قائد اعظم اور تاریخ پاکستان سے محبت
یہ ایسے کرداروں کی یاد کرنے کی سعی ہے جو ہمیں اُن کی سنہری و قومی خدمات بارے متعارف کرواتی ہیں
ساڑھے چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب کہنے کو تو لاہور اور امرتسر کی معروف سیاسی، مذہبی، علمی، ادبی شخصیات اور تاریخی عمارات کا شاندار تعارف ہے لیکن درحقیقت اِس کے ایک صفحے پر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ، تحریکِ پاکستان ، دو قومی نظریئے اور بانیانِ پاکستان سے وابستگی اور محبت کی لاتعداد اور بے پناہ داستانیں رقم ہیں۔
ایک شخص نے دو شہروں کی مزیدار تاریخ بیان کر دی ہے ۔اِس بنا پر اِسےA Tale of Two Citiesکہا جانا چاہیے ۔ یہ تاریخ ڈاکٹر احمد حسن صاحب نے بیان کی ہے جو پیدا اور جوان تو ہُوئے امرتسر میں لیکن علم لاہور میں حاصل کیا اور اِسی شہرِ نگاراں میں زندگی بِتا دی : ایک ڈاکٹر کی حیثیت میں۔ لاہور میں وہ پرانی انار کلی، نسبت روڈ اور جیل روڈ پر رہے لیکن عشق سارے لاہور سے ۔ پاکستان اُن کے سامنے بنا اور اُن کے سامنے بن کر دو لخت بھی ہُوا ۔
ایک تنہا شخص سے اتنی قیمتی یادوں کا اُگلوا لینا سہل کام نہیں ہے لیکن منیر احمد منیر ایسے باکمال اور منفردانٹرویو نگار نے یہ ناممکن الحصول کام کر دکھایا ہے ۔ یہ منیر احمد منیر کا خاصہ ہے جن کا تاریخِ پاکستان پر بے پناہ کام اب One Man Armyکی یادگار حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔
زیر نظر کتاب کا نام ہے :''میرے وقتوں کا امرتسر اور لاہور'' ۔اِس کتاب کے مرتب و مصنف ، منیر احمد منیر، نے 134صفحات پر مشتمل ایک مفصل پیش لفظ بھی لکھا ہے ۔اِسے ہم معرکہ آرا بھی کہہ سکتے ہیں اور زیر نظر کتاب کی رُوح بھی ۔ شاید منیر احمدمنیر اپنی ادا کے منفرد ادیب اور پبلشر ہیں جو اپنی نگرانی میں شایع ہونے والی کتابوں کا تفصیلی پیش لفظ بھی خود ہی لکھ رہے ہیں ۔
یوں انھوں نے کتابوں کی اشاعتی تاریخ میں ایک نئی طرح ڈالی ہے ۔ وہی اِس طرح کے موجد ہیں۔ ''میرے وقتوں کا امرتسر اور لاہور'' کو کتابی شکل میں مرتب کرکے دراصل منیر احمد منیر اور اُن کے انٹرووئی ، ڈاکٹر احمد حسن، نے دونوں شہروں کی شخصیات اور عمارات کا ایک چھوٹا سا مگر انتہائی دلکش اور دلربا انسائیکلوپیڈیا مرتب کر ڈالا ہے ۔
کئی غلط فہمیوں کی تصحیح بھی ساتھ ہی کر دی گئی ہے ۔یہ غیر معمولی علمی خدمت ہے ۔ اِس کی ہر سطح پر سراہنا کی جانی چاہیے ۔
منیر احمد منیر صاحب نے زیر نظر کتاب میں ، چلتے چلتے ، موجودہ کئی سیاسی خانوادوں بارے بھی کئی انکشافات کر ڈالے ہیں ۔ مثال کے طور پر انھوں نے محترمہ مریم نواز شریف بارے وہ قصہ بھی رقم کر دیا ہے جب وہ میٹرک کے بعد ''لاہور کالج'' میں داخلہ لینے گئی تھیں۔
مصنف اور مذکورہ کالج کی پرنسپل (بشریٰ متین) کے شوہر (خواجہ متین) کے درمیان جو مکالمہ ہُوا تھا، وہ بھی پڑھنے کے قابل ہے ۔بھٹو صاحب کے مقدمہ قتل اور اُن کے مخالف وکیل ( اعجاز حسین بٹالوی) بارے مصنف کے مشاہدات بھی تاریخی ہیں۔ جنرل مشرف کے دَور میں طیارہ اغوا کیس میں وکیل اعجاز بٹالوی نے جس اسلوب میں نواز شریف کی گلو خلاصی کروانے میں اعانت فراہم کی، یہ داستان بھی خوب بیان کی گئی ہے ۔ میاں محمد شریف اور چوہدری شجاعت حسین کے متعلق ذکر اذکار بھی دلچسپ ہے ۔
منیر احمد منیر صاحب کا اوڑھنا بچھونا قائد اعظم سے بے پناہ عشق اور نظریہ پاکستان سے انمٹ محبت ہے ۔ہر وہ شخص، ادارہ ، تنظیم یا گروہ جو کسی بھی رُوپ اور شکل میںتاریخِ پاکستان پر ڈاکا زنی کرنے کا مرتکب ہو، منیر احمد منیر فوری طور پر اُس کا احتساب کرنا اپنا قومی اور نظریاتی فرض سمجھتے ہیں ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ معاندینِ پاکستان و تحریکِ پاکستان کے مخالفین کو، تاریخ و حقائق کی بنیاد پر، دبوچ لینا وہ اپنا قومی فرض سمجھتے ہیں ۔
مثال کے طور پر زیر نظر کتاب (میرے وقتوں کا امرتسر اور لاہور) انھوں نے لاہور کی ایک تنظیم کی خوب گوشمالی کی ہے جس کے وابستگان نے لاہوریوں اور پنجابیوں کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بھگت سنگھ بھارتیوں کے ساتھ پاکستانیوں اور پاکستان کا بھی محسن تھا ۔
مصنف نے مستند تاریخی حوالوں کے ساتھ زیر نظر کتاب کے قارئین کو بتایا ہے کہ بھگت سنگھ کے نظریات کیا تھے؟ زیر نظر کتاب میں یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو لوگ سر گنگا رام ( گنگا رام اسپتال کے خالق) کو لاہور اور لاہوریوں کا محسن کہتے ہیں، غلط کہتے ہیں ۔ کتاب میں یہ حیران کن انکشاف کیا گیا ہے کہ سر گنگا رام کے بنائے گئے اسپتال میں صرف ہندومریضوں کو داخلہ ملتا تھا ۔
مسلمان مریض ( عارضی طورپر) صرف ایمرجنسی کی صورت میں اِس اسپتال میں داخل کیا جاتا تھا ۔ مصنف کہتا ہے کہ سر گنگا رام کو لاہور کا محسن بھی نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ اگر تعمیرات کے اعتبار ہی سے اُسے محسنِ لاہور کے نام سے یاد کیا جانا ہے تو پھر رائے بہادر کنہیا لال کو بجا طور پر محسنِ لاہور کہا جانا چاہیے کہ اُن کی لاہور میں تعمیر کردہ عمارات کی تعداد بھی زیادہ ہے ، وہ غیر متعصب بھی تھے اور اعلیٰ درجے کا مصنف بھی کہ 1884 میں ''تاریخِ لاہور'' نامی ایسی کتاب لکھ ڈالی کہ آج تک بے نظیر بھی سمجھی جاتی ہے اور ایک مستند ترین حوالہ بھی ۔
''میرے وقتوں کا امرتسر اور لاہور'' کتاب کی قیمت 1500روپے ہے ، مگر واقع یہ ہے کہ اِس میں مندرج قیمتی واقعات و شخصیات کا تذکرہ اور جن نایاب و نادر تصاویر کو شاملِ کتاب کیا گیا ہے، اِن کی موجودگی میں یہ قیمت کم محسوس ہوتی ہے ۔
اِس کتاب کا مطالعہ دراصل تاریخ و تہذیب کے مطالعہ کے مترادف ہے ۔ ہماری اپنی تاریخ و تہذیب ۔یہ درحقیقت کھوئے ہوؤں کی جستجو اور بازیابی کی ایک مستحسن کوشش ہے ۔ وہ کھوئے ہُوئے جو اب زیر زمیں جا چکے ہیں اور اب کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن اُن کی یاد آفرینی ہمیں آگے بڑھنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرتی ہے ۔
یہ ایسے کرداروں کی یاد کرنے کی سعی ہے جو ہمیں اُن کی سنہری و قومی خدمات بارے متعارف کرواتی ہیں ۔کتاب کا انتساب خواجہ محمد رفیق کے نام کیا گیا ہے ۔ میرے استفسار پر مصنف و مرتب ، منیر احمد منیر ، نے بتایا : جی ہاں، یہ وہی خواجہ محمد رفیق ہیں جن کے دونوں فرزند ، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق، آج ہماری سیاست کے دو اہم نام ہیں ۔ لیکن نہیں خواجہ محمد رفیق شہید وہ ذاتِ گرامی ہیں جو افکارِ قائد اعظم کے پیروکار تھے اور جن پر بیک وقت لاہوری اور ''امبر سری'' فخر کر سکتے ہیں ۔
زیر نظر کتاب میں لاہور اور امرتسر سے تعلق رکھنے والے جن شاعروں، ادیبوں، خطیبوں، مولویوں، صحافیوں ، سیاستدانوں اور ماہرین تعلیم کا ذکر کیا گیا ہے ، سچی بات یہ ہے کہ اُن کے تذکرے، خدمات اور یاد سے آج بھی دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں ۔کتاب اِس پتے سے حاصل کی جا سکتی ہے: آتش فشاں، 78ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور ۔ فون نمبر:0333-4332920۔