دہشت گردی کے واقعات پر افسوسناک رد عمل

دہشت گردی کے ان واقعات پر پوری قوم میں بھی ایک غم وغصہ موجود ہے


مزمل سہروردی November 07, 2023
[email protected]

پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں ایک تیزی نظر آرہی ہے۔ بالخصوص تین اور چار نومبر کو ملک میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات ہوئے ہیں۔

ان میں گوادر پسنی اور میانوالی میں عسکری تنصیبات کو بالخصوص نشانہ بنایا گیا۔ ہمارے جوانوں کی شہادت ہوئی ہے۔ جوانوں کی شہادت پر پورے ملک میں سوگ منایا گیا۔تمام سیاسی جماعتوں نے جوانوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا۔ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی گئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پوری قوم بھی جوانوں کی شہادت پر غم میں نظر آئی ہے۔

دہشت گردی کے ان واقعات پر پوری قوم میں بھی ایک غم وغصہ موجود ہے۔دہشت گردی کے واقعات پر لوگوں میں تشویش ہے۔ عام آدمی دہشت گردی کے واقعات پر پریشان ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات کیوں دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔

جب ہم نے ایک دفعہ دہشت گردی کو ختم کر دیا تھا تو آج دوبارہ کیوں شروع ہو گئی ہے۔ ہم نے دہشت گردی کی جنگ جیت لی تھی۔ آج ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جیتی ہوئی جنگ دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔یہ دہشت گرد نیٹ ورک دوبارہ فعال کیسے ہو گئے ہیں۔ جب ہم نے نیٹ ورک توڑ دیے تھے تو دوبارہ کیسے بن گئے ہیں۔

جب ہمیں بتایا جاتا تھا کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان میں دہشت گردوں کی حمایت کرتی ہے۔ اشرف غنی کی حکومت بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کرتی ہے۔

افغان پاکستان سرحد کے ساتھ بھارتی قونصلیٹ پر بھی یہی اعتراض تھا کہ وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ وہاں سے نیٹ ورک بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بتایا گیا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد یہ سب ختم ہو جائے گا۔

ہمیں بتایا گیا کہ افغان طالبان پاکستان کے دوست ہیں۔ اب وہاں سے دہشت گردی کی پشت پناہی نہیں ہوگی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اب پاکستان کے مجرموں کو وہاں پناہ نہیں ملے گی۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جیت لی ہے اب ہماری جیت مستحکم ہو جائے گی۔

افغانستان اب پاکستانی دہشت گردوں کے لیے محفوظ جنت نہیں رہے گی، ہمارے ملزم ہمارے حوالے کر دیے جائیں گے۔ لیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ حالات پہلے سے بھی خراب ہوئے ہیں۔ نہ صرف دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص عسکری تنصیبات اور جوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب سے پاکستان نے غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے تب سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ افغانیوں کو نکالنے کا رد عمل ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ موقف درست ہے کہ ان غیر قانونی مقیم لوگوں میں دہشت گرد بھی ہیں۔

ان میں ہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں اور جب انھیں واپس بھیجنے کا فیصلہ ہوا ہے تو انھوں نے اپنی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔جیسے جیسے ان لوگوں کو نکالا جائے گا دہشت گردی کا یہ نیٹ ورک ختم ہو جائے گا۔

اس لیے ان واقعات کے بعد ملک وقوم کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپنے فیصلوں پر قائم رہنا ہوگا۔ یہ وقت کمزوری دکھانے کا نہیں ہے بلکہ فیصلوں پر قائم رہنے کا ہے۔

