میاں نواز شریف کی مدبرانہ سیاست
وہ عوام کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ان کی پٹاری میں بہت کچھ ہے
اُمید کے سہارے انسان اپنی زندگی کے دن بخوشی کاٹ لیتا ہے لیکن جب اُمید ختم ہو جائے تو زندگی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے، اسی طرح جب تک قوم کی اپنے کسی رہنماء سے وابستہ اُمیدیں زندہ رہتی ہیں تو وہ اچھے مستقبل کے لیے پُر امید رہتی ہے لیکن اگروہ رہنماء قوم کی امنگوں پر پورا نہ اترے تو قوم مایوسی کے اندھیروں میں گم ہوجاتی ہے۔
پاکستانی قوم بھی ان دنوں مہنگائی کے ہاتھوں اس قدر مایوس اور تنگ دست ہو چکی ہے کہ اس کی اپنے سیاسی و غیر سیاسی رہنماؤں سے جڑی تمام اُمیدیں ختم ہو چکی ہیں اور یہ کسی قوم کے زوال کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے۔ اس وقت قوم ملک میں انتخابات کی منتظر ہے او راسے زندگی میں بہتری کی امید انتخابات میں ہی نظر آرہی ہے۔
ان دنوں پس پردہ سیاسی کشمکش عروج پر ہے ،ہر جماعت کا لیڈر اپنے اقتدارکی بات کر رہا ہے ، کل تک جو جماعتیں ایک اتحاد کی صورت میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں آج ایک دوسرے کے لیے ان کے لب و لہجہ میں طنز کے نشتر ہیں۔
ان نئے حالات کو کوئی اپنی فتح سے تعبیر کر رہا ہے تو کوئی اس فتح کو ماننے سے انکاری ہے اور نئے پیدا شدہ حالات کو سازش سے تعبیر کر رہا ہے۔ کھل کر بات کرنے کے بجائے ڈھکے چھپے لفظوں میں سازش کے منبع کا ذکر کیا جارہا ہے لیکن ذرایع ابلاغ کی خوفناک حد تک حیرت ناک ترقی کے دور میں ڈھکے چھپے الفاظ اب نہیں چلتے ۔
آج کے عوام اپنے لیڈروں سے زیادہ باخبر ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اب لیڈر حضرات سے صاف ، واضح اورسیدھی بات ہی سننا چاہتے ہیں اور پھر اس کے مطابق اپنا فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کے لیڈر حضرات کا سیاسی قبلہ کس جانب ہے۔
میاں نواز شریف لندن سے لاہور پہنچنے کے بعد مری کے خنک موسم میں چند روز گزار کر واپس جاتی عمرہ پہنچ چکے ہیں۔ لاہور کے مضافات میں بیٹھ کر اپنے پارٹی کے رہنماؤں کی مشاورت سے وہ انتخابی مہم کے آغاز کا فیصلہ کرنے والے ہیں ۔
میاں نواز شریف جب سے وطن پہنچے ہیں انھوں نے الیکشن کے انعقاد کا ذکر کرنے سے گریز ہی کیا ہے چونکہ وہ چار برس کے بعد وطن لوٹے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ وطن کی فضاؤں سے مانوس ہونے کے لیے خاموش ہوں اور الیکشن کا مطالبہ کرنے سے پہلے وہ پاکستان میں بیٹھ کر پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کرنا چاہتے ہوں، بہر حال شنید یہی ہے کہ نواز شریف نے بہت ساری یقین دہانیوں کے بعد ہی وطن واپسی کا فیصلہ کیا ہے اور اس وقت شاید تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں کہ ان سے جو وعدے وعید کیے گئے ہیں ان پر کس طرح عمل کیا جاتا ہے ، اسی لیے وہ فی الحال خاموش نظر آتے ہیں۔
میاں نواز شریف وہ انقلابی باتیں نہیں کررہے جن کی پاداش میں انھیں تین مرتبہ نہ صرف وزات عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ بات ملک بدری تک جا پہنچی تھی۔ آخری مرتبہ جب ان کو وزارت عظمیٰ سے الگ کیا گیا تو انھوں نے اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر جا بجا اپنے ووٹرز سے پرجوش خطاب کیا جس میں وہ ایک ہی سوال ''مجھے کیوں نکالا'' کی گردان کرتے نظر آئے تھے لیکن ان کے اس سوال کا جواب جن کے پاس تھا وہی انھیں نکالنے والے تھے لہٰذا ان کو اپنے سوال کے جواب میں تشنگی کا سامنا کرنا پڑا۔
میاں نواز شریف نے بڑی ہمت سے حالات کا بھر پور مقابلہ کیا اور آج چند برس کے بعد وہ ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار دکھائی دے رہے ہیں، ان کی پارٹی نے جس طرح ان کا وطن واپسی پر والہانہ استقبال کیا ہے اس کی شاید ان کو توقع نہیں تھی ۔
میاں نواز شریف چوتھی بار ملک کو سنبھالا دینے کی بات کر رہے ہیں، وہ عوام کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ان کی پٹاری میں بہت کچھ ہے لیکن دوسری جانب دانشوروں کی محفل میں اس بات پر بحث و مباحثہ جاری ہے کہ اگر وہ واقعی ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام چاہتے ہیں تو انھیں سیاست کے تما م فریقوںکو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔
وہ ملکی سیاست میں سب سے سینئر اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جو اپنے منہ سے ایک بھی لفظ سوچے سمجھے بغیر نہیں نکالتے ۔ ان کو اپنے دل کی آواز کے بجائے دماغ کی بات سننا ہو گی ۔ جذبات کو سیاست سے الگ کر کے ٹھنڈے دماغ سے یہ سوچنا ہو گا کہ ماضی میں ان سے کہاں غلطیاں ہوئیں اور کہاں ان سے کرائی گئیں کہ یہ وقت ان غلطیوں کو درست کرنے کا ہے نا کہ ان غلطیوں کو دہرانے کا، آج کی بے رحم سیاست میں غلطیوں کی گنجائش بہت ہی کم رہ گئی ہے، سیاسی حریف اس تاک میں رہتے ہیں کہ مخالف غلطی کرے اور وہ اس کو پکڑ لیں جیسا کہ ان کے پیشرو کے ساتھ ہوا ہے۔
لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ میاں نواز شریف کی مدبرانہ سیاست کی اس وقت ملک کو اشد ضرورت ہے، سیاسی پلوں کے اوپر نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، ان حالات میں انھیں بڑے پن کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور کسی سیاسی مغالطے سے بچناہو گا کیونکہ سیاسی مغالطوں سے بچ کر ہی وہ اقتدار کو طول دے سکتے ہیں۔ میاں صاحب ایک فراغ دل انسان ہیں اور ان کی فراغ دلی کے قصے بہت مشہور ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ فراغ دل انسان سیاسی میدان میں کس حد تک فراغ دلی کا مظاہرہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔
ان کو ایک بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں ان کے سیاسی کردار انکار نہیں کیا جا سکتا اور ان کا سیاسی کردار ملک کے مستقبل کاتعین کرے گا ۔ ان کو قوم کی امید بننا ہے اور قوم کی امنگوں کو زندہ کرنا ہے اگر وہ ایک بڑے سیاسی رہنماء کا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو عوام ان کی بات سنیں گے اور ان کو مایوس نہیں کریں گے۔