پاک افغان تعلقات بدگمانیاں دور کریں

دوسری طرف حکومتی پالیسی بہت واضح ہے کہ انخلاء صرف غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کا ہوگا


[email protected]

پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے ہمسائے اور مسلم ملک ہیں، ابتدا میں حکومتی سطح پر تعلقات مثالی نہیں رہے ۔افغانستان کی ظاہر شاہ حکومت نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

کمیونسٹوں اور سوویت یونین کے قبضے کے بعد دونوں ایک دوسرے کے دست و بازو بنے اور پشتی بان رہے، سرحد کے دونوں طرف ایک ہی زبان بولنے والے قبائلی رشتہ داروں کے درمیان محبت اور اخوت کا جذبہ قائم ہے۔

امارت افغانستان نے جب امریکی اور نیٹو فورسز کی افواج کو شکست فاش دے کر اپنے ملک سے نکالا تو میرے جیسے لاکھوں پاکستانیوں اور افغانوں نے سجدہ شکر ادا کیا تھا کہ اب دونوں ممالک میں سکون اور خوشحالی کا دور آئے گا، اور بھارت میں ماتم کا سماں تھا مگر بدقسمتی سے دونوں اسلامی ممالک کو دشمنوں کی نظر لگ گئی۔

دونوں ممالک ایک دوسرے کے بارے میں بدگمان ہیں اور ایک دوسرے سے فاصلہ اختیار کیے ہوئے ہیں، ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا، جو نہ صرف پاکستان اور امارت اسلامیہ افغانستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے نقصان دہ ہے، اس صورتحال سے دشمن قوتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور وہ ایسے گھناؤنے کھیل، کھیل رہی ہیں جن سے ان دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان نفرتوں کی دیوار مزید بلند ہو رہی ہے۔

دنیا کے مروجہ اور مسلمہ قوانین کے مطابق جب بھی کوئی شخص کسی دوسرے ملک میں جائے گا تو اس ملک کے قوانین کے مطابق قانونی دستاویزات حاصل کریگا، قانونی دستاویزات کے بغیر جو بھی دوسرے ملک جائے گا وہ ملک ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مجاز ہوتا ہے، عرصہ دراز سے 40 لاکھ افغانوں میں تقریباً 17 لاکھ قانونی دستاویزات کے بغیر رہ رہے ہیں مگر حکومت پاکستان نے انھیں تنگ نہیں کیا۔

یہ ان کے ساتھ ترجیحی اور خصوصی رعایتی سلوک تھا مگر جب غیر قانونی مقیم افغانوں کو پاکستان چھوڑنے کا کہا گیا اور ڈیڈ لائن ختم ہونے پر جبری انخلاء کے فیصلے انکے لیے ناگوار گزرے۔ اصولاً تو افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو مل بیٹھ کر حکمت و دانش کے ساتھ یہ مسئلہ میڈیا اور پبلک میں اچھالے بغیر حل کر نا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ افغانستان کے بعض ذمے داروں نے برملا دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کیا۔ جس سے شرپسندوں کو شہ مل گئی اور تعلقات میں بگاڑ کا ذریعہ بنا۔

سمجھدار افغان مہاجرین کا موقف ہے کہ ہم حکومت پاکستان کے ہر فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن ہمیں مناسب وقت دیا جائے تاکہ اپنا کاروبار اور گھربار طریقے سے سمیٹ کر افغانستان میں اپنے لیے کسی ٹھکانے کا انتظام کر سکیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین کی طرف سے بھی پاکستان سے اپیل کی گئی کہ اس کام میں عجلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔

دوسری طرف حکومتی پالیسی بہت واضح ہے کہ انخلاء صرف غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کا ہوگا، کسی ایسے غیر ملکی کو تنگ نہیں کیا جائے گا جس کے پاس مکمل دستاویزات موجود ہیں، تاہم چند ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں سے پوچھ تاچھ کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کو قانونی طور پر مقیم افغانوں کو کڑی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑا۔

پاکستان کی افغانستان کے لیے لازوال قربانیاں ہیں، جہاد افغانستان کے وقت ہجرت کرنے والے لاکھوں افغانوں کے تقریباً 68فی صد افغان مہاجرین کو ہم نے اپنی آبادی کے ساتھ مربوط رکھا۔ صرف 32 فیصد مہاجرین کیمپوں میں رہے۔

تمام مہاجرین ریاست اور حکومت کی طرف سے عام پاکستانیوں کو فراہم کی جانے والی تمام سہولیات سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ پاکستان 1951 اور مہاجرین سے متعلق 1967 میں اقوام متحدہ کے کنونشن اور پروٹوکول پر دستخط کنندہ نہیں ہے۔

مگر افغان بھائیوں کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔ پاکستانیوں نے اگر مواخات مدینہ کی مثال قائم نہیں کی مگر دنیا کی تاریخ میں اس ایثار و قربانی کی مثال بھی نہیں ملتی، جس طرح انھوں نے افغان بھائیوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کردیے تھے۔ چالیس سال سے پاکستان افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کھلے دل سے کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری ہمارے اس ایثار پر معترف اور خود افغانستان شکر گزار رہا۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ افغان مہاجرین نے پاکستان کو اپنا ملک سمجھا اور اہلیان پاکستان کے خدمتگار بنے رہے، کچرا اٹھانے سے لے کر بڑی بڑی تجارت تک ہر کام میں افغانوں نے پاکستان اور اہلیان پاکستان کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ افغان پناہ گزین نہ صرف پاکستان میں سستی لیبرکا ذریعے بنے بلکہ وہ پاکستانی شہریوں کے لیے معاشی لحاظ سے فائدہ مند رہے۔

31 اکتوبر کو رضا کارانہ طور پر واپسی کی ڈیڈ لائن ختم ہو چکی ہے اور اب جبری انخلاء شروع ہے جسے ہماری پالیسی میں موجود سقم کی وجہ سے پاکستان مخالف قوتیں اور عناصر سوشل میڈیا پر اسے غلط رنگ دے رہے ہیں۔ اکثر لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ تو ٹھیک مگر طریقہ کار حکمت اور تدبر سے عاری لوگوں کی وجہ سے ملک کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے، پاکستان کے خلاف اس پروپیگنڈا مہم میں پوری دنیا شامل ہے۔

ہندوستان نے بھی پاکستان کے خلاف نفرت انگیز مہم اور سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کیا ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہندوستان کے ایماء پر المرصاد کے نام سے ایک سوشل میڈیا ہینڈل پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، المرصاد کا مقصد دنیا میں پاکستان کا منفی تاثر پھیلانا ہے، المرصاد اردو، پشتو، عربی اور انگریزی کے علاوہ متعدد زبانوں میں مواد نشر کرتا ہے۔

المرصاد کا حالیہ مشن پاک افغان تعلقات کو بگاڑنے کے لیے غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین کے انخلا کو استعمال کرنا ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں کئی محاذوں پر کام کررہی ہیں۔ اسی نوعیت کے ایک اور گھناؤنے منصوبے کا انکشاف ہوا ہے جس کے تحت افغان باشندوں کی واپسی کے عمل کو سبوتاژ کرنا ہے۔

ابھی تک لاکھوں افغان باشندے بغیر ناخوشگوار واقعے کے واپس افغانستان جا چکے ہیں مگر ملک دشمن قوتیں اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے متحرک ہو چکی ہیں اور وہ غیر ملکیوں کے لیے قائم ہولڈنگ سینٹرز یا نقل و حرکت کے دوران شرانگیزی کر سکتے ہیں۔

حالات و واقعات سے تو یہ بات واضح ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان نفرتوں کی دیوار کھڑی کرنے کے پیچھے دشمن قوتیں کارفرما ہیں، اس لیے دونوں ملکوں کو حکمت اور احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے افغانوں کی چالیس سال تک جو خدمت کی ہے اس کے بعد وہ افغانستان واپسی پر پاکستان کے سفیر ہونے چاہئیں نہ کہ مخالف۔ اسی طرح امارت اسلامیہ افغانستان کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ان کی جانب سے جو شخصیات پاکستان کے بارے نازیبا بیانات دے رہی ہیں، اس سلسلے کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔

دونوں اسلامی ممالک ہیں، دونوں ہمسائے ہیں، اور ہمسائے بدلے نہیں جاسکتے اس لیے بہتر ہے کہ افغانستان کی قیادت دانشمندی کا مظاہرہ کرے اور پاکستان کی مشکلات کو سمجھے اور اپنے معاملات بات چیت سے حل کریں۔

جو وقت کی ضرورت اور دونوں ممالک کے لیے بہتر ہے۔ یہ بات یاد رکھیں پر امن اور خوشحال افغانستان، پاکستان اور پرامن و خوشحال پاکستان افغانستان کے مفاد میں ہے، جب دونوں کے مفاد ایک دوسرے کے امن اور خوشحالی سے جڑے ہیں تو دونوں کو ایک دوسرے کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں