کیا انسان ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے
اس من پسند تصوّر کو عملی صورت دینے میں ایک قدرتی قانون جدید طبی سائنس کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گیا
لڑکپن میں اے حمید صاحب کا لکھا ایک قسط وار سلسلہ ، عنبر ناگ ماریا میں شوق سے پڑھتا تھا۔اس کہانی کا ہیرو، عنبر ایک خوبصورت نوجوان ہے۔
اس کی خاصیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی بیماری، آفت، حادثے یا حملے کی صورت میں نہیں مرتا۔ گویا اسے حیات ِابدی حاصل ہو چکی۔ ایسا کردار مگر دیومالائی کہانیوں ہی میں ملتا ہے، حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ البتہ اب دنیائے مغرب میں سائنس وٹیکنالوجی کی زبردست ترقی کے بعد خصوصاً کھرب پتی اپنی دولت کے بل بوتے پہ کوشش کررہے ہیں کہ وہ کسی طرح ہمیشہ کی زندگی پا لیں، نوجوانی کے عالم میں سدا زندہ رہیں۔
کوئی چاہتا ہے کہ ایسا روبوٹ یا مشین بن جائے جس میں اس کا دماغ فٹ ہو سکے۔ یوں اپنا جسم کھونے کے بعد بھی وہ مشینی بدن میں اپنے دماغ کے ذریعے زندہ رہے گا۔ کوئی خاص غذاؤں اور ادویہ کی مدد سے اپنی زندگی کو دوام بخشنا چاہتا ہے۔ مثلاً امریکی کھرب پتی، برائن جانسن کو لیجیے۔ اس نے 30 ڈاکٹروں کی ٹیم بھرتی کر رکھی ہے جو ہر پل اس کے جسمانی افعال پہ نظر رکھتی ہے۔ وہ دن میں 100سے زائد وٹامن لیتا ہے۔ ہر غذا کا خالص پن پرکھا جاتا ہے۔ درحقیقت اس پینتالیس سالہ امریکی نے سدا نوجوان رہنا اپنی زندگی کا مشن بنا لیا ہے۔ اور وہ روزانہ کئی کروڑ روپے اس مشن پہ خرچ کرتا ہے۔
دو بنیادی نظریات
طبی سائنس دانوں کا مگر کہنا ہے کہ انسان شاید کبھی ہمیشہ کی زندگی نہیں پا سکتا کیونکہ قدرت میں یہ اصول موجود ہے کہ ہر شے کو فنا ہو جانا ہے چاہے وہ دیکھنے میں بہت بڑی بلکہ لامحدود ہی ہو۔ سائنسی اصطلاح میں یہ قدرتی اصول ''حرحرکیات (Thermodynamics) کا دوسرا قانون'' کہلاتا ہے۔
انسان سمیت ہر جاندار بوڑھا ہو کر کیوں مر جاتا ہے؟ ماہرین نے اس سوال کے جواب میں دو بنیادی نظریات وضع کیے ہیں۔ ارتقائی نقطہ نظر پہلا ہے اور وہ یہ کہ انسان، حیوان اور درخت کو بوڑھا ہو کر مرنا پڑتا ہے تاکہ نئی نسل جنم لے سکے۔ گویا ایسا وقت آ جانا کہ ہمارا جسم اپنی مرمت نہ کر سکے ... یہ کوئی نقص یا خرابی نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل ہے۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ہمارا جسم ایٹم کی سطح پہ شکست و ریخت سے گذرتا ہے۔ انتہائی معمولی سطح کی یہ جسمانی ٹوٹ پھوٹ رفتہ رفتہ جاندار کے جسم کو اتنا ناکارہ کر دیتی ہے کہ وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتا اور مر جاتا ہے۔ اسی قدرتی عمل کو حرحرکیات کا دوسرا قانون بیان کرتا ہے۔ ماہرین کی اکثریت کا اب خیال ہے کہ اسی جسمانی شکست و ریخت کے باعث ہی انسان بوڑھا ہوتا اور آخرکار چل بستا ہے۔ گویا طبیعاتی قانون کی وجہ سے انسان شاید ہمیشہ زندہ رہنے کی اپنی آرزو کبھی پورا نہیں کر سکے۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی محیرالعقول ترقی کے بعد وہ ایسا روبوٹ ایجاد کر لے جس میں انسانی دماغ کو زندہ یعنی کام کاج کے قابل رکھا جا سکے۔ تب تکنیکی لحاظ سے انسان زندہ رہے گا، گو وہ اپنے جسمانی ڈھانچے سے محروم ہو جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انسان روبوٹ کی ساخت اور ظاہری وضع قطع انسانوں جیسی بنا لے۔ مسقبل نے بنی نوع انسان کے لیے کیا چھپا رکھا ہے، کوئی نہیں جانتا۔
ہر خلیہ ایک شہر
انسان کی جسمانی ٹوٹ پھوٹ کیسے انجام پاتی ہے؟ اس ضمن میں پچھلے پانچ چھ سال کے دوران تحقیق و تجربات سے چشم کشا حقائق منظرعام پر آ چکے۔ سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ ایک بالغ انسان ''73 ٹریلین '' خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے یعنی یہ سینتیس ہزار ارب خلیے بنتے ہیں۔ ان خلیوں کی 200 سے زائد اقسام ہیں۔ یہ سبھی اپنا مخصوص کام کرتے ہیں۔ مثلاً ایک قسم جلد بناتی ہے۔ دوسری قسم پروٹین کو پروسیس کرتی ہے، وغیرہ۔ بیشتر اقسام کے خلیے تقسیم ہو کر نئے خلیے پیدا کرتے ہیں۔ پرانے خلیے رفتہ رفتہ مر جاتے ہیں۔
ہر خلیہ درحقیقت چھوٹے سے شہر کے مانند ہے۔ اس شہر میں لائبریریاں، سڑکیں، بسیں، فیکٹریاں، بجلی گھر، کوڑا گھر اور ضرورت کی دیگر عمارات واقع ہیں۔ اس شہر کے مکین پروٹینی سالمے( مالیکیول) ہیں جو غذا سے توانائی بناتے، غذائی کوڑا باہر نکالتے اور خلیے کے ڈی این اے کی مرمت کرتے ہیں۔ ہمارا جسم ''60 فیصد''پانی ہے۔ چناں چہ ہر خلیے کے چاروں طرف پانی ہوتا ہے۔ ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ہمارے بدن میں پانی کے سالمے ''فی سیکنڈ ٹریلین بار'' خلیوں سے ٹکراتے ہیں۔ ماہرین طبعیات نے اس حیرت انگیز ٹکراؤ کو ''حراری حرکت'' (thermal motion) کا نام دے رکھا ہے۔ مگر حیاتیات دان اس عمل کو ''متشدد حرکی فساد'' (Violent thermal chaos) کہتے ہیں۔
متشدد حرکی فساد
وجہ یہ ہے : عقل یہ کہتی ہے کہ ٹکراؤ کی ایسی شدید صورت حال میں خلیے کے پروٹینی سالمات کو کام نہیں کرنا چاہیے مگر وہ اپنی ذمے داری ادا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن کیسے؟ ماہرین ابھی تک یہ حیاتیاتی گتھی نہیں سلجھا سکے۔ البتہ مذہب اس موقع پر بتاتا ہے کہ ایسا اللہ تعالی کی منشا سے ہوتا ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ پانی کے سالمات جب خلیے سے فی سیکنڈ ٹریلین بار ٹکرائیں تو اس ٹکراؤ سے قدرتاً توانائی جنم لیتی ہے۔ خلیے کی پروٹینی سالماتی مشینیں اس توانائی کو کام میں لا کر اپنی استعداد کار بڑھا لیتی ہیں۔ گویا انھوں نے بظاہر ایک منفی عمل کو اپنے لیے مثبت بنا لیا اور اس سے کام لینے لگیں۔ پروٹینی سالموں نے فساد کو امن پسند عمل میں بدل ڈالا۔
ٹکراؤ سے جنم لینے والی توانائی کو استعمال میں لے آنا مگر وقتی فائدہ ہے۔ اس ٹکراؤ سے بہرحال طویل المیعاد طور پہ پروٹینی سالموں کو مختلف طریقوں سے نقصان بھی پہنچتا ہے۔ مثلاً ان کے مابین رابطے کا بندھن کمزور ہو جاتا ہے۔ لہذا سالمے پھر پہلے کی طرح اپنا کام درست انداز میں نہیں کر پاتے۔ قدرت نے ان پروٹینی سالمات کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ خلیے اور اس کے ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت کر سکیں۔ مگر یہ مرمت ایک حد تک ہی ہو سکتی ہے۔
دراصل پانی اور خلیے کے سالموں کا ٹکراؤ ایک مسلسل عمل ہے جو نہایت تیزی سے جنم لیتا ہے۔ انتہائی معمولی سطح پہ ہونے والا یہ ٹکراؤ ہی آخر خلیے کے سالمات کمزور کر دیتا ہے۔ ان میں خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ اس خلیے کی اولاد بھی زیادہ تندرست اور طاقتور نہیں ہوتی۔ ان نئے خلیوں کی سالماتی مشینری تو جلد خراب ہو جاتی ہے۔ یوں کمزور و ناتواں خلیوں کی کثرت ایک انسان کو بھی بوڑھا کر دیتی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی ایسے طریقوں کی تلاش میں ہے جو ناکارہ خلیوں کو پھر نوجوان اور طاقتور بنا دیں مگر اس ضمن میں ماہرین کو فی الحال ٹھوس کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
ماہرین کی آرا
امریکا کے ماہر اناٹومی، لیونارڈ ہیفلک (Leonard Hayflick) ضعیف العمری کے ممتاز ترین سائنس داں سمجھے جاتے ہیں۔ انہی نے دریافت کیا کہ ایک انسانی خلیہ کتنی بار تقسیم ہو سکتا ہے، یعنی وہ کتنی بار اپنے بچے پیدا کر سکتا ہے۔ اس حد کو اب ''ہیفلک حد''(Hayflick Limit)کہا جاتا ہے۔اس حد سے گذرنے کے بعد خلیہ تقسیم ہونے کے قابل نہیں رہتا اور ضعیف (senescent) ہو جاتا ہے۔ لیونارڈ بھی سمجھتے ہیں کہ انسان خلیوں کی شکست وریخت کے باعث بوڑھا ہوتا ہے۔
لیونارڈ کہتے ہیں: ''کائنات میں ہر چیز، جاندار ہو یا بے جان، وہ آخر ٹوٹ پھوٹ کا نشانہ بن کر فنا ہو جاتی ہے۔ تین چار ارب سال بعد جب سورج ہماری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے گا، تو ہماری یہ دنیا بھی نیست ونابود ہو جائے گی۔ سوال کیا جاتا ہے کہ حرحرکیات کا دوسرا قانون بڑھاپا کیسے لاتا ہے؟ وجہ یہ کہ کائنات بھر میں پھیلے تمام ایٹم اور ان سے بنے سالمات و خلیے اسی قانون کے ماتحت ہیں۔ چناں چہ وہ آہستہ آہستہ تباہ ہو کر مٹ جاتے ہیں۔''
حرحرکیات کا دوسرا قانون ''انٹروپی'' (Entropy) کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس نظریے کی رو سے ہر شے نظم وضبط سے گذر کر بتدریج ابتری و افراتفری کا شکار ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پہ آپ نے ایک سیب لیا۔ نظریہ انٹروپی کے مطابق یہ نظم وضبط میں ہے۔ آپ پھر سیب کھانے لگے۔ وہ منہ میں جا کر ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ پھر وہاں سے معدے میں جائے گا جہاں اس کے ٹکڑے ملیدہ بن جائیں گے۔ یوں سیب آخرفنا ہو گیا۔
انسان کے جسم میں روزانہ انٹروپی کا پیچیدہ عمل خلیوں کے کھربوں سالمات کروڑوں اربوں بار انجام دیتے ہیں۔ انسان کی عمر جتنی زیادہ ہو، انٹروپی کا عمل اتنی ہی زیادہ تعداد و مقدار میں جنم لیتا ہے۔ مگر یہی عمل انسان کو بوڑھا کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کی خلویاتی مشین ہر کل پرزے کو پہنچنے والی خرابی کی مرمت نہیں کر پاتی۔ یوں خرابیاں جمع ہوتے ہوتے آخر انسان کو پہلے کمزور وناتواں کرتیں اور پھر ایک دن اس کی سانسیں بند کر دیتی ہیں۔
پیٹرہوفمین ( Peter Hoffmann) حیاتی طبیعات داں اور نینومیکنسٹ ہیں۔ کہتے ہیں: ''ہمارے بدن میں تمام کھربوں خلیے ایک دوسرے سے بڑے پیچیدہ طریقوں سے رابطہ رکھتے ہیں۔ ان کے مابین پائے جانے والے اعمال بھی نہایت پیچیدگیوں سے انجام پاتے ہیں۔ گویا انسان کا جسم طلسم ہوش ربا ہے، قدرت کی صناعی کا شاہکار جو دنگ کر دے۔ لہذا فی سیکنڈ اربوں کام کرتے ہوئے کسی خلیے کا ڈی این اے تھوڑا سا بھی خراب ہو جائے اور درست نہ ہو تو وہ مذید بگڑتا چلا جاتا ہے۔ اسی خرابی سے خلیے کینسر کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور خرابیاں پھیل جائیں تو بڑھاپا انسان کو آ دبوچتا ہے۔ اس کے بعد موت یقینی ہو جاتی ہے۔''
انسان اگر اچھی غذا کھائے، ورزش کرے، مثبت انداز فکر رکھے، معاشرتی میل جول میں مگن رہے تو وہ تادیر خود کو صحت مند رکھ سکتا ہے۔ مگر درج بالا حقائق سے عیاں ہے، اس کا جسمانی نظام چوبیس گھنٹے شکست وریخت سے گذرتا ہے ، لہٰذا ایک سو سال بعد ہی سہی، آخرکار وہ بھی چل بستا ہے۔ یہ آشکارا ہے کہ انسان نے سائنس وٹیکنالوجی کی مدد سے خلویاتی سطح پہ ٹوٹ پھوٹ کا عمل روک لیا، تبھی وہ بڑھاپے کی آمد بھی روکنے کے قابل ہو جائے گا۔ لیکن ایسی کامیابی کے آثار فی الوقت دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ شاید مستقبل میں انسان کے ہاتھ ایسا آب ِحیات لگ جائے کہ وہ اسے نوش کر کے حیات ِجاوداں پا لے۔ ابھی تو یہ خیال کسی دیوانے کا خواب ہی ہے۔