تحریر کو اساس قرار دینے کا مطلب

قاضی صاحب کے لیے ادب میں معنی کے متعین ہونے کے برعکس اس کی تفریق و التوا زیادہ پُرکشش عمل ہے


[email protected]

فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے ساختیاتی تنقید کے انہدام کے بعد قرأت کا ایک مختلف طریقہ کار وضع کیا جسے آج ڈی کنسٹرکشن کے نام سے جانا جاتا ہے اور مغربی جامعات میں لاتشکیلی رجحان کے غیر معمولی اثر کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لاتشکیل کے بارے میں عمومی نقطہ نظر یہ ہے کہ اس نے لسانی بنیادوں پر بعض ایسے تضادات کو دریافت کیا ہے جو فلسفیانہ تعقلات کی گرفت سے باہر رہے ہیں۔ لاتشکیل سے قبل کی تنقید کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے ہی خیالات کا اظہار قاضی افضال حسین نے اپنی کتاب ''تحریر اساس تنقید'' میں کیا ہے۔

کتاب کے عنوان یعنی ''تحریر اساس تنقید'' ہی سے واضح ہے کہ مصنف ان مفکروں کے افکار سے بحث کریں گے جو' تحریر' کو بنیاد بناتے ہیں۔ ایسے مفکروں کی تعداد تو کافی زیادہ ہے مگر مصنف نے دریدا اور اس کی ڈی کنسٹرکشن پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔ تحریر کو اساس قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ قاضی افضال نے لاتشکیل کو قرأت کے ایک طریقۂ کار کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ قبولیت کا یہ عمل ''غیر جانب دار'' نہیں، قبولیت کا مطلب ہی فوقیتی ترتیب پر مبنی ان تمام ادبی و فلسفیانہ قضایا اور سماجی، سیاسی اور اخلاقی اقدار کو چیلنج کرنا ہے کہ جن کی بنیاد ''تقریر کی مرکزیت'' کے فلسفے پر رکھی گئی تھی۔

''تقریر کی مرکزیت'' کے فلسفے یا فوق تجربیت کے تحت متشکل ہوئے تعقلات کی رو سے تشکیل پائی ہوئی تمام اقدار کی حتمیت کو قبول کرنے سے انکار کرنا اور اس کے نتیجے میں اقدار کی تشکیل نہ کرنا ایک طرح کا ''بحران'' ہے۔ تاہم قاضی افضال کی تصنیف ''تحریر اساس تنقید'' میں ''کرائسس'' جیسی کسی اصطلاح کا کہیں ذکر نہیں ملتا، جب کہ مغرب میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے اقدار کے بحران کی بحث کثرت سے ملتی ہے۔

قاضی صاحب کے لیے ادب میں معنی کے متعین ہونے کے برعکس اس کی تفریق و التوا زیادہ پُرکشش عمل ہے۔ لاتشکیل کہتی ہے کہ خواہ یہ اقدار ادبی ہوں، سیاسی ہوں یا اخلاقی ہوں، فوقیتی ترتیب کو توڑکر اس میں دبے ہوئے معنی کو نکالنا ضروری ہے، لیکن جونہی معنی نکلتا ہے ، وہ تفریق و التوا کی عکاسی کرنے لگتا ہے۔ لہٰذا یہ تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ معنی دبا ہوا تھا اور جس فلسفے کے تحت معنی دبا ہوا تھا، اس کا تعلق ''موجودگی کی مابعد الطبیعات ''یا ''مرکز'' کے ساتھ تھا۔ مرکز، ماخذ، منشا، معنی ، موجودگی اور فوق تجربیت کی حتمیت کو قبول کرنے سے انکار کرنا ، لاتشکیل کو بطورِ ایک طریقۂ کار قبول کرنے کے لیے ضروری ہے۔

قاضی افضال نے اپنی کتاب ''تحریر اساس تنقید'' میں لاتشکیل کے کسی بھی قضیے پر اعتراض نہیں اٹھایا، بلکہ تحریر کی اساسی حیثیت کو قبول کرتے ہوئے لاتشکیل کے جدیدیت پر اٹھائے گئے اعتراضات کو کسی بھی طرح کی قدغن لگائے بغیر قبول کرلیا ہے۔ ایک ہی فقرے میں اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ کتاب میں ڈی کنسٹرکشن بطورِ ایک ''میٹا تھیوری'' کے کام کرتی ہے۔

