اپنا تو بن
خود احتسابی دنیا کا مشکل ترین کام ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اُس کی حقیقی اور سچی تصویر دکھاتا ہے
نگاہ عیب گیری سے جو دیکھا اہل عالم کو
کوئی کافر، کوئی فاسق، کوئی زندیق اکبر تھا
مگر جب ہوگیا دل احتساب نفس پر مائل
ہوا ثابت کہ ہر فرزند آدم مجھ سے بہتر تھا
علامہ اقبال کا یہ شعر ہمارے معاشرے پر صادق آتا ہے۔ بحیثیت فرد ہم دوسروں کے محاسبہ کی بات تو ہمیشہ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قریب کی نظر کمزور ہے اور دور کی نظر بہت تیز ہے۔
ہمیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو صاف نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر بالکل نظر نہیں آتا۔ ہماری نظریں دوسروں کے عیب تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہیں لیکن اپنی خامیاں نظر نہیں آتیں۔
اوروں کی بُری بات تو بھاتی نہیں ہم کو
پر اپنی برائی نظر آتی نہیں ہم کو
بھگت کبیر نے اِسی مفہوم کو اپنے دوہے میں اِس طرح پیش کیا ہے۔
بُرا جو دیکھن میں چلا، بُرا نہ مِلیا کوئے
جو مَن کھوجا اپنا، مُجھ سے بُرا نہ کوئے
اِس حوالے سے ایک قصہ ملاحظہ فرمایے۔ ایک گاؤں میں ایک بزرگ ( صاحبِ علم ) رہتا تھا۔ ہزار خوبیوں کے باوجود اُس میں ایک خامی تھی وہ اکثر لوگوں کو گالیاں دیتا تھا۔ لوگوں نے اُس کی شکایت بادشاہ کے وزیر سے کی۔
وزیر اُس بزرگ کے ہاں گیا اور حال و احوال پوچھا اور اُسے بتایا کہ لوگ آپ کی شکایت کر رہے ہیں کہ بزرگ ہو کر گالیاں دیتے ہیں تو بزرگ نے اپنے مخصوص انداز سے جواب دیا۔ '' یہ بات کس نے میرے خلاف کی ہے؟ مجھے بتاؤ میں اس کی ... (یعنی دوبارہ گالی دی)۔ وزیر کی سمجھ میں آگیا کہ واقعی بزرگ گالیاں دیتا ہے مگر پھر بھی اُس نے بزرگ سے کہا ''مجھے آپ کی گفتگو سے پتہ چلا ہے کہ لوگ آپ کی غلط شکایت کر رہے تھے'' اور وہاں سے نکل گیا۔
یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے ہم بطورِ فرد اپنے محاسبہ کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے یا ہم اپنے محاسبہ کو محاسبہ ہی نہیں سمجھتے جب کہ دوسروں کے محاسبہ کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں، اس لیے مجھے ایک قول یاد آتا ہے کہ ہم اپنے لیے وکیل اور دوسروں کے لیے جج بن جاتے ہیں اور ہمیں ہمیشہ دوسروں کی آخرت اور اپنی دنیا کی فکر رہتی ہے۔ساری قوم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امیرِ شہرکا احتساب ہونا چاہیے مگر ایک احتساب اور ہونا چاہیے جو ضمیر کا ہو اور جس کے جج بھی کوئی اور نہیں ہم خود ہوں۔
اب بھی وقت ہے اگر ہم احتساب اپنے آپ سے شروع کریں تو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن ہوگا، ورنہ اللہ نہ کرے کہ آنے والی نسل کا مستقبل تاریک ہو۔کہتے ہیں۔ کسی عجائب گھر میں ایک قدِ آدم تصویر آویزاں تھی، یہ تصویر جھیل کی تھی جس پر پُل بنا ہوا تھا۔ دیکھنے والے آتے، دیکھتے، پھر اس کی خوب صورتی اور حقیقت سے قریب تر ہونے کی داد دیتے۔
بعض لوگ اس جھیل کو حقیقی سمجھ کر پار کرنے کی کوشش بھی کرتے، لیکن بالکل قریب آنے پر اُنہیں احساس ہوتا کہ یہ حقیقی جھیل نہیں، بلکہ تصویر ہے۔ کسی نے یہ بات اس تصویر کے مصور تک پہنچا دی۔ مصور اُداس ہوگیا، کہنے لگا ''افسوس! میری تصویر حقیقت سے زیادہ قریب نہیں ہے، یہ تصویر ایسی ہونی چاہیے تھی کہ جب تک کوئی اسے چھو نہ لے اُسے یقین نہ آئے کہ یہ تصویر ہے یا حقیقت ! اُس نے تصویر کو ازسرِنو بنایا، دن رات محنت کی اورکئی ماہ کی عرق ریزی کے بعد ایسی تصویر تیار کر لی کہ جب تک اسے چُھوا نہ جاتا، کوئی یقین نہ کرتا کہ یہ حقیقت ہے یا تصویر!
مصورکے اپنی غلطی کے احتساب والے اس نظریے کو خود احتسابی یا Self-accountability Censorship کہتے ہیں، یہ ایک بہت مبارک عمل ہے۔ حکیم لقمان سے کسی نے پوچھا کہ '' آپ نے حکمت و دانائی کہاں سے سیکھی؟'' کہنے لگے '' نادانوں سے کہ جب وہ کوئی نادانی والا عمل کرتے، میں فوراً اپنا محاسبہ کرتا کہ کہیں مجھ میں تو یہ عمل نہیں پایا جاتا؟ اگر میرے اندر وہ عادت ہوتی تو میں فوراً اُسے چھوڑ دیتا۔''
خود احتسابی، محاسبہ یا سیلف ٹرائل کی عادت انسان کو بہت فائدہ دیتی ہے، یہ کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ اس کے ذریعے سے ہم اپنے اندر پیدا ہونے والے مثبت یا منفی رجحانات کا پتا لگا سکتے ہیں، اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نگاہ رکھ سکتے ہیں، اپنے اخلاق و کردار کو سنوار سکتے ہیں، لاپروائی کی عادت سے جان چھڑا سکتے ہیں، کیوں کہ بہت سے معاشرتی، معاشی، سماجی، انفرادی اور اجتماعی مسائل کی جڑ لاپروائی ہی ہے۔
خود احتسابی سے محروم شخص ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا، کیوں کہ اسے اپنی کمی کوتاہیوں کا علم نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور وہ سابقہ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ سکتا۔
خود احتسابی دنیا کا مشکل ترین کام ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اُس کی حقیقی اور سچی تصویر دکھاتا ہے، اسے اس کے بھیانک روپ سے متعارف کراتا ہے اور اس کی سستی وکاہلی، تن آسانی و آرام طلبی اور تغافل و تساہل کو توڑدیتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنے اہداف ومقاصد اور منزل و راہِ عمل متعین کرکے خود احتسابی کرتا ہے، کامیابیاں اس کے قدم چومتیں اور رفعتیں اس کا پتا ڈھونڈتی ہیں۔ ہمارا مذہب اسلام ہمیں خود احتسابی کا درس دیتا ہے۔
اس کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ آخرت بھی ہے، جس کا دوسرا نام ہم خود احتسابی کا عقیدہ بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس عقیدے کا ماحصل یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال پر نظر رکھیں، گاہے بہ گاہے ان کا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ کہیں ہم اپنے خالق کی مرضی کے خلاف تو نہیں چل رہے؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں فوراً توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرنا ہوگا، ورنہ آخرت میں ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے۔
'' عقل مند وہ آدمی ہے جو اپنے نفس کا خیال رکھے۔''
امام ترمذیؒ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ '' جو شخص قیامت سے پہلے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کر لے، وہ عقل مند انسان ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
''حساب لیے جانے سے پہلے پہلے اپنا حساب کر لو، کیوں کہ جس شخص نے دنیا میں اپنا محاسبہ کر لیا، روزِ قیامت اس کا حساب آسان لیا جائے گا۔''
حضرت میمون بن مہران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ '' بندہ اس وقت تک پرہیزگار نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے نفس کا محاسبہ اُس طرح نہ کر لے جس طرح اپنے شریک کا کرتا ہے کہ اس نے کہاں سے کھایا اورکہاں سے پہنا؟ ''محاسبہ اور خود احتسابی محض شرعی اعمال میں ہی مطلوب نہیں، بلکہ دیگر امور میں بھی مطلوب ہے، یعنی اخلاق و کردار، کاروبار و حکومت، تقریر و تحریر، حقوق و فرائض، دوستی و دشمنی، محبت و نفرت، مرض و شفائ، نیکی اور بدی، غرض ہر امر میں محاسبہ نفس ضروری ہے، کیوں کہ یہی چیز ترقی کی ضامن اور اس سے محرومی تنزلی کا باعث بنتی ہے۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ '' سب سے عظیم انسان وہ ہے جو اپنے آپ کے ساتھ مناظرہ کر کے سچا ہو جائے۔''
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن