رائے ونڈ کا تبلیغی اجتماع…
آج جس تبلیغی جماعت کی سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ ہیں
زبان پر ذکر الٰہی، آنکھوں میں شب بیداری کے آثار، پیشانیوں پر سجدوں کے نشان، کاندھوں پر بستر، ایک ہاتھ میں ضروری سامان اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح لیے بے شمار قافلے اپنے مخصوص انداز اور ترتیب سے آج پوری دنیا میں ملک ملک شہر شہر، نگرنگر اور قریہ قریہ اپنے قدموں کو دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے اللہ کے راستہ میں بڑی دلسوزی کے ساتھ گرد آلود کرتے ہوئے امت کے ایک ایک فرد کے دروازے پردستک دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔
ان قافلوں کو عرف عام میں ''تبلیغی جماعت'' کہا جاتا ہے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت اور لمحہ نہیں گزرتا جس میں تبلیغی جماعت کی نقل وحرکت پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں جا ری نہ ہو۔
اس سال رائے ونڈ میں عالمی تبلیغی اجتماع کا پہلاتین روزہ سیشن ،2،3، 4، نومبرکو منعقد ہوا جب کہ آج 5 نومبربروزاتوار اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا جب کہ تبلیغی اجتماع کا دوسرا تین روزہ سیشن ،9سے11 نومبر کو منعقد ہوگا اور 12 نومبر بروز اتوار اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔
آج جس تبلیغی جماعت کی سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ ہیں جن کے مجاہدوں، ریاضتوں اور روحانیت واخلاص سے اس جماعت کی ابتداء ہوئی۔ بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کا گھرانہ ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت و محبوبیت سے خوب نوازا تھا۔ اس خاندان کی بنیاد کچھ ایسے صدق و اخلاص پر پڑی تھی کہ صدیوں تک یکے بعد دیگرے نسل درنسل اس خاندان میں علماء وفضلاء، اہل کمال، مقبولین اور اللہ والے لوگ پیدا ہوتے رہے۔
آپؒ کے والد مولانا محمد اسماعیلؒ ولی کامل اور والدہ محترمہ بھی ''رابعہ سیرت'' خاتون تھیں جنہو ں نے آپؒ کی پرورش و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی، چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم احسن طریقہ سے امتیازی شان اور نمایاں اندازمیں مکمل کر لی تھی، نیکی و تقوی کی صفات بچپن میں ہی آپؒ کے اندر نمایاں اور خاندان میں آپؒ کی شہرت ولی کامل کی تھی۔
آپؒ نے جہاں ایک طرف اسیر مالٹا شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ اور دیگر نامور علماء کرام سے علم دین حاصل کیا وہاں دوسری طرف آپ ؒ نے اپنے وقت کے قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں۔
ایک مرتبہ آپؒ نے اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سے عرض کیا کہ حضرت ذکر کرتے ہوئے میرے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے حضرت گنگوہیؒ یہ سن کر متفکر ہوئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے اپنے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒسے اس قسم کی شکایت کی تھی توحاجی امداد اللہ صاحبؒ نے جواب فرمایا کہ''اللہ تعالیٰ آپؒ سے کام لیں گے''۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ''بحرظلمات'' میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دکھائی دینے لگے۔
آپؒ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دین داری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی پھر اس کا دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ''اخص الخواص'' میں یہ دینداری باقی رہ گئی ہے پہلے جو خاندان اور قصبات و علاقے اور شہر ''رشد و ہدایت'' کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اس قدر تیزی کے ساتھ انحطاط و زوال ہوا کہ اب ان کی ''مرکزیت'' ختم ہوتی جارہی ہے جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نور ہیں۔
دوسری بات انھوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپؒ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میں پھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہواور وہ اس کا طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں اس لیے مولانا الیاس کاندھلویؒ ضروری سمجھتے تھے کہ اس ''دعوت و تبلیغ'' کے ذریعہ ایک ایک دروازہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ''احیاء' کی طلب پیدا کی جائے ۔