لاتشکیل کے تحت گزشتہ فلسفوں یا ادبی قضایا میں ناقابلِ تحلیل تضادات دکھانے کا مطلب چونکہ اگلے مرحلے پر پہنچنا ہے، اس لیے ان تضادات کی موضوعی یا غیر سائنسی تحلیل کر کے آگے بڑھنا ممکن نہیں، جیسا کہ تحریر اساس تنقید'' میں دعویٰ کیا گیا ہے، لہذا اب ظاہری تنوع کے برعکس حقیقی تنوع کی طرف بڑھنا ہے۔ اور وہ تنوع لاتشکیل کو ایک ''میٹا تھیوری'' تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بالکل یوں جیسے سرمایہ داری نظام ایک ''میٹا نظام'' کے تحت کام کرتا ہوا، تنوع کو یقینی بناتا ہے۔ اور اس نظام کے محافظ ہر شے کا انہدام چاہتے ہیں مگر سرمایہ داری کے انہدام سے خائف ہیں۔

قاضی افضال نے لاتشکیل کو ایک میٹا تھیوری کے طور پر قبول کرتے ہوئے اس کی روشنی میں اُردو شاعری اور افسانوں کے تجزیات پیش کیے ہیں۔ جس طریقے سے اُردو شاعری اور افسانوں کے تجزیات پیش کیے گئے ہیں، ان سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ صرف وہی خیال یا خیال کنندہ، فلسفہ یا فلسفی، تنقید یا نقاد زندہ رہ سکتا ہے جولاتشکیل کے اٹھائے ہوئے قضایا کا مکمل علم رکھنے کے علاوہ ان کا ادب و تنقید یا تعقلاتی فلسفے سے تعلق کا تجزیہ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مصنف کی مابعد جدیدیت کی بنیاد پر پیش کی گئیں اُردو ادب اور شاعری کی تشریحات خاص طور پر دلچسپ ہیں۔ انھوں نے تقریباََ تمام ابواب میں دریدا کی مختلف کتابوں سے حوالے پیش کر کے اپنے موقف یایوں کہیں کہ دریدا کے موقف کی تصدیق کی ہے۔

دریدا کے قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ اس نے ادبی اور فلسفیانہ مباحث میں کوئی واضح حدِ امتیاز قائم نہیں کی، اور نہ ہی اعلیٰ اور ادنیٰ زبان میں کوئی فرق ہی قائم کیا ہے۔اس حوالے سے عہد حاضر کے سب سے بڑے فلسفی جرگن ہیبرماس کے اعتراضات کم از کم مجھے تو درست محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے دریدا کی حیثیت ایک ایسے قدامت پرست کی سی ہو جاتی ہے جو ان امتیازات کو ختم کرنے کی تبلیغ کرتا ہے جنھیں قائم کرنے کے لیے صدیاں گزر گئیں، یعنی اعلیٰ اور ادنیٰ تحریر کا امتیاز۔ اُردو ادب میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ادبی مباحث میں فلسفیانہ اصولوں کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، خود قاضی افضال حسین نے ادبی مباحث میں فلسفیانہ مباحث کا ذکر تک نہیں کیا۔

