہی طوفان یونان بلغاریہ اور ترکی سے بھی ٹکرایا۔ یونانی شہر زیگورا میں اس طوفان نے ورلڈ ریکارڈ بنا دیا۔ وہاں پر صرف ایک دن کے اندر 750ملی میٹر بارش ہوئی یعنی جو 18مہینوں کے برابر تھی۔ سمندری درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے یہی کچھ مستقبل میں پاکستان اور بھارت میں ہونے جا رہا ہے۔ اﷲ خیر کرے!

زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے لیکن ہمیں اس کا گھومنا حرکت کرنا محسوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ زمین 1000میل فی گھنٹہ کے حساب سے حرکت کر رہی ہے۔ یہ اسپیڈ مستقل ہے۔ اس اسپیڈ کے مستقل ہونے کی وجہ سے ہمیں محسوس نہیں ہوتا کہ زمین گھوم رہی ہے۔

ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ زمین کی اس مستقل اسپیڈ میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی آجائے تو پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کر زمین پر آن گریں گے زمین ڈولتے ہوئے الٹ پلٹ ہو کر رہ جائے گی۔ سمندر پھٹ پڑیں گے۔ زمین کا توازن درہم برہم ہو جائے گا۔ شایدیہی وقت قیامت کا ہوگا۔

زمین کا ٹوٹل وزن کتنا ہے سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ زمین کا وزن 13ارب ٹریلین ٹن سے بھی زیادہ ہے سائنسدانوں نے زمین کو کسی ترازو میں نہیں تولا بلکہ انتہائی سائنٹفک بنیادوں پر اس کی پیمائش کی ہے۔

درخت آکسیجن مہیا کرتے ہیں لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ یہ صرف 28فیصد آکسیجن دیتے ہیں۔ جس میں آمیزون کے جنگلات کا حصہ 22فیصد ہے۔ اس میں باقی پوری دنیا کے جنگلات کا حصہ صرف 6فیصد ہے۔ جب کہ 72 فیصد آکسیجن سمندر مہیا کرتے ہیں۔

ہے نا حیرت انگیز بات۔ جب کہ سمندر ہرگزرتے دن کے ساتھ گرم ہو رہے ہیں تو آکسیجن کہاں سے ملے گی۔ سائنسدانوں نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا ہے کہ موجودہ سمندر کے نیچے 660 کلو میٹر کی گہرائی میں ایک اور سمندر ہے۔

خوشخبری خوشخبری ایک پینٹ جو ائیر کنڈیشن کی صنعت کا خاتمہ کر دے گا۔ ایک لحاظ سے یہ بہت بری خبر بھی ہے کہ اس طرح سے اس صنعت سے وابستہ لاکھوں کروڑوں افراد پوری دنیا میں بے روزگار ہو جائیں گے۔ یہ الٹراوائٹ پینٹ پیرو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ایجاد کیا ہے۔ یہ 98پرسنٹ سورج کی روشنی کو ریفلیکٹ کرتا ہے۔

دن میں درجہ حرارت میں 8ڈگری سینٹی گریڈ اور رات میں 19ڈگری سینٹی گریڈ کم کر دے گا یہ پینٹ صرف ایک فیصد روشنی جذب کرتا ہے یہ ابتدائی پینٹ ہے۔ ابھی اس سے بھی بہتر پینٹ آئیں گے۔

انڈیانا یونیورسٹی میں تجربات ہو رہے ہیں۔ اگلے دو سالوں میں یہ پینٹ مارکیٹ میں آجائے گا اور عوام کو بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے نجات مل جائے گی۔ اس صنعت سے وابستہ لوگوں کو اچانک اور کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لیے ابھی سے خبردار ہو جانا چاہیے۔

ویسے بھی گلوبل وارمنگ کی ایک بڑی وجہ ائیر کنڈیشنر سے نکلنے والی گیس ہے جو ہمارے شہروں کو گرم سے گرم تر کر رہی ہے۔ جب کہ چالیس پچاس برس پہلے جب ACنہیں تھے تو ہمارے شہر اتنے گرم نہیں تھے۔ صرف پنکھوں سے گذرا ہو جاتا تھا۔

2023 کو نوبل پرائز ان سائنسدانوں کو دیا گیا جنھوں نے کووڈ ویکسین ایجاد کی تھی۔ اب انھوں نے ایک اور دریافت کی ہے کہ انسان کی ہر بیماری کا علاج اس کے جسم کے اندر ہی موجودہے۔ یہ صلاحیت ہمارے جسم میں موجود ہے کہ وہ اپنی بیماریوں کا علاج کر سکے۔

قدیم زمانے سے بھی یہ بات کہی جا رہی ہے جو اب سچ ثابت ہو گئی ہے۔ نئی ریسرچ کے مطابق ہر انسان کے اندر ایک میڈیکل اسٹور ہوتا ہے۔ سائنسدان انسان کے جسم کے اندر ہی دوا بنائیں گے اور اب بیرونی دوا کی ضرورت نہیں ہوگی۔

یہ وہ حیرت انگیز ریسرچ ہے جس پر سائنسدانوں کو نوبل انعام دیا گیا۔ خوش خبری یہ ہے کہ خطرناک بیماری کینسر کا اس طریقے سے علاج دریافت کر لیا گیا ہے جس پر تحقیق جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