جانوروں کے تحفظ کیلیے پنجاب میں ’پولیس اینیمل‘ ریسکیو سینٹر قائم
پنجاب وائلڈلائف اور ادارہ برائے انسداد بے رحمی حیوانات کے بعد اب پنجاب پولیس نے بھی کام شروع کردیا ہے
پنجاب میں محکمہ وائلڈ لائف نے جنگلی حیات کے تحفظ کیلیے پولیس کے ساتھ مشترکہ اقدامات شروع کردیے ہیں جبکہ جانوروں کیلیے ریسکیو سینٹر کھولا گیا ہے۔
پنجاب میں پالتو، آوارہ اورجنگلی جانوروں پرتشدد اور انسداد بے رحمی کے لیے پنجاب وائلڈلائف اور ادارہ برائے انسداد بے رحمی حیوانات کے بعد اب پنجاب پولیس نے بھی کام شروع کردیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری محکموں کی کوآرڈنیشن کو مزید بہتربنا کر زیادہ موثر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
پنجاب پولیس گزشتہ چند ہفتوں سے جانوروں پرتشدد اوران کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کرنے والوں کیخلاف کارروائیوں میں مصروف ہے، ان کارروائیوں کے دوران جنگلی جانوروں اورپرندوں سے جڑے مقدمات میں پنجاب وائلڈلائف ایکٹ کے تحت کارروائی کی جارہی ہے اور پنجاب وائلڈ لائف کے متعلقہ افسرکے ساتھ کوآرڈنیشن کی جاتی ہے لیکن پالتو اور آوارہ جانوروں کے پرتشدد اور بے رحمی کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کے لئے ادارہ برائے انسداد بے رحمی حیوانات ( ایس پی سی اے) سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔
ادارہ براے انسداد بے رحمی حیوانات کے اعزازی سیکرٹری پروفیسرڈاکٹر مسعود ربانی کا کہنا ہے جانوروں پرتشدد کی روک تھام کے لئے جتنے بھی ادارے اوراین جی اوز کام کررہی ہیں وہ سب قابل ستائش ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پالتو اور آوارہ جانوروں پرتشدد اوران کے ساتھ بے رحمی کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کے لئے سوسائٹی فاردی پروینشن آف کرویلٹی ٹو اینیمل(ایس پی سی اے) موجود ہے۔
انسدادبے رحمی حیوانات ایکٹ 1890 کے تحت جانوروں پرتشدد کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کا اختیار ایس پی سی اے کے انسپکٹر کے پاس ہے۔ ان کے پاس پنجاب میں صرف 8 انسپکٹر ہیں۔ا سکے باوجود ایس پی سی اے نمایاں کارکردگی دکھائی ہے۔
کارکردگی کے اعداد و شمار
ایس پی سی اے کے اعداد وشمار کے مطابق جانوروں پرتشدد اوران کوبھوکا پیاسا رکھنے والوں کے خلاف سال 2021-22 کے دوران پنجاب کے 17 اضلاع میں 3037 چالان کرکے ملزمان کو ایک لاکھ 78 ہزار 750 روپے جرمانہ کیا گیا جبکہ سال 2022 سے ستمبر 2023 تک 4 ہزار495 ملزمان کے خلاف چالان کرکے دولاکھ 67 ہزار 300 روپے جرمانہ کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق جنوری 2022 سے ستمبر 2023 تک 1084 زخمی جانوروں کو ریسکیو کیا گیا، 30463 جانوروں کی ویکسی نیشن کی گئی جبکہ 27757 جانوروں کا علاج کیا گیا۔
پنجاب وائلڈلائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر لاہور ریجن تنویر احمد جنجوعہ نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ پولیس جو کارروائی کرتی ہے یا انہوں نے ابتک جو ایف آئی آر درج کی ہیں ان میں جانوروں پرتشدد، بے رحمی اور وائلڈلائف ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ایسے مقدمات کا فیصلہ پھر عدالت نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ ملزم کو جرمانہ کرے، قید کی سزا سنائے یا پھردونوں سزائیں دی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب وائلڈلائف خود جوکارروائی کرتا ہے اس میں ملزمان کاچالان کرکے ان سےمحکمانہ معاوضہ لیا جاتا ہے اور اگرملزم جرمانہ ادا نہ کرے تو کیس عدالت میں بھیج دیا جاتاہے۔
ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (ایڈمن وسیکیورٹی) پنجاب پولیس عمارہ اطہر کہتی ہیں جنگلی جانوروں سے متعلق مقدمات کے پنجاب وائلڈلائف کی ٹیم پولیس اینیمل ریسکیو سنٹر (پارک) کے ساتھ جاتی ہے اور باہمی تعاون سے اپنا قانونی کام کرتی ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کو عملے کی کمی اور عوام سے کم رابطے کی وجہ سے مسائل کا سامنا تھا اس لیے پارک ان کی سہولت میں بھی بڑا کردار ادا کر رہا ہے اور اب تک بہت سے جنگلی جانوروں کو بچایا جا چکا ہے۔
عمارہ اطہر نے کہا جہاں تک دوسرے جانوروں کا تعلق ہے تو پارک اور پنجاب پولیس کو جانوروں پر ظلم کے خلاف کارروائی کا قانونی اختیار حاصل ہے۔
جانوروں کے حقوق اورویلفیئر کے لئے عدالتوں میں قانونی جدوجہد کرنیوالی خاتون عزت فاطمہ ایڈووکیٹ نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا پولیس اینیمل ریسکیوسینٹر کا قیام قابل ستائش ہے، پولیس بہت احسن کام کررہی ہے لیکن یہ سب کچھ ابھی پولیس سربراہ کی خواہش پر ہورہا ہے۔ اس اقدام کو قانونی اورآئینی درجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اگرکسی ملزم نے پولیس کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کردیا تو پولیس کے لئے مسلہ بن جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کا باقاعدہ گزٹ نوٹی فکیشن جاری ہونا چاہئے تاکہ یہ کام مستقل چلتا رہے۔ اس کے علاوہ پولیس کو ہدایات دی جائیں کہ وہ جہاں بھی جانوروں اورپرندوں کے ساتھ براسلوک ہوتا دیکھیں کارروائی کریں۔ ڈولفن پولیس صدقے کے نام پر پرندے بیچنے والوں کو بھی پکڑے۔
عزت فاطمہ نے کہا کہ پولیس، وائلڈلائف اور لائیوسٹاک کو پولیس کے ساتھ باہمی تعاون مزید بہتربنانے کی ضرورت ہے۔