اگر دریدا کو ادبی نقاد کے طور پر دیکھنا ہے جیسا کہ قاضی صاحب نے دیکھتے ہوئے اس کے افکار کا اطلاق ادب و شاعری پر کردیا ہے تو دریدا کے اپنے طریقۂ کار کے بارے میں خاموشی کیوں؟ جس میں فلسفے کو ادب یا تحریر کی رو سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا تحلیلی طریقۂ کار تحلیلی فلسفے (Analytical philosophy) سے مستعار ہے، مگر معنی کی تفریق و التوا کو واضح کرتے ہوئے اس کا اطلاق نہ صرف ادب، فلسفے، عمرانیات، علم البشریات بلکہ سیاست پر بھی کیا گیا ہے۔ اور تمام علوم میں مرکزیت و ماخذ سے انحراف، موجودگی کا خاتمہ، معنی کی تفریق و التوا کو یکساں طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ "Spectres of Marx" میں قدرِ تبادلہ کو تحریر اور قدرِ استعمال کو تقریر کی مرکزیت سے جوڑ کر معاشیات کو بھی ادب کے اصولوں کا تابع دکھایا گیا ہے، خود قاضی صاحب سماجیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''یہ ایک الگ موضوع ہے۔'' تاہم افسوس یہ کہ دریدا کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی کہ ادب ایک الگ موضوع ہے، محض اس لیے کہ اس بار ادبی اصولوں کی مرکزیت قائم ہو رہی ہے؟ دریدا واضح کر چکا ہے کہ لاتشکیل ایک آفاقی پروجیکٹ ہے اور اس کا سیاسی، معاشی، اور سماجی متون سے گہرا تعلق ہے۔ لہذا قاضی صاحب کا یہ نکتہ قابلِ مدافعت نہیں ہے۔

مذکورہ کتاب لاتشکیل کے پیش کردہ اس دعوے کا جائزہ پیش نہیں کرتی کہ جس سے مختلف علوم کے مابین اس 'مرکزی' نکتے یا باطنی ربط کی نوعیت واضح ہو، جو آفاقیت کی آڑ میں اقدار کے مابین امتیازات کی معدومیت کا دعویدار ہے۔ بہرحال مصنف نے مابعد جدید نقادوں مثلاََ دریدا، گیڈیمر ، پال ریکور ، رولاں بارتھ،جولیا کرسٹیوا اور کرسٹوفر ناش وغیرہ جیسے نقادوں کی تشریحات پیش کی ہیں، لیکن ان نقادوں کے درمیان جہاں کہیں اختلافی نکات سامنے آتے ہیں وہاں مصنف نے اپنی طرف سے کوئی بھی رائے دینے سے پرہیز کیا ہے۔

حقیقت میں انھی نکات پر قاضی صاحب کا موقف سامنے آنے سے مذکورہ کتاب میں مضمر اصل بصیرت اور گہرائی کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مصنف نے صرف لاتشکیل کو ہی بغیر کسی طرح کی تنقید کے قبول نہیں کیا بلکہ ان قضایا کو بھی قبول کر لیا ہے، جو لاتشکیل سے مماثلت نہیں رکھتے اور جن کی واضح مثال دریدا کے ان ناقدین کی تحریروں میں ملتی ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ گیڈیمر واضح طور پر ہیگلیائی ہے، دریدا کے برعکس اس کی یہ خواہش رہی ہے کہ تنقید کو تعقلات Concepts)) کے دائرے میں لے آئے ۔ قاضی صاحب اس امر سے باخبر ہیں، لیکن محض مرکزیت کا نکتہ اٹھا کر گیڈیمر کی تھیوری کو مسترد نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ہر منفی قدر کو مرکزیت سے وابستہ کر کے اسے مسترد کرنے کا دعویٰ ہی کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی محض مرکزیت کے استرداد کو بطورِ دلیل ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔

اگر گیڈیمر مرکزیت یا مدلول(Signified) کا سوال اٹھاتا ہے، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کو معنی کے متعین کیے جانے میں دلچسپی ہے تو محض معنی کے متعین کیے جانے کے عمل کو مسترد کیوں کیا جائے؟ معنی کا متعین کیا جانا یا اس کو متعین کرنے کی خواہش رکھنا خیالی پلائو پکانے سے کہیں زیادہ حقیقی ہے۔ مگر دریدا یہ کہہ سکتا ہے کہ کیا 'حقیقی' کے کوئی معنی ہیں؟ اس صورت میں اسے یہ یاد کرایا جا سکتا ہے کہ اس کے وہی معنی ہیں جو اس مغربی مابعد الطبیعات کے ہیں جس کے تحت 'موجودگی' کا تصور بار بار جنم لیتا ہے ۔ مختصر یہ کہ اُردو میں مابعد جدید تھیوری کے تعلق سے اس سے بہتر کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