بچوں میں خود اعتمادی کی کمی ان کی شخصیت کو مسخ کر سکتی ہے

والدین کی عدم توجہی اور منفی رویے بچے کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں


تحریم قاضی November 05, 2023
والدین کی عدم توجہی اور منفی رویے بچے کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

کہا جاتا ہے بچہ ایک مکمل انسان ہوتا ہے۔اس کے اندر بھی جذبات احساسات بلکل اسی طرح ہوتے ہیں جیسے کسی بالغ شخص میں۔کچھ بچوںمیں خوداعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔جس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچے کی شخصیت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔

وہ عام بچوں کی طرح زندگی کے وہ مدارج طے نہیںکر پاتا جو کہ اسے ایک مکمل اور بااعتماد فردکی حیثیت سے معاشرے کا فعال حصہ بناتے ہیں۔ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کے بچوں میں خوداعتمادی کی کمی جیسے مسائل کے پیچھے کیا وجوہات ہیں اور ان کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔

خوداعتمادی کیا ہے؟

خوداعتمادی ایسے احساس کا نام ہے جس کی بناپر کوئی اپنے افعال پر بھروسہ کرتا ہے۔ اس کے حقیقی معنوںکو دیکھا جائے تو اگر کوئی بھی شخص اپنے احساسات کے حوالے سے اور اپنی صلاحیتوں کے حوالے حقیقی طور سے باخبر اور مطمئن ہے تو وہ بااعتماد ہے۔یا آسان الفاط میں کہا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ سے کتنامطمئن ہے یہ خوداعتمادی ہے۔

یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خوداعتمادی کا مطلب غرور یا خود کو دوسروں سے برتر سمجھنا نہیں ۔بلکہ اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کا ادارک ہونا ہے جو انسان کو پراعتماد بناتا ہے۔یہ چیز انسان کو نئے تجربات کرنے میں اور کامیابی کی طرف گامزن کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

خود اعتمادی کیوں ضروری ہے؟

بچوں میں خود اعتمادی ناگزیر ہے کیونکہ یہ انہیں نئی چیزیں کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔وہ جب بھی کوئی نیا کام کرتے ہیں وہ خوشی اور فخریہ جذبات سے سرشار ہوتے ہیں۔یہ خود اعتمادی انھیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو سمجھنے اور سلجھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔اگر بچہ ایک مرتبہ غلطی کرتا ہے تو وہ دوبارہ اسے سدھارنے کی کوشش کرتا ہے، نا صرف سکول میں بلکہ گھر اور دوستوں میںاپنی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

جن بچوں میں خود اعتمادی کی کمی ہو وہ اپنی زندگی کے بارے میںغیر یقینی کا شکار اور خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ان کے دل میں یہ خوف بیٹھ جاتا ہے کہ وہ کم تر ہیں اور دوسرے انھیں قبول نہیں کریں گے۔اس ڈر سے وہ کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینے سے کترانے لگتا ہے۔

اور بعض اوقات تو وہ خود ترسی کی حالت میں چلے جاتے ہیں اور دوسروںکے برے سلوک پر بھی احتجاج نہیں کر تے۔ وہ اپنی ذات کے دفاع کے لئے کھڑے ہونے سے قاصر ہوتے ہیں۔ انھیں آسانی سے ہرایا جاسکتا ہے کیونکہ انھیں خود پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ وہ اپنے احساس محرومی کی وجہ سے کسی بھی شاطر دماغ کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ایسے بچوں کو ٹریپ کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔

کمی کیوں پیدا ہوتی ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوںمیں خود اعتمادی کی کمی کیوں اور کیسے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ شخصیت میںخوداعتمادی پیدا کیسے ہوتی ہے۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے یہ عمل تب سے شروع ہوجاتا ہے۔

عموماً یہ چار سے گیارہ برس کی عمر میں پیدا ہوتی ہے۔اور اس کا اظہار گیارہ سے پندرہ برس کی عمر میں ہوتا ہے جو منفی یا مثبت رویوں کی صورت میں واضع ہونے لگتا ہے۔اکثر والدین کے درمیان ناچاقی اور منفی رویے بچے کے اندر سے اعتماد کو ختم کر دیتے ہیں۔

بچے کو مثبت توجہ ، محبت اور تحفظ ملتا ہے تو بچہ خود کو محفوظ تصور کرتا ہے۔ جیسے جیسے چھوٹے بچے بڑے ہوتے ہیں وہ اپنے ہاتھ سے کچھ چیزیں کرنے کے قابل ہوتے ہیںتو اچھا محسوس کرتے ہیں ۔ اپنی مہارتوں کا استعمال انھیں پُر اعتماد بناتا ہے۔والدین کی توجہ اور شفقت، محنت تعریف اور محبت بچے کو اپنے اوپر اعتماد پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ نشونما کے عمل سے گزرتے ہوئے بچے جن اہم چیزوںکو سیکھتے ہیں وہ:

؎گھر کا ماحول

؎صحت اور عمر

؎شخصی پہچان

؎ایک مقصد کی جانب پیش رفت

؎اسکول میں اچھے نمبر حاصل کرنا اور آگے بڑھنا

؎دوست بنانا

؎اخلاقی فرائض سمجھنا

؎پسند و ناپسند

؎ہنر

؎سرگرمیاں

؎محنت کرنا

؎غیر نصابی سرگرمیاں

یہ سب چیزیں بچوں میںخود اعتمادی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں اور وہ معاشرے میں ایک کامیاب انسان بننے کے قابل ہوجاتا ہے۔

کمی کو جاننے کا طریقہ؟

کچھ بچوں میں خود اعتمادی کا فقدان ہوتا ہے جو ان کے اندر خوف و خدشے پیدا کر دیتا ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول اور مظاہر کو لے کر تشکیک کا شکار رہتے ہیں۔ جو بچے کی نشونما میں روکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ آخر ایسے بچوںکو کی نشاندہی کیسے کی جائے اس کا پتہ ہم آپ کو مندرجہ ذیل کچھ نقات سے دیتے ہیں۔

؎بچہ آپ کے سامنے اپنے بارے میں انتہائی منفی انداز میں بات کرے۔جیسے کے میں تو بیوقوف ہوں۔بدصورت ہوں ۔

؎ مستقل منفی انداز میں دوسروں سے اپنا موازنہ کرے۔

؎ لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور اس کے حوالے سے حد درجہ فکر مندی ظاہر کرے۔

؎موڈ میں تبدیلی جیسے اکثر اداس رہنا ،ہر کام میں پیچھے رہنا، غصہ ، ناراضگی اور افسردہ رہنا۔

؎اپنے جذبات پہ فوری طور پر قابو کھو دینا اور بات بات پر جذباتی ہو جانا۔

؎اپنے آپ میں رہنا اور دوست نہ بنانا

؎سماجی میل جول سے بچنے کے لئے آخری حد تک کوشش کرنا

؎اپنی کاوشوں کو دوسروںکے مقابلے کمتر سمجھنا

؎تعریف یا تنقید کو قبول کرنے سے ہیچکیچانا

؎ناکامی کے خوف سے کسی نئی چیز کو اپنانے سے گریز کرنا۔

؎ہرکام کو شروع کرنے سے پہلے ہی یہ کہنا کہ میں نہیں کرسکتا۔

؎ناکامی کو قبول کرنے میں مشکل ہونا۔

؎اپنی ناکامی کا ذمہ دار لوگوںکو ٹھہرانا، جیسا کہ یہ چیز تو ٹھیک ہی نہیں، استاد صحیح سے پڑھاتا نہیں۔

؎اپنے پسندیدہ مشاغل میں دلچسپی کھو دینا۔

؎سکول کی کارکردگی میں تنزلی

؎غیر متوازن رویوں کا پروان چڑھنا جیسے سکول سے چھٹیاں کرنا، سگریٹ نوشی، شراب اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرنا۔

کیا کیا جاسکتا ہے؟

والدین اکثر اپنے بچوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔یاد رکھنا چاہیئے کے بچے پر بلا وجہ سختی اور تنقید اسے کے اندر احساس کمتری پیدا کردیتی ہے۔اسے بات بات پر روکنا ٹوکنا اور ڈانٹنا ۔ سب کے سامنے اس کی بے عزتی کرنا۔ حد سے زیادہ شک کرنا بچے کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔بچے پر اس کی شکل و صورت اور نین نقش کے حوالے سے نکتہ چینی کرنا اسے ایک ایسے احساس کمتری کا شکار کر دیتا ہے جو اس کی شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے۔ یہاںتک کے بعض بچے ڈپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

یہاں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ والدین بچے سے قریب ہونے کی کوشش کریں۔ اسے توجہ پیار اور شفقت دیں۔ ذیادہ سے ذیادہ وقت بچے کے ساتھ گزاریں۔ اسے سنیں اس کے سوالوں کا جواب دیں۔ اسے اچھائی برائی سے زبانی نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی روشناس کروائیں۔اس عمر میں بچہ ذہنی اورجسمانی تبدیلوںکے حوالے سے متجسس ہوتا ہے اور پریشان بھی۔ والدین اگر درست رہنمائی کریں تو اس کی الجھنوں کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

بچے کو اس کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے روشناس کرانے میں والدین کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح اساتذہ اور اردگر د کے وہ لوگ جن سے بچہ قریب ہو اور انسیت محسوس کرتا ہو اگر بچے کو توجہ دیں اور سنیں تو وہ با اعتماد شخص بن کر معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