جوانوں کی شہادت اور دہشت گردی کے واقعات پر سب نے مذمت کی ہے۔ لیکن یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے شہیدوں کے خلاف مہم چلائی گئی ہے۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا لسبیلہ کے واقعہ کے بعد بھی ایسا طرز عمل دیکھنے میں آیا تھا۔ تب بھی سب نے اس کی مذمت کی تھی۔ یہ درست ہے کہ جب اس کی نشاندہی کی گئی ہے تو تحریک انصاف نے باضابطہ طور پر ان اکاؤنٹس اور اس مہم سے اعلان لا تعلقی کی ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تحریک انصاف کے حامی اکاؤنٹس ہیں اور تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹس ان اکاؤنٹس کی پوسٹ کو ری ٹوئٹ کرتا ہے۔ ان اکاؤنٹس کی سرپرستی تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹس سے کیے جانے کے بھی سوشل میڈیا ثبوت موجود ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان اکاؤنٹس کے ہینڈلر ملک میں موجود نہیں ہے بلکہ بیرون ملک سے یہ مذموم مہم چلا رہے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف پاکستان کی جانب سے نہ صرف دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی گئی ہے بلکہ شہادتوں پر افسوس کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اوورسیز تحریک انصاف نے ان دہشت گردی کے واقعات پر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا ہے بلکہ جوانوں کی شہادت کا تمسخر بھی اڑایا گیا ہے۔

اس لیے بیرون ملک سے جاری کی جانے والی اس مذموم مہم پر ملک کے اندر ایک رد عمل بھی نظر آیا ہے، لوگوں نے اس کی مذمت کی گئی ہے۔

ہم دیکھ رہے کہ تحریک انصاف اس وقت ایک دوہری حکمت عملی پر چل رہی ہے۔ پاکستان کے اندر سے تحریک انصاف مفاہمت کی بات کرتی نظر آرہی ہے۔ ملک کے اندر موجود تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ اور فوج کے ساتھ مفاہمت کی بات کرتی نظر آرہی ہے۔ملک کے اندر مفاہمت کے گیت گائے جا رہے ہیں۔

صرف اسٹبلشمنٹ ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں سے بھی مفاہمت کی بات کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف اوورسیز تحریک انصاف نے مکمل گالم گلوچ جاری رکھی ہوئی ہے۔ ایک طرف دوستی کی بات دوسری طرف نفر ت انگیز پروپیگنڈا جاری ہے۔ ملک میں فوج کے حق میں بیان اور باہر سے فوج کے خلاف مہم جاری ہے۔ یہ دو عملی اب سب پر واضح ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف نے مفاہمت کی جو مہم شروع کی تھی اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ بھی بیرون ملک تحریک انصاف کے حامیوں کی گالم گلوچ اور نفرت انگیز پروپیگنڈا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کا بھی یہی موقف سامنے آیا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ باہر سے آپ کے لوگ گالیاں جاری رکھیں اور ملک کے اندر آپ دوستی کا راگ گاتے جائیں۔

اگر باہر بیٹھے لوگ آپ کے نہیں ہیں تو کھل کر آپ بھی ان کی مذمت کریں۔ اگر تحریک انصاف کا موقف ہے کہ اس پروپیگنڈے کو ان کی سرپرستی حاصل نہیں تو ان اکاؤنٹس کی نہ صرف مذمت کی جائے بلکہ ان کو فالو کرنا بھی بند کیا جائے۔ ایک واضح پالیسی کے ساتھ سامنے آئیں کہ یہ ہمارے لوگ نہیں۔

یہ بات بھی محسوس کی گئی ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد ''را'' کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور بیرون ملک مقیم تحریک انصاف کے حامی ایک ہی زبان بول رہے تھے۔ ''را'' کی زبان تو سمجھ آتی ہے یہ بیرون ملک مقیم پاکستانی کیوں ''را'' کی زبان بول رہے ہیں۔ اس حوالے سے ثبوت سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ جنھیں کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

میں سمجھتا ہوں روز بروز تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ان کے بیرون ملک حامیوں کی وجہ سے ہے۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر اپنے چند پیسوں کے لیے پوری جماعت کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ تحریک انصاف کے حامی نہیں بلکہ بڑے دشمن بن چکے ہیں۔ تحریک انصاف جتنی جلدی ان سے علیحدگی اختیار کر لے گی اتنا ہی بہتر ہوگا۔ کیونکہ یہ پاکستان کی سیاست کی کوئی سمجھ نہیں رکھتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں