سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور
ووٹرز سمجھتا ہے کہ فلاں جماعت کا انتخابی منشور ان کے مسائل کے حل کا احاطہ کرتا ہے
انتخابی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی سطح پر بننے والے انتخابی منشور کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ کیونکہ جمہوری معاشروں میں ووٹرز کے پاس یہ ہی چوائس ہوتی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ان انتخابی منشور کا جائزہ لے کر ان کو ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔
ووٹرز سمجھتا ہے کہ فلاں جماعت کا انتخابی منشور ان کے مسائل کے حل کا احاطہ کرتا ہے اور اسی جماعت کو ووٹ دینا اس کے اپنے سیاسی مفاد میں ہوگا ۔ اسی بنیاد پر انتخابی مہم میں جہاں سیاسی جماعتوں کی سطح پر، وہیں رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں یا میڈیا کی سطح پر جو بڑے بڑے اہم سیاسی مباحثہ ہوتے ہیں ان میں انتخابی منشور کا تجزیہ پیش کرکے ووٹرز کی تربیت کی جاتی ہے ۔
یہ انتخابی منشور ہی ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر اقتدار میں رہنے والی جماعت اپنی سابقہ کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہے اور اس کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر ووٹرز ان کو ہی دوبارہ ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتا ہے ۔
جمہوری معاشروں میں سیاسی قیادتیں میڈیا میں آکر ووٹرز کے سامنے اپنے انتخابی منشور پر جوابدہ ہوتی ہیں اور مختلف شعبوں کے ماہرین انتخابی منشور پر سیاسی قیادتوں سے مکالمہ کرتے ہیں اور ان منشور کے اچھے اور یا کمزور پہلوؤں کی عوام کے سامنے نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ ہی جمہوری سیاست کا حسن ہوتا ہے کہ جہاں ووٹرز اور سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی برتری کا مقابلہ ہوتا ہے اور سیاسی جماعتوں کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے ۔
ہمارے انتخابی منظر نامہ یا انتخابی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہاں انتخابی منشور کی بنیاد پر انتخابی سیاست کو کبھی برتری نہیںمل سکی ۔یہاں انتخابی منشور محض سیاسی ضرورت بن کر رہ گیا ہے جو سیاسی جماعتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ انتخابات سے قبل اپنا اپنا انتخابی منشور الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں ۔ یہاں انتخابی مہم اور سیاست میں انتخابی منشور کبھی ایک بڑی سیاسی بحث کا حصہ نہ بن سکا۔
ہماری انتخابی مہم کو دیکھیں تو اس میں انتخابی منشور کے مقابلے میں ہمیشہ سے محاذ آرائی ، ٹکراؤ ، نفرت، الزام تراشی، کردار کشی اور اپنے اپنے سیاسی مخالفین کو ملک دشمن ، غدار یا ان کی ملک سے وفاداری کو ہر سطح پر چیلنج کیا جاتا ہے ۔سیاسی جماعتوں کا انتخابی منشور ان ہی الزامات کے گرد گھومتا ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے سیاسی مخالفین کی ان ہی بنیادوں پر مخالفت کرتی ہیں ۔
یہ الزام تراشیوں کا سلسلہ اوپر سے شروع ہوکر نیچے کی سطح پر سیاسی کارکنوں تک جاتا ہے جہاں انتخابی مہم انتخابی منشور کی بجائے الزامات اور کردار کشی کے گرد ہی گھومتی ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں یا جو بھی جماعت حزب اختلاف کی سیاست کا حصہ بنتی ہیں ہمیں ان کی مجموعی سیاسی فکر اور سیاست میںکہیںبھی منشور سے جڑی سیاست نظر نہیں آتی ۔ اقتدارمیں رہنے والی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد بہت سے ایسے اقدامات میں زیادہ پرجوش اور سرگرم نظر آتی ہیں جو ان کے انتخابی منشور کا کہیں بھی حصہ نہیں ہوتے۔
دراصل ہماری قومی سیاست یا اقتدارکی سیاست میں '' ردعمل کی سیاست '' کو کافی غلبہ حاصل ہے۔ ہم معاملات کوطے کرتے ہوئے بہت زیادہ غوروفکر یا سیاسی جماعتوں کی سطح پر پہلے سے کیے گئے ہوم ورک کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھتے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیںسیاسی جماعتوں کی سطح پر اختیار کی جانے والی پالیسیوں ، قانون سازی یا عملی اقدامات میں زیادہ گہرائی نظر نہیں آتی۔
سیاسی جماعتیں انتخابی منشورمیں بہت بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں یا عوام کے ساتھ اپنی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن جب بھی ان کو اقتدار ملتا ہے تو وہ ایسی اصلاحات کو نظرانداز کردیتی ہیں یا وہ ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں بنتے جو ریاستی یا حکومتی نظام میں ناگزیر سمجھے جاتے ہیں ۔
ان کے مقابلے میں روزمرہ کی بنیاد پر ایسے کاموں پر توجہ دی جاتی ہے جو پاپولر سیاست سے جڑی ہوں یا انتظامی ڈھانچوں تک خود کو محدود رکھا جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اقتدار کی سیاست کے باوجود نہ تو پاکستان بدلتا ہے اور نہ پاکستان میں رہنے والے عام یا کمزور سطح پر موجود افراد کے حالات بدلتے ہیں ۔
سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور کو اس لیے بھی زیادہ بحث و مباحثہ کا حصہ نہیں بناتیں کیونکہ ایسی صورت میںان کو ووٹرز میں اور دیگر طبقات میں بھی جوابدہ ہونا پڑتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں سے جب ان کے انتخابی منشور پر بات کی جائے اور پوچھا جائے کہ اس پر عملدرآمد کیونکر نہیں ہوسکا تو وہ اپنی داخلی ناکامی کو قبول کرنے کی بجائے یا تو اسے سیاسی مخالفین یا اسٹیبلیشمنٹ پر ڈال کر خود کو بری الزمہ بنا کر پیش کرتی ہیں ۔
انتخابی منشور کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں سے منتخب ہونے والے افراد یا ان کی جماعت میں شامل اہم سینئر قیادت سے بھی پوچھا جائے کہ وہ اپنے انتخابی منشور کے چند بڑے نکات سب کے سامنے پیش کریں تو ان سے یہ ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب انتخابی سیاست اور انتخابی منشور دو مختلف چیزیں ہونگی تو ان کی سیاسی ہم آہنگی کیسے پیدا ہوسکتی ہیں ۔
میڈیا میں بھی جو انتخابی مہم کی جھلک نظرآتی ہے اس پر سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کا غلبہ ہوتا ہے اور بہت کم ہم انتخابی منشور کی بحثیں دیکھتے ہیں ۔ سول سوسائٹی کی سطح پر بھی وہ سیاسی مہم جوئی یا انتخابی مہم کا رنگ غالب ہوتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری سول سوسائٹی بھی سیاست کی نذر ہوگئی ہے ۔
علمی و فکری مجالس یا اعلی تعلیمی اور تحقیقاتی اداروں کی سطح پر اول تو انتخابی منشور کی سیاست یا ان کے تجزیہ پر کوئی کام نہیں ہوتا اور اگرکہیںکام ہوتا ہے تو وہ کسی بڑی بحث کا حصہ نہیں بن پاتا۔یہ واقعی ہماری سیاسی اور جمہوری سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں انتخابی سیاست کو انتخابی منشور کے دائرہ کار میں نہیں لایا گیا اور اس کی ذمے دار کوئی ایک فریق نہیں بلکہ تمام فریقین کسی نہ کسی شکل میں اس کے ذمے دار ہیں ۔
عام انتخابات8فروری 2024کو ہونے ہیں ۔ ایک بار پھر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انتخابی منشور کا سیاسی ڈرامہ رچاکر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گی ۔
اس میں خوش نما نعرے ہونگے اور بڑے بڑے دعوے کیے جائیں گے لیکن عملی سیاست یا انتخابی مہم اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف الزام تراشیوں کی بنیاد پر ہی چلائی جائے گی۔اس وقت جو سیاسی منظر نامہ ہے سیاسی اختلافات میں سیاسی دشمنی کا غلبہ ہے وہاں انتخابی مہم میں ہم انتخابی منشور کی سیاست اور اس کی بالادستی کی جنگ کو تقویت نہیں دے سکیں گے اور یہ ہی ہماری قومی سیاست کا بڑا المیہ ہوگا۔