ہر درد کا درماں مولانا
ملاقات کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمان کی اقتدا میں نماز پڑھی
چند روز قبل قومی میڈیا پر ایک ایسی بریکنگ نیوز چلی جس نے لکیر کے اس طرف اور اس پار، دونوں طرف کے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
ہر کوئی دنگ رہ گیا کہ یہ انہونی کیسے ہونی بن گئی، کہ تحریک انصاف کا وفد پی ڈی ایم اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ پہنچ گیا۔
وفد میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سابق وفاقی وزیر علی محمد خان، بیرسٹر سیف اور جنید اکبر شامل تھے۔
پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمن کی خوش دامن کے انتقال پر تعزیت کے لیے گیا تھا لیکن سیاسی منظر نامے پر تھوڑی بہت نظر رکھنے والا ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ تعزیت کی روایت اور کلچر تحریک انصاف میں نہیں، اگر ہوتی تو مولانا کی جماعت سے تعلق رکھنے والے درویش وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبد الشکور کی شہادت ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ تھا جس پر اپنے پرائے سبھی اشکبار تھے۔
حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی ہر جماعت اور اس کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمن سے مفتی عبد الشکور کی شہادت پر تعزیت کی، اگر کسی نے غم کی اس گھڑی میں دلجوئی نہیں کی تو وہ تحریک انصاف ہی تھی، پھر ایک موقع باجوڑ میں جے یو آئی کے کنوینشن پر خود کش حملے کے بعد آیا جس میں 80سے زائد علماء و شیوخ اور کارکنان شہید ہوئے، سیکڑوں زخمی ہوئے۔
اس المناک سانحہ پر پورا پاکستان نمناک تھا، ہر جماعت اور ادارے نے مولانا سے اس سانحے پر تعزیت کا اظہار کیا، اور ان کے پاس دلجوئی کے لیے چل کر گئے۔ اس بار بھی اگر کوئی جماعت غیر حاضر تھی تو وہ صرف پاکستان تحریک انصاف تھی بلکہ ان کے گالم گلوچ بریگیڈ نے اس موقع پر بھی منفی پروپیگنڈہ کیا۔
پہلی بار ہم نے دیکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کسی سیاسی رہنما کے گھر تعزیت کے لیے پہنچی ہے اور وہ بھی مولانا فضل الرحمن، جسے پی ٹی آئی اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پاکستانی سیاست میں مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے، عزتوں کو پامال کرنے، کردار کشی کرنے، گالیاں دینے اور بھونڈے الزامات لگانے کا جو کلچر متعارف کرایا تھا اس کا سب سے بڑا شکار مولانا فضل الرحمن رہے۔
چیئرمین تحریک انصاف کی کوئی تقریر، کوئی انٹرویو یا کوئی میڈیا ٹاک اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی تھی جب تک مولانا فضل الرحمن کے خلاف تبرے بازی نہ کرلیتے۔ ان کی دیکھا دیکھی پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں اور پھر کارکنوں نے بھی وہی روش اختیار کی، کوئی جلسہ جلوس ہو یا کوئی میڈیا یا سوشل میڈیا کمپین، مولانا کے خلاف تبرے بازی نہ ہو، ایسا ممکن نہ تھا۔ مولانا نے خندہ پیشانی سے اپنے خلاف ہر مہم کا جرات مندانہ انداز میں سامنا کیا۔
ورنہ پاکستانی سیاست کی روایت رہی ہے کہ اگر کوئی مخالف کسی کے خلاف بدزبانی کرتا ہے اسے اس سے زیادہ بیہودہ انداز میں جواب دیا جاتا رہا ہے، لیکن مولانا نے گالیاں سن کر بھی خاموشی اختیار کی، گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا۔
مولانا کی اسٹریٹ پاور کا اندازہ ہر کسی کو ہے۔ وہ چاہتے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے تھے لیکن وہ عالم دین اور وضعدار سیاستدان ہیں وہ اس گری ہوئی سطح پر کیسے جاسکتے تھے جہاں پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنان پہنچ چکے تھے۔ مولانا نے ہمیشہ حق گوئی و بے باکی کا عملی مظاہرہ وضعداری اور تحمل کے ساتھ کیا۔ ایک ایسی جماعت جو مولانا کو دن رات گالیاں نکالتے نہیں تھکتی تھی آج ان کی قیادت مولانا کے سامنے ندامت سے سر جھکائے شرمندگی کے ساتھ حاضر تھی۔
"انصافی مبصرین" کے مطابق اس ملاقات میں سیاسی گفتگو نہیں ہوئی یہ محض تعزیت کے لیے ایک مختصر سی ملاقات تھی لیکن مولانا کے ساتھ سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی کی ملاقات کے بعد میں اس ملاقات کا منتظر تھا اور میری معلومات کے مطابق رسمی تعزیت اور فاتحہ کے بعد سیاسی امور پر ہی گفتگو ہوئی۔
جس کے دوران تحریک انصاف کے قائدین اپنے کیے پر شرمندہ اور شرمسار نظر آئے مولانا سے نظریں چرا کر بات کرتے رہے، پختون روایت کے جاننے والوں کے لیے یہ بات بالکل فطری تھی کیونکہ اسد قیصر، علی محمد خان اور بیرسٹر سیف سب وضعدار پختون معاشرے کے افراد ہیں اور ان کو اندازہ تھا کہ ان کے پارٹی لیڈر نے جس بھونڈے طریقے سے "پگڑی اچھال سیاست" کی، اس کے بعد اپنے سے بڑے سفید ریش سیاسی راہنما کا سامنا آسان نہیں۔
بہرحال گزشتہ ایک دہائی سے تحریک انصاف اور جے یو آئی کے درمیان شدید سیاسی تناؤ ہے اور اس تنائو کا بنیادی سبب چیئرمین تحریک انصاف ہی ہے، مگر سیاست مفاہمت اور مکالمے کا نام ہے اور مخالف جماعتوں کے درمیان ملاقات کا ہونا ہی سیاسی عمل ہے اور اس کے ملکی سیاست پر ضرور مثبت اثرات پڑیں گے۔
پختون روایات کے مطابق تعزیت کے لیے وقت نہیں مانگا جاتا بس بندہ چلا جاتا ہے مگر تحریک انصاف کے رہنما خائف تھے کہ کہیں مولانا انکار ہی نہ کردیں مگر وہ چیئرمین تحریک انصاف نہیں مولانا فضل الرحمن ہیں اور عزت دینا ان کی روایت ہے اس لیے پی ٹی آئی کی قیادت نے تعَزیت کے لیے مولانا سے وقت مانگا اور مولانا نے پختون روایات کے مطابق ان کو خوش آمدید کہا۔ اس ملاقات میں ملک کی سیاسی صورت حال سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، تحریک انصاف کے قائدین نے مولانا کے مثبت روئیے اور مدبرانہ سیاست پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ملاقات کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمان کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ جس کی تصاویر سوشل میڈیا اور قومی میڈیا پر خوب وائرل ہوئیں۔ یہ تصویر بتا رہی ہے ہر درد کے درماں مولانا صرف مسجد کے ہی نہیں سیاست کے بھی امام ہیں۔
اس وقت پی ٹی آئی زیر عتاب ہے، اس کے چیئرمین اور بہت سے قائدین جیلوں میں ہیں، بند گلی میں پھنسی ہوئی پی ٹی آئی نے مولانا کو اپنا سہارا سمجھ کر ان کی امامت کو قبول کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ پی ٹی آئی کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے اس میں سب سے بڑا چیلنج اس جماعت کی بقا کا ہے، نو مئی کے واقعات نے اس جماعت پر سوالیہ نشان لگا رکھا ہے۔
دوسرا بڑا چیلنج چیئرمین کا جیل میں ہونا اور ان پر کئی سنگین مقدمات ہیں۔ تیسرا بڑا چیلنج الیکشن کا نہ ہونا اور اگر ہوئے بھی تو پی ٹی آئی کے ان انتخابات میں شمولیت کا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا مقابلہ پی ٹی آئی کی بچی کچھی قیادت تنہا کبھی نہیں کرسکتی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو چور اور ڈاکو کہلوانے والے اور ہاتھ ملانے سے انکاری چیئرمین تحریک انصاف نے کسی سیاسی پارٹی کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ ان سے اس مشکل وقت میں ہاتھ ملائے۔
اپنے مخالفین کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ناقابل فراموش اور ناقابل معافی ہے۔ لیکن مولانا فضل الرحمن نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی بار کہا کہ میرا مخالف جیل میں ہو اور میں اس کے خلاف جلسے کروں مزہ نہیں آتا، پھر انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ سب جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے۔ یہ وہ باتیں ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی آئی قیادت کو مولانا کی چوکھٹ تک آنے کا حوصلہ دیا۔
سنا ہے کہ یہ ملاقات چیئرمین تحریک انصاف کے مشورے سے ہوئی ہے اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اڈیالہ جیل سے نوشتہ دیوار پڑھ لیا گیا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ پی ٹی آئی قائدین کی مولانا سے ملاقاتوں کا سلسلہ آگے بڑھے اور سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے۔
مگر جو دوری دوسری سیاسی جماعتوں خاص کر جمعیت علمائے اسلام پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے درمیان پیدا ہوچکی ہے یہ فاصلے ختم کرنا ناممکن نظر آتا ہے مگر اگر پی ٹی آئی قائدین کھلے دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیں اور اپنے جارحانہ رویے پر قوم سے معافی مانگ لیں تو ہوسکتا کہ بات بن جائے۔
انتخابات کے حصول اور اپنی بقا کی خاطر تحریک انصاف کو صرف مولانا نہیں "چوروں اور ڈکیتوں" کا بھی حلیف بن کر ایک ہی ٹرک پر کھڑا ہونا پڑے گا، یا اپنی سیاست کا جنازہ پڑھ کر تبلیغ پر جانا پڑے گا۔