افغان مہاجرین کا معاملہ اتنا سادہ نہیں

حساب کتاب کرنے بیٹھیں تو آج افغانستان کی وجہ سے پاکستان کو خسارہ ہی خسارہ ملا


Editorial November 10, 2023
حساب کتاب کرنے بیٹھیں تو آج افغانستان کی وجہ سے پاکستان کو خسارہ ہی خسارہ ملا (فوٹو: فائل)

وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ افغان عبوری حکومت نے افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے، بدقسمتی سے عبوری افغان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فی صد اور خودکش حملوں میں 500 فیصداضافہ ہوا ہے۔

افغان حکومت کے عدم تعاون کے بعد اب پاکستان نے اپنے داخلی معاملات کو اپنی مدد آپ کے تحت درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم نے انتہائی صائب خیالات کا اظہارکیا ہے، درحقیقت ہمیں افغان پالیسی کے حوالے سے اپنی سمت درست کرنے اور داخلی معاملات میں پائی جانے والی خامیوں پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کا مقدمہ لڑا،سرد جنگ کے دوران پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کی دائیں بازو کی حکمران اشرافیہ،سیاسی اور مذہبی قیادت کا ہرممکن ساتھ دیا ہے۔

افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کی درخواست پر سابق سوویت یونین نے اپنی فوج وہاں بھیجی تب افغان مزاحمت کاروں کی ہر قسم کی مدد کی بلکہ افغان مہاجرین کے لیے پاکستان نے اپنے دروازے کھول دیے، پھر جب امریکا نے افغانستان میں ملاعمر کی سربراہی میں قائم طالبان حکومت کا خاتمہ کیا، تب بھی پاکستان کے پالیسی سازوں نے معاملات کو سدھارنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔

آج اگر افغانستان پر طالبان کی دوبارہ حکومت قائم ہوئی ہے تو اس میں بھی پاکستان کی مدد شامل رہی ہے،لیکن افغانستان کی ہر حکومت نے عالمی سطح پر ہمیشہ مخالفت کی جب کہ داخلی سطح پر بھی پاکستان کے لیے مشکلات و مسائل پیدا کرتی چلی آ رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 22 لاکھ افغان مہاجرین قانونی طور پر موجود اور رجسٹرڈ ہیں۔ اگست2021 ء میں افغانستان پر طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد8 لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان آئے تھے۔

دوسری جانب پاکستان سرکاری طور پر40 لاکھ افغانوں کی موجودگی کی بات کرتا ہے، یہ تو خیر اعداد و شمار کے گورکھ دھندے ہیں جب کہ حقیقی صورتحال بالکل مختلف ہے۔

چھوٹے شہروں کو چھوڑئیے محض کراچی، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ ، چمن، لورالائی، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، گجرانوالہ ، ملتان، فیصل آباد، پشاور، ایبٹ آباد، ہری پور، صوابی، چار سدہ ، سوات، وزیرستان،باجوڑ ، کرم، مہمند، خیبر ، لنڈی کوتل حتیٰ کہ گلگت بلتستان، کوہستان اورچترال میں بھی افغانستان کے لاکھوں باشندے رہائش پذیر ہیں۔

ان لاکھوں کی تعداد میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے پاس کوئی قانونی دستاویز موجود ہیں، کئی لاکھ ایسے بھی ہیں جن کے پاس موجود دستاویز جعلی ہیں۔ یہ غیرقانونی باشندے دہائیوں سے ریاست پاکستان کی ہر سہولت سے مستفید ہورہے ہیں، جن میں روڈ اور ریلوے نیٹ ورک، بجلی، گیس، سرکاری اسپتال، اسکول، کالجز وغیرہ کی سہولتیں شامل ہیں لیکن یہ لوگ ریاست پاکستان کو دے کچھ نہیں رہے۔

نہ کوئی ٹیکس اور نہ کوئی اور ریونیو پاکستان کو ملتا ہے، جب کہ اتنی بڑی تعداد میں رہائش پذیر مہاجرین اور غیر قانونی تارکین کی وجہ سے پاکستان کو دہشت گردی ، جرائم ، معاشرتی مسائل اورمعاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔

پاکستان کی معاشرتی اقدار کو خاصا نقصان پہنچا ہے، چوری، رہزنی،ڈکیتی، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ممنوعہ اسلحے ، گاڑیوں کی اسمگلنگ اور منشیات میں اضافہ ہوا ہے ، ایسے جرائم میں افغانستان کے باشندوں کی اچھی خاصی تعداد ملوث پائی گئی ہے ۔

دہشت گردی کی وارداتوں میں سہولت کاری، مخبری اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی سہولت دینے میں بھی مہاجرین میں شامل لوگوں کا کردار سامنے آیا ہے، ایسے گھرانے بھی ہیں، جن کے کچھ لوگ کابل، جلال آباد، قندھار، اور دیگر شہروں میں اپنے گھروں میں رہے ہیں، وہاں کاروبار یا مزدوری وغیرہ کررہے ہیں،پاکستان میں رہنے والے یہاں سے جو پیسہ کماتے ہیں۔

وہ اپنے گھر والوں کو افغانستان بھیج دیتے ہیں، لاکھوں افغان باشندے جعلی پاکستانی شناختی کارڈز بنا کر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ووٹر بنے ہوئے ہیں، یوں یہ لوگ پاکستان کی سیاست کو بھی برباد اور معیشت کو تباہ کررہے ہیں، پاکستان سے ڈالر سے لے کر آٹا دال تک جو اسمگلنگ اور غیرقانونی دھندہ جاری و ساری ہے۔

افغانستان کی دائیں بازو کی حکمران اشرافیہ انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی آرہی ہے اور پاکستان کے لوگ بھی ان کے پروپیگنڈا سے متاثرہورہے ہیں۔ پاکستان کی گلیاں وبازار، عبادت گاہیں اگر لہو سے لالہ رنگ ہوتی ہیں تو یقیناً اس کے پیچھے مخبری،پیسہ،پناہ گاہ اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں ہوتی ہیں۔

یہ سہولت کاری پاکستان کی سلامتی، معیشت اور عوام کے مفادات کے لیے خطرہ بن چکی ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ساٹھ فی صد نہ صرف اضافہ ہوا، بلکہ متعدد واقعات میں افغان باشندے ملوث پائے گئے، بلاشبہ اِن واقعات کے ذمے داران کسی معافی کے مستحق نہیں، اِنھیں پاکستان میں رہنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔

پاکستان کی معیشت کا انجر پنجر ہل گیا، متشدد سوچ و فکر کو فروغ ملا ہے، ریاستی مشینری کو کمزور کیا گیا ہے، سیاست میں تشدد کو ہوا ملی ہے۔پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوا ہے۔

پاکستان میں ایک طبقے کے مالی اور سیاسی مفادات افغانستان اور افغان باشندوں سے جڑے ہوئے ہیں،پاکستانیوں کا یہ گروہ کبھی مذہب کے نام پر افغان باشندوں کو بھائی قرار دے کر انھیں افغانستان واپس بھیجنے کی مخالفت کررہا ہے، کبھی عالمی قوانین کو دلیل بناکر بات کرتاہے۔

کبھی انسانی حقوق کی آڑ میں بات کرتا اور کبھی سرحد کے آر پار خاندانی رشتوں کی بات کرکے غیرملکیوں کو پاکستان میں رہنے کا جواز مہیا کرتا ہے،طوطی ہفت بیاں یہ ترانے گاتے اور نغمے الاپتے ہیں کہ افغانوں کو مت نکالو۔کیوں؟ کچھ بلبل ہزار داستان اب بھی افسانے سناتے اورکہانیاں کہتے ہیں کہ پاکستان کو افغان مہاجرین کو پناہ دیتے رہنا چاہیے۔

کوئی پوچھے کہ اگر غیرملکیوں کو بلاروک ٹوک پاکستان آنے دیا جائے اور انھیںیہاں قیام کرنے دیا جائے تو خود پاکستانی شہری کدھر جائیں؟شہریت اور شناخت کا مسئلہ اور مہاجرین و پناہ گزین کا معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ تیسری دنیا میں کوئی ریاست اپنے شہریوں کا ہی بوجھ اٹھا لے تو یہی بڑی بات ہے۔ ایک دن پاکستان کو بھی غیرقانونی مقیم افراد کو نکالنا تھا کیونکہ ہر ملک پر پہلا حق اس کے آئینی و قانونی باسیوں کا ہوتا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نیٹو سپلائی کے نام پر پاکستان کی ہر بڑی اور چھوٹی سڑک تباہ ہو کر رہ گئی۔ لاکھوں کی تعداد میں کنٹینر ہماری سڑکوں بلکہ سینے پر مونگ دلتے رہے۔

حساب کتاب کرنے بیٹھیں تو آج افغانستان کی وجہ سے پاکستان کو خسارہ ہی خسارہ ملا۔ کچھ عرصہ قبل یو این ایچ سی آر اور پاکستان نے ملکر افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کا پروگرام بنایا تھا۔ کچھ افغان رضاکارانہ طور پر واپس بھی سدھارے کیونکہ ہر آدمی کو 370 ڈالر دیے گئے تھے۔ چھ، سات افراد کے گھرانے کو تین، تین ہزار ڈالر دیے گئے۔ ہوا یوں کہ افغان مہاجر قانونی طور پر وہ پیکیج لیکر واپس گئے اور پھر غیر قانونی طور پر پلٹ آئے۔

پاکستان کا ایک مخصوص بااثر گروہ ریاستی پالیسی پر اثر انداز ہوکر چالیس سال تک طالبان کو اسٹرٹیجک اثاثہ قرار دیتا رہا، اس فیصلے کی قیمت سو ارب ڈالر کے مالی نقصان کے ساتھ 70 ہزار سے زائد بے گناہ جانوں کے خون سے ادا کرنا پڑی۔ پہلے تو پاکستان دہشت گردی کی آگ میں جلا اب افغانستان سے براہ راست حملوں کا بھی سامنا کررہا ہے۔

افغانستان کا حکمران طبقہ بڑی عیاری کے ساتھ اپنے جرائم کا بوجھ پاکستان پر ڈالنے کا پروپیگنڈا کرتا چلا آرہا ہے حالانکہ اپنے ہی ملک اور اپنے ہی لوگوں کو تباہ کرانے میں ان کا اپنا کردار سب سے زیادہ ہے ۔

سوویت فوج کو بلانے والے ببرک کارمل اور پی ڈی پی کے لیڈر تھے ، اس وقت کی افغانوں پر مشتمل سوشلسٹ حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے بھی افغان تھے ، ترقی پسند افغانوں کو ملحد قرار دینے والے کوئی اور نہیں یہی افغان تھے، امریکا کی مدد قبول کرنے والے بھی افغانستان کے لوگ تھے، اگر حقائق پر گہرائی سے غور کیا جائے تو دائیں بازو کی افغان اشرافیہ اور ان کے ہم خیال پاکستانی دائیں بازو کے طبقے نے پاکستان کی زمین اور وسائل کو افغان جنگ جیتنے کے لیے استعمال کیا۔

آج طالبان عبوری حکومت کو ہم تنبیہ کر رہے ہیںکہ وہ پاکستان کے لیے مسائل پیدا نہ کرے۔پاکستان کو اپنے مفاد میں فیصلہ کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق ہے مگرافغان حکومت اس کی مخالفت کررہی ہے بلکہ ان کے لیڈر دھمکیاں دے کر سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔

دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے وسائل اور رقبے سے بڑھ کر لاکھوں مہاجروںکا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، اس سچائی اور حقیقت کو بھی جاننا اور ماننا پڑے گا کہ کوئی آزاد، مقتدراور مضبوط ملک کمزور یا نرم سرحدیں برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر کسی ریاست کی سرحدیں کمزور، سرحدی قوانین مبہم یا سرے سے موجود ہی نہ ہوں، سیکیورٹی میکنزم ڈھیلا ڈھالا ہو تو اسے مضبوط اور طاقتور ریاست نہیں کہا جاسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں