فلسطین کے تین بے مثال کردار پہلا حصہ
امن کے لیے یاسر عرفات نے جو غیر معمولی فیصلے کیے، امن کا نوبل انعام اس کی ایک واضح مثال ہے
یاسر عرفات دنیا کے ان خوش نصیبوں میں ہیں جو اپنے جانے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ تاریخ جن کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور متعصب ترین مورخ بھی ان کا ذکر کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔یاسر عرفات کا ہمیشہ یہ کہنا تھا کہ ان کی پیدائش یروشلم میں ہوئی تھی، وہ یروشلم کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ امیر اور دولت مند طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بالخصوص نوجوان اپنے طبقاتی مفادات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں اور ان کے دلوں میں وطن کا درد کم ہوتا ہے، اس بات کا اطلاق یاسر عرفات پر نہیں ہوتا ۔انھوں نے ایک دولت مند گھرانے میںآنکھ کھولی۔
دنیا کی کون سی نعمت انھیں میسر نہیں تھی لیکن جب انھوں نے ہوش سنبھالا تو اپنے وطن اور عوام کی غلامی نے دل میں ایسا اضطراب پیدا کیا کہ انھوں نے آرام و آسائش کو ترک کرکے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جس کی منزل بہت دور تھی اور جہاں تک پہنچنے کے لیے آگ کے ایک نہیں کئی دریاڈوب کر عبور کرنے تھے۔
والد کی خواہش تھی کہ بیٹا ایک بڑا کاروباری انسان بنے ۔بیٹے کے دل میں وطن کی آزادی کاسودا سمایا تھا ۔ ذہن میں بچپن کی تلخ یادیںبھی تھیں جب برطانوی فوجیوں نے اس کے گھر پر آدھی رات کو دھاوا بولا تھا۔ انھوں نے اس کے گھر والوں کو زدو کوب کیا تھا اور گھر کا سارا فرنیچر تباہ کردیا تھا۔
اسرائیل کی ریاست 1948 میں وجود میں آئی۔ فلسطین کے عوام نے مزاحمت کا آغاز کیا۔ یاسر عرفات نے مزاحمت کاروں کو اسلحہ پہنچانا شروع کیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 19سال تھی۔ یاسر عرفات ان دنوں قاہرہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ انھوں نے تعلیم کے ساتھ انقلابی جدوجہد کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک بہترین معاشی مستقبل ان کا منتظر تھا ۔یاسر عرفات نے کچھ دنوں کویت میں کام بھی کیا لیکن بالاخر ایک لمحہ ایسا آیا جب انھوں نے سب کچھ چھوڑ کر اپنی زندگی فلسطین کی آزادی کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یاسر عرفات نے اس کے بعد کبھی واپس پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ نتائج سے بے پروا ہوکر آگے بڑھتے رہے اور دنیا میں تحریک آزادی کی ایک علامت بن گئے۔
انھوں نے فکری محاذ پر بھی کام کیا اور ''ہمارا فلسطین '' کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ انھوں نے یہ نعرہ دیا کہ اگر کسی قوم سے اس کا وطن اور آزادی چھین لی جائے تو اسے ہتھیار اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک آزادی کی جدوجہد مختلف ملکوں میں تیز ہورہی تھی۔ یاسر عرفات عالمی سطح پر تحریک آزادی کے ایک بڑے رہنما اور ہیرو بن کر ابھرے۔
یاسر عرفات نے کویت میں ''فتح'' نامی تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ 1965 ء میں وہ فلسطین واپس آگئے اور پی ایل او کی قیادت کرتے ہوئے وطن کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا۔ انھیں 1969 میں پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ وہ موت تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے پی ایل او کو فلسطینی عوام کی مقبول ترین تنظیم بنادیا۔ انھیں اپنی زندگی میں بڑے مشکل امتحانوں سے گزرنا پڑا۔
اردن میں ''سیاہ ستمبر'' کا الم ناک واقعہ پیش آیا جس میں ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں گئیں۔ لبنان پر اسرائیلی حملہ ہوا۔ یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینیوں نے اسرائیل کی زبردست مزاحمت کی۔ اسرائیل نے 1978ء میں لبنان کے بعض حصوں پر قبضہ کرلیا، لیکن جب مزاحمت میںکمی نہیں آئی تو اس نے 1982ء میںپورے لبنان پر قبضہ کرلیا۔ اس بڑے حملے کا ایک مقصد یاسر عرفات اور مزاحمت کرنے والے فلسطینی نوجوانوں کو لبنان سے باہر نکالنا بھی تھا۔
جب اسرائیل نے بیروت کا محاصرہ کیا اور اس محاصرے کو ختم کرنے کی شرط یہ رکھی کہ یاسر عرفات لبنان سے نکل جائیں تو انھوں نے لبنان کو ایک بڑی خون ریزی سے بچانے کے لیے وہاں سے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر یاسر عرفات نے ایک بہترین مدبر ہونے کا ثبوت پیش کیا۔ جس کے نتیجے میں ایک سمجھوتہ عمل میں آیا۔ اس سمجھوتے کی رو سے پی ایل او کے حامیوں کو لبنان سے نکال کر مختلف عرب ملکوں میں بھیج دیا گیا اور معاہدے میں امریکا سے لبنان میں مقیم فلسطینیوں کی سلامتی کی ضمانت لی گئی۔
امریکا اور اسرائیل نے اس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کی۔ پی ایل او کے لبنان سے نکل جانے کے بعد صابرہ اور شتیلا کا سانحہ پیش آیا جس میں کم سے کم دو ہزار فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کیا گیا۔ لبنان سے نکلنے کے بعد یاسر عرفات نے تیونس میں اپنا ہیڈکواٹر بنایا اور وہاں سے فلسطین کی تحریک آزادی کی قیادت جاری رکھی۔
یہ یاسر عرفات کی طویل جدوجہدکا نتیجہ ہے کہ آزاد فلسطین کے منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ یاسر عرفات کی زندگی کا واحد مقصد اور خواب اپنے وطن کی آزادی تھا۔ اس عظیم اور جائز مقصد کے لیے انھوں نے زندگی کا ہر لمحہ وقف کردیا۔ مجھے یاسر عرفات کی وہ تاریخی تقریر یاد آتی ہے جو انھوں نے 1974ء میں اقوام متحدہ میںکی تھی۔ ان کے ایک ہاتھ میں زیتون کی شاخ تھی اور دوسرے ہاتھ میں بندوق تھی۔
اس موقع پر انھوں نے یہ مشہور جملہ کہا تھا ''میرے ہاتھوں سے زیتون کی شاخ نہ گرنے دیجیے۔'' ذرا اس جملے میں چھپے ہوئے کرب کو محسوس کیجیے۔ عالمی طاقتوں نے اس وقت اگر یا سر عرفات کا ساتھ دیا ہوتا توآج صورتحال کتنی مختلف ہوتی۔ امریکا جس نے یاسر عرفات کی تذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنوایا اور جس کی نظر میں وہ موت سے پہلے بھی ایک دہشت گرد تھے، اس وقت اگر یاسر عرفات کے ہاتھوں میں موجود زیتوں کی شاخ کو گرنے نہ دیاہوتا تو فلسطین کا مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا۔ یاسر عرفات نے آزادی کی جدوجہد کے ساتھ امن ، مذاکرات اور مفاہمت کے دروازے بھی ہمیشہ کھلے رکھے۔
انھوں نے 1988میںایک بڑا قدم آگے بڑھایا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے پھر اس موقف کو دہرایا کہ وہ فلسطین کے تنازعہ کا پر امن حل چاہتے ہیں۔ یاسر عرفات نے پہلی مرتبہ یہ اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں ، یاسر عرفات کے لیے اس سے آگے جانا ممکن نہیں تھا ، انھوں نے اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کی۔
بہت سے فلسطینی گروپ ان سے سخت ناراض ہوگئے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ بات کہہ کر یاسر عرفات نے فلسطین کے کاز اور تحریک کے ساتھ غداری کی ہے۔ اس موقع پر امریکا اور عالمی طاقتوں نے ایک بار پھر یاسر عرفات کو اکیلا چھوڑدیا۔ حکمت عملی یہ تھی کہ یاسر عرفات جیسے معتدل رہنما کی ساکھ اس کے عوام میںخراب کردی جائے تاکہ فلسطینی عوام پر ایک من مانا فیصلہ مسلط کرنے میں زیادہ مشکل نہ ہو۔
یاسر عرفات کو یہ اندازہ تھا کہ فلسطینی عوام میں ان کی عزت اور ساکھ کو ختم کرنے کے سوچے سمجھے منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے۔ جوابی حکمت عملی کے طور پر انھوں نے مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ دنیا یہ دیکھ اور جان سکے کہ کون فلسطین کے تنازعے کو حل کرنا چاہتا ہے اور وہ کون سے ملک ہیں جو اس تنازعے کویا حل نہیں کرانا چاہتے یا اس کا غیر منصفانہ تصفیہ چاہتے ہیں۔
1991ء میں میڈرڈ مذاکرات کا آغاز ہوا۔ اس کے ساتھ ناروے کے شہر اوسلو میں بھی مذاکرات کا عمل جاری رہا۔ 1993ء میں اوسلو معاہدہ ہوا جس میں اسرائیل نے فلسطین کو علاقائی خود مختاری دینے اور غزہ اور مغربی کنارے کا کنٹرول فلسطینیوں کو منتقل کرنے پر اتفاق کیا ۔ ان مذاکرات کے بعد جو معاہدے ہوئے ان کے تحت فلسطینی اتھارٹی قائم ہوئی اور یاسر عرفات اس کے صدر منتخب ہوئے۔
امن کے لیے یاسر عرفات نے جو غیر معمولی فیصلے کیے، امن کا نوبل انعام اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اب یاسر عرفات مسجد اقصیٰ سے لائی گئی مٹی میں امانتاً دفن ہیں۔ ان کے جنازے میں 60ملکوں کے سربراہوں اور ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں نے شرکت کی۔ منوںمٹی کے تلے یاسر عرفات سوچ رہے ہوں گے کہ عالمی رہنمائوں نے اگر زندگی میں بھی ان کی اتنی ہی پذیرائی کی ہوتی تو وہ آزاد فلسطین کی حسرت لیے اس دنیا سے رخصت نہ ہوتے اور آج غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کا قتل عام نہ ہورہا ہوتا۔ (جاری ہے)