پاکستان کاآلودہ ترین شہر… لاہور
پاکستان کی فضا سے آلودگی کو ختم کرنے کا معاملہ بھی باقی امور کے مقابلے میں ترجیحی طور پر سب سے نیچے ہے
آلودگی اور خنک موسم کی وجہ سے ان دنوں لاہور شہر اور نواحی علاقے اسموگ کی زد میں ہیں۔ شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔آبادی کی اکثریت سانس اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا ہے۔
یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ لاہور جو کبھی خوشگوار آب و ہوا اور باغوں کا شہر کہلاتا تھا، اب صحت عامہ کے اعتبار سے دنیا کا بد ترین شہر بن گیا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ اوکے آلودگی انڈیکس میں لاہور حالیہ برسوں میں 40 سے زائد بار دنیا کا مضر صحت شہر شمار کیا جا چکا ہے۔ لاہور کے مختلف حصوں میں ہفتے کے دن آلودگی کے انڈیکس کا تناسب 303 سے لے کر 620 تک پہنچ چکا ہے، آلودگی انڈیکس AQI اگر 50 سے زیادہ ہونے لگے تو ہیلتھ الرٹ جاری ہوجاتا ہے۔ 150 کے بعد ریڈ الرٹ جاری کیاجاتا ہے۔
یہ انڈیکس جب 200 سے تجاوز کر جاتا ہے تو اسے صحت کے لیے انتہائی مضر صحت قرار دیا جاتا ہے اور جب یہ انڈیکس 300 تک پہنچ جائے سے انسانی زندگی کے لیے رہائش کے قابل تصور نہیں کیا جاتا۔
دنیا بھر میں آلودہ ترین شہروں پر تحقیق کرنیوالے ادارے اسمارٹ ایئر انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں آلودہ ترین شہروں اس وقت بھارت کا دارالحکومت دہلی ہے جہاں ہفتے کے دن آلودگی کا انڈیکس 726 ہے جب کہ پاکستان کا شہر لاہور اور فیصل آباد دوسرے نمبر پر ہے جہاں آلودگی کا تناسب 300 تین سے لے کر 620 تک ہے۔ایئر پالوشن انڈیکس کے مطابق صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پشاور میں آلودگی کا تناسب 175 ہے جب کہ راولپنڈی میں 123 اسلام آباد اور کراچی میں 112 ہے۔
آلودگی کی سب سے خطرناک قسم اسموک ہے۔ اس وقت لاہور اور پنجاب کے اکثر شہروں میں اسموک کا دور دورہ ہے۔ اسموک انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ پنجاب خصوصاً لاہور میں اسموک کا سیزن گزشتہ کئی سال سے اکتوبر کے آخر سے شروع ہو کر 15 دسمبر تک رہتا ہے۔ 15 دسمبر سے لے کر فروری کے وسط تک دھند کا موسم ہے۔
دھند میں حد نظر بہت زیادہ کم ہو جاتی ہے لیکن انسانی صحت کو اسموک کی نسبت دھند کم نقصان پہنچاتی ہے اس طرح پنجاب اور اس کے اکثر شہروں میں لوگوں کی زندگی کو مشکلات کے علاوہ پھیپھڑوں ناک کان گلے اور انکھوں کی بیماریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور اموات کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ان اعداد و شمار سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لاہور شہر اور پنجاب میں رہنے والے افراد کی صحت کو کس حد تک خطرات لاحق ہیں۔
اسموگ اور فوگ کی وجہ سے صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب کے کئی دوسرے شہر بھی شدید آلودگی کا شکار ہیں۔ دنیا بھر کے پچاس آلودہ ترین شہروں میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے پانچ شہر سرفہرست تھے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کو بھی آلودگی کے اعتبار سے مضر صحت شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں آلودگی سے اموات کا ریکارڈ کرنیوالے ادارے گلوبل الائنس برائے صحت و آلودگی(GAHP)کے مطابق سن 2019 میں ایک لاکھ 28 ہزار سے زائد پاکستانی شہری اسموگ اور فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے ۔ اس ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے آلودگی کو کم کرنے کے اقدامات کے بجائے اس صورتحال کا ذمے دار بھارت کو قرار دے کر اپنی قومی ذمے داری سے انحراف کیا ہے۔پاکستان آلودگی کی وجہ بھارت میں جلائے جانے والی فصلوں کی باقیات کو قرار دے رہا ہے۔
ممکن ہے کہ پاکستان میں اسموگ کی بنیادی وجہ بھارتی پنجاب میں جلائی جانے والی فصلیں ہوں لیکن پاکستان میں بھی آلودگی پھیلانے کے بہت سے عوامل ہیں۔ان عوامل میں بے دریغ درختوں کی کٹائی، بیک وقت کئی کئی تعمیراتی منصوبوں کو شروع کر دینا، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی بہتات، بھٹوں سے اٹھنے والا دھواں، کوڑا کرکٹ کو آگ لگانا اور فصلوں کی باقیات کو آگ لگانا شامل ہیں۔ لاہور میں اسموگ کی زیادتی کی وجہ یہی عوامل ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق لاہور میں اسموک اور آلودگی کی بڑی وجہ درختوں کی کٹائی اور سبز علاقوں میں بے ہنگم تعمیرات ہیں۔اس کے علاوہ گاڑیوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والا زہر آلود دھواں بھی آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔کوئلے کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور لاہور شہر کے گرد فصلوں کی باقیات کو جلانے سے بھی فضا آلودہ ہو رہی ہے۔
پاکستان میں آلودگی کے انڈیکس سے متعلق آگاہی پہلے نہ ہونے کے برابر تھی لیکن جب سے میڈیا نے اس حوالے سے خبریں دینا شروع کی اور لوگوں کا رویہ سنجیدہ ہوا تو حکومت نے 2019 میں اس صورتحال کا جائزہ لینا شروع کیا لیکن حقیقت احوال یہ ہے کہ اس وقت بھی اکثر شہروں میں آلودگی کو روکنے کے لیے قابل عمل اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں حکومتی ادارے نشستند گفتن اور برخاستن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے بیانیہ تو جاری کر رہے ہیں لیکن عملًا اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جس طرح پاکستانی عوام کو صحت کی سہولتیں دینے کی ترجیح سب سے نیچے ہے اسی طرح پاکستان کی فضا سے آلودگی کو ختم کرنے کا معاملہ بھی باقی امور کے مقابلے میں ترجیحی طور پر سب سے نیچے ہے۔اس تمام پس نظر میں لاہور شہر اور صوبہ پنجاب کے اکثر شہروں کے رہائشیوں کو اسموگ کی آفت سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے گزشتہ سال وزیراعظم کی زیرصدارت ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی ہوا جس میں پندرہ نکاتی ایکشن پلان کی منظوری دی گئی ہے۔ان سفارشات پر عمل درآمد کے اثرات ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ ایکشن پلان صرف فائلوں میں ہی رہے گا یا اس پر عمل درآمد بھی ہوگا۔
عام آدمی کی صحت کو اسموگ کے ناقابل تلافی نقصان سے بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ ''این جی اوز'' میڈیا اور ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ہماری حکومتی شخصیات اور افسر شاہی کو کوئی تعمیراتی منصوبہ شروع کرنے سے پہلے اس کے ماحولیات پر اثرات کے حوالے سے بھی تحقیقات کرنی چاہئیں۔