صبر و برداشت
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے)مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
مصائب و آلام، مصیبتوں اور پریشانیوں پر شکوہ کو ترک کر دینا صبر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صبر کرنا مشکل کام ہے کیوں کہ اس میں مشقت اور کڑواہٹ پائی جاتی ہے۔
صبر کی اس تلخی کو ختم کرنے کے لیے ایک اور صبر کرنا پڑتا ہے جسے مصابرہ کہتے ہیں۔ جب بندہ مصابرہ کے درجے پر پہنچتا ہے تو پھر صبر کرنے میں بھی لذت محسوس کرتا ہے۔
اس کی مثال حضرت ایوبؑ اور حضرت ابراہیمؑ کا صبر ہے۔ صبر ایک عظیم نعمت ہے جو مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ صبر مقاماتِ دین میں سے اہم مقام ہے اور اﷲ تعالی کے ہدایت یافتہ بندوں کی منازل میں سے ایک منزل اور اولوالعزم کی خصلت ہے۔ خوش قسمت ہے وہ شخص جس نے تقوی کے ذریعے ہوائے نفس پر اور صبر کے ذریعے شہواتِ نفس پر قابو پا لیا۔
صبر کی اہمیت و افادیت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ اﷲ رب العزت نے اپنے ہاں اس کا بے حساب اجر رکھا ہے۔ آج کا انسان دین سے دوری کی وجہ سے رب تعالی کی حضوری، ایمان بالغیب یعنی مرنے کے بعد کی دنیا، قیامت، یومِ حساب اور جنت و دوزخ وغیرہ کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا سب کچھ اس دنیا میں پورا کرنا چاہتا ہے۔
اگر ہم خالقِ کائنات کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس دنیا میں صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بہ خود ہی حل ہو جائیں گے۔
کیوں کہ انسان معاشرے یا خاندان میں جس بھی حیثیت یا عہدے پر ہے، ضروری نہیں کہ وہاں سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہو جیسا وہ چاہتا ہے۔ جب کوئی کام انسان کی مرضی و منشا کے خلاف سرزد ہو تو یقیناً انسان غصے میں آتا ہے اور بعض اوقات غصے سے مغلوب ہو کر اس سے کچھ ایسی حرکات سرزد ہو جاتی ہیں جو اس کی شخصیت کو داغ دار بنا دیتی ہیں۔
گویا گھر کے ایک عام فرد سے لے کر معاشرے کے ایک اہم رکن تک اور کسی بھی ادارے کے ایک عام فرد سے لے کر سربراہ تک ہر شخص کو خلافِ طبع و خلافِ معمول امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کام یاب اس شخص کو گردانا جاتا ہے جس کی پریشانیوں سے دوسرے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ مشکلات کو بھی ہنس کر برداشت کرنا جانتا ہے اور ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو صبر کی دولت سے لبریز ہو۔
صبر صرف مشکلات پر نہیں ہوتا بل کہ امورِ اطاعت و فرماں برداری میں بھی صبر ہوتا ہے۔ آج صبر کی اس اہمیت اور اس کی صداقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس معاشرے کو خوب صورت بنانے کے ساتھ اپنی دنیا و آخرت بھی سنوار سکیں۔
صبر: قرآن پاک کی روشنی میں:
اﷲ رب العزت نے صبر سے مدد لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ''اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔'' (سورۃالبقرہ)
آزمائش پر صبر اﷲ تعالی کی بشارت کا ذریعہ ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر ان مشکلات کو اﷲ تعالی کی رضا کے لیے برداشت کر لیا جائے تو ایسے صبر والوں کو اجر کی خوش خبری اﷲ خود دیتا ہے۔
ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ''اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیبؐ) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیں۔ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک! ہم بھی اﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔'' (سورۃ البقرہ)
سورہ رعد میں رب کی رضا جوئی کے لیے صبر کرنے والوں کو آخرت میں حسین گھر کی خوش خبری دی گئی ہے، مفہوم: ''اور ہم نے اسے دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرمائی، اور بے شک! وہ آخرت میں (بھی) صالحین میں سے ہوں گے۔''
سورہ الانبیاء میں ارشاد فرمایا: ''اور اسمٰعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو بھی یاد فرمائیں، یہ سب صابر لوگ تھے۔'' اﷲ تعالی نے سچے پرہیزگاروں اور شدائد و آفات میں صبر کرنے والوں پر صبر کی شرط لگائی اور صبر کے ذریعہ ہی ان کی صداقت و تقوی کو ثابت کیا۔
صبر: احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اپنے متعدد ارشادات میں صبر کی اہمیت و فضیلت کو واضح فرمایا ہے۔
صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے، حضرت سعدؓ روایت کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے؟
آپؐ نے فرمایا: انبیا ئے کرامؑ کی، پھر درجہ بہ درجہ اﷲ تعالی کے مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام و مرتبہ (یعنی ایمانی حالت) کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین اور ایمان میں مضبوط ہو تو آزمائش سخت ہوتی ہے، اگر دین اور ایمان میں کم زور ہو تو آزمائش اس کی دینی اور ایمانی حالت کے مطابق ہلکی ہوتی ہے۔ بندے پر یہ آزمائشیں ہمیشہ آتی رہتی ہیں حتی کہ (مصائب پر صبر کی وجہ سے اسے یوں پاک کر دیا جاتا ہے) وہ زمین پر اِس طرح چلتا ہے کہ اس پر گناہ کا کوئی بوجھ باقی نہیں رہتا۔
دل کا پھل
اولاد بڑی نعمت ہے ، اولاد کے ساتھ انسانی زندگی کی رونق بحال ہو جاتی ہے اور گویا جینے کا مقصد مل جاتا ہے مگر جب کسی وجہ سے اولاد چھن جائے تو انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے۔
اس مشکل وقت میں صبر کرنے والے کے بارے میں مسند احمد اور سنن ترمذی کی یہ روایت پیش ہے جس میں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جب کسی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اﷲ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے نہایت پیارے بیٹے کی روح قبض کرلی؟ وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل قبض کیا؟ وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے اس پر کیا کہا؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس نے تیری حمد کی اور کہا: بے شک! ہم بھی اﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے: اس کے لیے جنت میں ایک مکان بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد (تعریف والا گھر) رکھ دو۔
صبر کہنے کو تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا مشکل کام ہے۔ حضور نبی اکرمؐ نے آج کے دور کو مدِنظر رکھتے ہوئے صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: تمہارے بعد ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا دہکتے کوئلے کو مٹھی میں پکڑنے کے مترادف ہے اور ایسے زمانے میں صبر کرنے والے کو اس جیسا عمل کرنے والے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا۔ دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے کہ صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا کہ پچاس اس کے زمانے کے یا ہمارے زمانے کے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں بل کہ آپ کے زمانے کے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا۔
حضرت عبداﷲ بن جعفرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ حضرت یاسرؓ، عمار بن یاسرؓ اور ام عمارؓ کے پاس سے گزرے، جب انہیں اذیت دی جا رہی تھی تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :اے ابویاسر و اہلِ یاسر! صبر کرو، بے شک! آپ کی جزا اور بدلہ جنت ہے۔ (مسند احمد)
امام قشیری رسالہ قشیریہ میں حضرت علیؓ کا قول نقل کرتے ہیں، آپؓ نے فرمایا: ''ایمان میں صبر کا وہی مقام ہے جو بدن میں سر کا ہوتا ہے، بغیر سر کے جسم ہلاک ہو جاتا ہے۔ پھر آپؓ نے بہ آوازِ بلند فرمایا کہ جس کا صبر نہیں اس کا ایمان نہیں۔ صبر ایسی سواری ہے جو کبھی نہیں بھٹکتی۔'' (امام غزالی، احیا ء علوم الدین)
حضرت ابو علی الدقاق نے فرمایا: صابرین دونوں جہانوں میں عزت کے ساتھ کام یاب ہوئے کیوں کہ انہوں نے اﷲ تعالی کی معیت حاصل کرلی۔ بے شک! اﷲ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (ابن القیم، مدارج السالکین)
حضرت ابو حامد بلخیؒ نے فرمایا: جس نے صبر پر صبر کیا (یعنی صبر کر کے اسے ظاہر بھی نہ ہونے دیا کہ وہ مصائب پر صبر کر رہا ہے) وہی صابر ہے نہ کہ وہ شخص جس نے صبر کیا اور (صبر کا اظہار کر کے) شکوہ بھی کر دیا۔ (امام شعرانی، الطبقات الکبری)
صبر کی شرائط میں سے ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم کیسے صبر کریں گے، کس کے لیے صبر کریں گے اور صبر سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ صبر کے لیے ہمیں نیت کو درست کرنا اور اس میں اخلاص لانا ہوگا ورنہ ہمارے اور جانور کے صبر میں کوئی فرق نہیں ہوگا کیوں کہ اس پر جب مصیبت آ جاتی ہے تو وہ بھی برداشت کرتا ہے مگر اسے اس بات کا پتا نہیں ہوتا کہ ا س پر مصیبت کیوں نازل ہوئی اور اس سے کیسے نمٹنا ہے اور اس کا کیا فائدہ ہو گا۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین