غزل
کہہ رہا ہے یہ آئینہ مجھ کو
کر نہ حیرت میں مبتلا مجھ کو
خامشی کے اُجاڑ جنگل سے
دے رہا ہے کوئی صدا مجھ کو
جانے کس سمت چل دیا ہے خدا
سونپ کر کتنے ہی خدا مجھ کو
پوچھتی ہے ہوا چراغوں سے
کب دکھاؤ گے راستہ مجھ کو
جان دینے پہ بات آئی جب
حوصلہ دے گی کربلا مجھ کو
(عالمگیر ہراج۔کبیروالا)
۔۔۔
غزل
ادا وفاؤں کی قیمت ضرور کرتا میں
تمہارے غم کی حفاظت ضرور کرتا میں
یقین ٹوٹنے کا خوف ہے مجھے ورنہ
یقین جان، محبت ضرور کرتا میں
کبھی جو مجھ پہ توجہ کی اک نظر کرتے
تمہارے دل پہ حکومت ضرور کرتا میں
ضرورتوں نے کہیں کا نہیں رکھا ورنہ
پڑھائی، جاکے ولایت ضرور کرتا میں
تو مجھ کو ضائع کرے گا اگر پتا ہوتا
تو اپنی تھوڑی کفایت ضرور کرتا میں
نمازِ عشق مری گر قضا نہیں ہوتی
تو عاشقوں کی امامت ضرور کرتا میں
رواج دنیا نہیں سیکھ پایا میں ورنہ
محبتوں میں سیاست ضرور کرتا میں
(ذیشان ساحر۔ممبئی ، بھارت)
۔۔۔
غزل
و ہ جو رکھتاہے مرے دوست عقیدت مجھ سے
کرنے لگتے ہیں سبھی لوگ محبت مجھ سے
میں ترے نام کی تسبیح پڑھا کرتا ہوں
جب کبھی آنکھ ملائے میری وحشت مجھ سے
شعر کہتے ہوئے آفاق سے ہو آتا ہوں
اے خدا چھین نہ لینا کبھی نعمت مجھ سے
جانے والوں سے کہو اپنے ارادے بدلیں
اب کوئی شخص بھی ہوتانہیں رخصت مجھ سے
ایک کم زور سا انساں ہوں معافی دے دے
زندگی اور نہ لینا کوئی قیمت مجھ سے
میں نے جس روز تری پھول سے جوڑی نسبت
پھول کرتا ہے اسی روز سے نفرت مجھ سے
(ارشد احمد۔مظفر آباد آزاد، کشمیر)
۔۔۔
غزل
اک آئنے کے سوا ایک اشنا کے سوا
کوئی بھی ساتھ نہیں اپنے اک خدا کے سوا
ہماری نیندیں ادھیڑی تھیں رت جگوں نے مگر
ملا نہ کچھ بھی اذیت کی انتہا کے سوا
کھڑے ہیں وقت کی چوکھٹ پہ اور کچھ بھی نہیں
ہمارے ہاتھ میں پرکھوں کی بد دعا کے سوا
وہیں پہ ہم کو ودیعت ہوا ہمارا سخن
نہ کچھ تھا خلوتِ یزداں میں اک صدا کے سوا
وہ تیری چشمِ تغافل کی بھینٹ چڑھ گیا ہے
اک اور زخم بھی خط میں تھا التجا کے سوا
ہم ایسے کرب میں دھنکے فراق زادوں کو
کوئی بھی یاد نہیں اپنے بے وفا کے سوا
ہمیں بھی عشق کی معراج تُو عطا جو کرے
طلب تجھے بھی کریں گے تری رضا کے سوا
(بشریٰ شاہ۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
بھنور میں ناؤ ہے بارش کے امتحان کے بعد
ہے آسرا کوئی کمزور بادبان کے بعد؟
قسم اٹھائی ہے خالق نے جس کے چہرے کی
وہ جانتا ہے کہ کیا ہے اس آسمان کے بعد
ملے گی کتنی اذیت ہمیں جدائی میں
چلیں گے درد کے نغمے خوشی کی تان کے بعد
علاوہ اس کے اگر اور زندگی بھی ہے
تو کوئی سلسلہ بھی ہو گا لامکان کے بعد
ہمیں ملا ہے جو رتبہ یہ پائیدار نہیں
نجانے ہوں گے کہاں ہم اس آن بان کے بعد
فسانہ سن لیا احمدؔ نے زندگی کا مگر
نتیجہ کچھ نہیں نکلا ہے داستان کے بعد
(احمد حجازی ۔لیاقت پور، ضلع رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
تری بے رخی سے بکھر گئیں، مری مہرباں سی محبتیں
تری بے وفائی سے مر گئیں، مِری خوش گماں سی محبتیں
ترے ہجر کی یہ دکھی گھڑی، مری زندگی میں ہے کیوں کھڑی؟
ترے وصل کو ہیں ٹھہر گئیں، مری بے نشاں سی محبتیں
مجھے مل سکا نہ کہیں سکوں، ابھی ہے ادھورا مرا جنوں
کسی دل میں ڈھونڈنے گھر گئیں، مری ناتواں سی محبتیں
مری زندگی کا ملال ہے، مِرا تجھ سے اب یہ سوال ہے
ترے دل میں جا کے کدھر گئیں، مری آسماں سی محبتیں
مری زندگی کا غرور تھیں، مرے دل کا بھی جو سرور تھیں
مرے راستے سے گزر گئیں، مری رازداں سی محبتیں
وہ جنون خیز ملاپ تھا، ترا نام ہی مرا جاپ تھا
ترے دل سے پھر بھی اتر گئیں، مری بے زباں سی محبتیں
میں ہی تیری آنکھوں کا خواب ہوں، میں ہی تیرا جانُو شہاب ہوں
ترے دل میں جا کے سنور گئیں، مری مہرباں سی محبتیں
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
۔۔۔
غزل
معافی سے کبھی دل کے گلے شکوے نہیں جاتے
سحر ہوتی ہے لیکن رات کے دھبے نہیں جاتے
برستی ہیں کبھی آنکھیں کبھی جلنے یہ لگتی ہیں
یہ سوکھے پھول ہم سے اس طرح دیکھے نہیں جاتے
وفا کی بات ہے خود سے تو شیشہ آ دیکھ لیتے ہیں
ورگرنہ ہم سے اپنے عکس بھی دیکھے نہیں جاتے
کوئی جذبات کا کیسے کرے اظہار چھٹی میں
جو دل میں ہیں وہ کاغذ کیا کہیں لکھے نہیں جاتے
میں خالی ہاتھ واپس جا رہی ہوں اس کی دنیا سے
خدا بھی چیختا ہوگا نہیں ایسے نہیں جاتے
(رتکا موریہ ریتؔ۔ ممبئی،بھارت)
۔۔۔
غزل
گر ہم کبھی نکلتے انا کے حصار سے
تجھ کو بھی مانگ لیتے ترے اختیار سے
پہلے کے جیسی کوئی کشش کھینچتی نہیں
شاید بہت ہوں دورمیں اپنے مدار سے
اپنی جبینِ ناز نہ اتنی جھکائیے
دستارگرنہ جائے خوشامدکے بارسے
وحشی ہواکاشورِ رعونت تھا، الامان
پلٹی تھی جب چراغ بجھا کے مزارسے
آنکھیں پگھلنے لگتیں اگردیکھتامزید
مجھ کو نظر ہٹانا پڑی عکسِ یارسے
جس کوجہاں میں یاری نبھانے کا شوق ہو
مانگے وہ ظرف جاکے درِ یارِ غار سے
حسنین ؔپل صراط ہویا ہوصراطِ عشق
ہم سے ملنگ گذریں گے اس رہ گذار سے
(حسنین احمد ڈھڈی۔ کبیروالا)
۔۔۔
غزل
دوستو! آج مرے درد کی سنوائی ہے
زندگی پھر سے غزل بن کے اتر آئی ہے
آپ بھی کان لگا کر اسے سن لیجے گا
ہر زباں پر مرے زخموں کی پزیرائی ہے
کوئی آسیب ہے یا خود پہ خودی قابض ہے
خود تماشا ہوں، خودی چشمِ تماشائی ہے
وقت یہ بات بہت جلد عیاں کر دے گا
میرے صدمات سے کس کس کو شناسائی ہے
ایسے ویسوں سے تمنائیں لگا رکھی ہیں
کیسے کیسوں کو یہاں زعمِ مسیحائی ہے
قیس کے بعد کوئی بھی تو نہیں ہے حمزہ ؔ
دشت میں تیرے سوا تیری ہی پرچھائی ہے
(امیر حمزہ سلفی ۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
نیا زمانہ روایات میں ملا مجھ کو
سراغ قحط کا برسات میں ملا مجھ کو
یقین، قلب و نظر کا فریب ہوتا ہے
مرا خدا مرے شبہات میں ملا مجھ کو
میں چاہتا تھا کہ اوقات دیکھ لوں اس کی
پھر ایک روز وہ اوقات میں ملا مجھ کو
وہ آپ جو نظر آتا نہ تھا کہیں سے بھی
پھر اپنی کی ہوئی اک بات میں ملا مجھ کو
تلاش کرتا تھا دل ہجر کا مزہ عادلؔ
غزل نہ دے سکی پھر نعت میں ملا مجھ کو
(عادل گوہر۔کوٹ ادو)
۔۔۔
غزل
با رمز و نشاں سمجھیں بے حرف و نوا جانیں
ہم لوگ ہیں دیوانے، جانیں بھی تو کیا جانیں
اوجھل نظر آتے ہیں صد جلوے زمانوں کو
رُوپوش فسانوں کو ، کیا ہوش رُبا جانیں!
سیماب سے پانی کو، آشوبِ جوانی کو
سر سے جو گزر جائے ، وہ سیلِ بلا جانیں
جس بات کو کہنا تھا ، وہ بات تو کہہ ڈالی
کیا جانیں تمہارا ڈر ، کیا خوفِ سزا جانیں
جب تارِ نفس الجھے، اک دستِ ستم گر سے
ہر موج لہو جیسی ، شمشیر ہوا جانیں
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
خود کو کیا کچھ نہیں دیا میں نے
مر لیا میں نے جی لیا میں نے
داد کیا تیرے حسن کی دیتا
آنکھ بھر کر تو تک لیا میں نے
اس سے بڑھ کر میں اور کیا کہتا
پری پیکر تو کہہ دیا میں نے
مجھ سے وہ سایہ ایک دم اترا
دم ہوا پانی جب پیا میں نے
پھول سے چاک میں ہوا حامدؔ
خار سے خود کو سی لیا سی نے
(سید حامد حسین شاہ۔داتا مانسہرہ)
۔۔۔
غزل
شاہزادی کو جب ہنسی آئی
پورے گاؤں میں روشنی آئی
ہجر کے کالے چِلّے کاٹے ہیں
تب مجھے جا کے شاعری آئی
مرنے والوں کو زندگی بخشی
میرے حصّے میں خود کشی آئی
رشتہ مانگا ترا،ہمارے بیچ
پھر قبائل کی دشمنی آئی
جو بھی تیرے قریب آئے ہیں
ان کے چہروں پہ دلکشی آئی
دل پہ یادوں نے پھر چڑھائی کی
اس لیے آنکھ میں نمی آئی
میرے چہرے کا رنگ اڑ نے لگا
تیرے جانے کی جب گھڑی آئی
(نذیرحجازی۔نوشکی بلوچستان)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی