عوام اور سیاسی شعور
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معاشی دلدل میں دھنسا ہوا ہونے کے علاوہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے بُری طرح دبا ہوا ہے
ہمارے ذہن میں یہ سوال مدت سے کلبلا رہا ہے کہ آیا سیاست برائے ریاست ہے یا ریاست برائے سیاست ہے۔ آسان الفاظ میں سوال یہ ہے کہ کیا گھوڑا گاڑی کے لیے ہوتا ہے یا گاڑی، گھوڑے کے لیے؟
ہمیں امید ہے کہ سوال آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں ہو کیا رہا ہے اور اِس کے تمام مسائل کی جڑکیا ہے؟
1970 کی تلخ یادیں دل و جگر پر نشتر چلا رہی ہیں جب عام انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے کے نتیجے میں آدھا ملک ہاتھوں سے نکل گیا۔
اِس درمیانی عرصے میں جو بھی عام انتخابات ہوئے وہ متنازعہ ہی رہے کیونکہ ہارنے والی سیاسی جماعت نے اُن کے نتائج کو ماننے سے انکار کردیا۔ اب جب کہ انتخابات کا ڈول ڈالا جارہا ہے تو ہمارا ذہن یہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہا ہے کہ اِن انتخابات کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
اب کسی سے بھی کچھ چھپانا ممکن نہیں رہا۔ ٹیلیوژن اسکرین پر ہر چیز اور واقعہ کو کھلی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے لہٰذا اب کہہ کر مُکرنا ممکن نہیں رہا۔ کوئی تقریر ہو یا جلسہ جلوس اور ریلی اُس کی اصلیت چھپا کر جھوٹ بولنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ انسانی شعور اب اتنا بیدار ہوچکا ہے کہ اَن پڑھ آدمی بھی ہر بات کو سمجھ سکتا ہے۔
اِس صورتحال نے سیاسی بازیگروں کے لیے بہت سی مشکلات حل کردی ہیں۔ اِس بدلے ہوئے منظر نامے نے ہمارے سیاستدانوں کے لیے یہ لازم کر دیا ہے کہ وہ بولنے سے پہلے تولیں۔
آئیے! اِس تناظر میں اُس جلسہ کا جائزہ لیں جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی قائد اور ماضی میں ملک کے وزیرِ اعظم کے عہدہ پر تین مرتبہ فائز رہنے والے میاں نواز شریف کی آمد کے موقع پر لاہور میں مینارِ پاکستان کے احاطے میں منعقد کیا گیا۔
پورے ملک نے اِس جلسہ کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور میاں صاحب کے خطاب کو کھلے کانوں سے سنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب اِس میں کیا کہا گیا اور کہنے والے کی باڈی لینگویج کیا تھی یہ اظہر مِن الشمس ہے۔
میاں صاحب نے اپنی تقریرِ دل پذیر میں حسبِ عادت شاعری کی چاشنی ملا دی۔ اِس مرتبہ انھوں نے مرزا غالبؔ کا شعر پڑھا اور با ذوق سامعین سے خوب خوب داد وصول کی۔ ہم بھی کیونکہ شاعری کا ذوق رکھتے ہیں اس لیے ہمیں میاں صاحب کی تقریر سُن کر بڑا مزہ آیا۔
میاں صاحب نے غالبؔ کے جس شعر کا انتخاب کیا وہ بھی بہت معنی خیز تھا۔ ویسے بھی غالبؔ، غالب ہیں اور باقی سب مغلوب۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ سخنور تو بہت سارے ہیں لیکن غالب کا اندازِ بیاں کچھ اور ہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ غالب کا ہر لفظ اپنے اندر معنی کا ایک سمندر رکھتا ہے۔ مرزا کے بقول۔
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
ایک قابلِ غور بات یہ ہے کہ میاں صاحب کا لب و لہجہ اِس مرتبہ بدلا ہوا تھا۔ اُن کی آواز میں جو قوت اور تازگی تھی اس سے یہ اندازہ قطعی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ موصوف ایک طویل بیماری سے صحت یاب ہو کر واپس آئے ہیں۔ ماشاء اللّہ چہرے پر بھی کسی بے رونقی کے بجائے ایک دلکش شگفتگی تھی۔
میاں صاحب نے اپنی تقریر میں ایک ایسی بات کہی جو خلافِ توقع لیکن خوش آیند تھی۔ انھوں نے سیاسی اختلاف سے ہٹ کر صلح صفائی اور افہام و تفہیم کی دعوت دی۔ دلوں کا حال تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن جو کچھ میاں صاحب نے فرمایا وہ لائقِ تحسین ہے۔
کاش اُن کے حریف اُن کے کہے پر راضی اور آمادہ ہوجائیں اور سب سَر جوڑ کر ملک و قوم کی خدمت اور بہتری کی خاطر اِس پیشکش پر آمادہ ہوجائیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اختلافِ رائے جو جمہوریت کا بنیادی تقاضہ اور روح ہے اُسے اختلافِ ذات بنا کر ایک محاذ آرائی کی شکل دینا جمہوریت کا چہرہ مسخ کردینے کے مترادف ہے۔ گستاخی معاف وطنِ عزیز کا جو حشر ہوا ہے اُس کا بنیادی سبب بھی یہی ہے۔
ملک کے موجودہ حالات انتہائی تشویشناک ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معاشی دلدل میں دھنسا ہوا ہونے کے علاوہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے بُری طرح دبا ہوا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اپنے سابقہ دورِ اقتدار میں میاں صاحب نے ایک ملک گیر مہم چلائی تھی جس کا سلوگَن تھا '' قرض اتارو، ملک سنوارو'' لیکن بوجوہ یہ مہم زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکی اور قرض اُتارنے کے بجائے قوم مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبتی چلی گئی۔