امریکا‘ ماحولیات کا دشمن
سائنسدانوں کے مطابق ماحول کی تباہی میں سب سے زیادہ کردار جنگ کے دوران ہونے والی تباہی ادا کرتی ہے
COP 27(Egypt 2022), UN Ocean conference Portugal, Collision Conference,WEB 2021, COP-26 IUCN-world Summit,Conservation Conference.ICSE-2022-Ind
یہ ان چند کانفرنسوں کی فہرست ہے 'جو عالمی ماحولیات کے بارے میں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔
ویتنام جنگ کے بعد حربی اخلاقیات کے بین الاقوامی ضوابط میں اضافہ کیا گیاکہ دوران جنگ ماحولیات کی بربادی کو بھی جنگی جرم مان کر ذمے داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
بس یہی پیغام عام کرنے کے لیے اقوام متحدہ گزشتہ 22سال سے ہر چھ نومبر کو ماحولیات کو جنگ و جدل کے اثرات سے بچانے کی آگہی کا خصوصی دن مناتی ہے 'یہ شکایت عام ہے کہ عالمی ماحولیات کو خراب کرنے والے عناصر میں سب سے اہم امریکا کی کارروائیاں ہیں'اس اہم عنصر پر کہیں بھی بحث نہیں ہوتی 'آج ماحولیات کو خراب کرنے میں امریکی کردار کا جائزہ لیں گے۔
2009 میںکوپن ہیگن(ڈنمارک) میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس منعقد ہوئی تھی 'اس کانفرنس میں عالمی ماحولیات کو تباہ کرنے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر خطرناک گیسوں کے اخراج میں کمی کے مسئلے پر بات چیت ہوئی 'آج دنیا کو سب سے بڑا مسئلہ ماحولیات کا درپیش ہے 'دنیا کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔
دنیا کے کچھ ممالک پر الزام ہے کہ وہ صنعتی ترقی کے لیے بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کرنے والا مواد استعمال کر رہے ہیں'جس سے گرین ہاؤس گیسیں پیدا ہو رہی ہیں'یہ گیسیں وغیرہ فضاء میں ایک چادر سی بنا لیتی ہیں' جس کی وجہ سے زمین کی حرارت فضاء میں تحلیل نہیں ہوتی 'اس طرح کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
اس کانفرنس میں 192ممالک کے 1500سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی'100سے زیادہ ممالک کے سربراہان مملکت کی شرکت سے اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے 'اسی طرح باہر سڑکوں پربھی ایک لاکھ سے زیادہ مظاہرین ترقی یافتہ ممالک کی منافقانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے 'اتنی اہم کانفرنس میں جہاں ہر اس چیز پر بحث ہوئی جس کی وجہ سے ماحول خراب ہو رہا ہے۔
وہاں پرایک اہم ترین عنصر کا ذکر نہیں کیا گیا' یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ماحولیاتی گندگی پھیلانے والے عنصر کا ذکر نہ کیا جائے 'یہ ادارہ جو دنیا میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری زہریلی گیس پیدا کر کے عالمی ماحول کو تباہ کر رہا ہے 'یہ امریکا کی وزارت دفاع پینٹاگون (Pentagon) ہے۔
پنٹاگون جیومیٹری میں اس شکل کو کہتے ہیں جس کے پانچ ضلعے ہوں' قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ بتادوں کہ چونکہ امریکی وزارت دفاع کی عمارت کی شکل مخمس (پانچ ضلعے)ہے اس لیے اس عمارت کو اور اس کے حوالے سے امریکی وزارت دفاع کے مرکزی دفاتر کو پینٹاگون کہتے ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ تیل 'اس کی مصنوعات اور توانائی استعمال کرنے والا ادارہ پینٹاگون ہے 'اس کے باوجود یہ عجیب بات ہے کہ تمام عالمی ماحولیاتی کانفرنسوں میں اس ادارے کے کردارپر دبیز پردے پڑے ہوتے ہیں'ماحولیات کے بارے میں تمام عالمی معاہدوں میں اس ادارے کی کارکردگی کو استشناء حاصل ہے۔
پینٹاگون کی عراق 'افغانستان میں جنگی کارروائیاں اور پاکستان میں اس کی خفیہ سرگرمیاں 'دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس کے 1000 فوجی اڈوں میں اس کے آلات'امریکی سرزمین پر اس کی 6000تنصیبات 'ناٹو کے تمام آپریشن'اس کے دیوہیکل طیارہ بردار بحری جہاز'جیٹ ہوائی جہاز'ہتھیاروں کی آزمائشیں 'ان کی فروخت اور ان پر فوجیوں کی ٹریننگ کے دوران گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کبھی بھی امریکی حکومت کے کھاتے میں نہیں ڈالا گیا۔
17فروری 2007کے انرجی بلیٹن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں پنٹاگون تیل استعمال کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے 'اس بلیٹن میں پنٹاگون کے ہوائی جہازوں 'بحری جہازوں' گاڑیوں اور تنصیبات میںاستعمال ہونے والے تیل کی تفصیل دی گئی ہے 'آج سے دس سال قبل' امریکی نیوی کے پاس285 جنگی اور امدادی بحری جہاز تھے۔
4000 زیر استعمال ہوائی جہاز تھے' امریکی فوج کے پاس 28000آرمرڈ گاڑیاں تھیں'140,000کثیر المقاصد ہموی (HMWV)گاڑیاں ان کے زیر استعمال تھیں۔ 4000سے زیادہ جنگی ہیلی کاپٹر'کئی سو دوسرے ہوائی جہاز'187,497گاڑیوں کا بیڑا' 80عدد ایٹمی طاقت سے چلنے والی آبدوزیں اور بڑے بڑے بحری جہاز(Aircraft carriers) جن پر ہوائی جہاز اڑتے اور اترتے ہیں'یہ ہر وقت ریڈیو ایکٹیو ایٹمی مواد فضاء میں خارج کرتے رہتے ہیں' ان کے علاوہ فوج کے دیگر ہزاروں گاڑیاں تیل استعمال کرتے رہتے ہیں۔ CIAکی 2006 کی (World Fact Book)کے مطابق دنیا میں 210 ممالک ہیں۔
ان ممالک میں صرف 35ممالک ایسے ہیں جو ایک دن میں پنٹاگون سے زیادہ تیل استعمال کرتے ہیں' امریکی فوج 'سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک دن میں 320,000 بیرل تیل استعمال کرتی ہے 'ان میں تیل کی وہ مقدار شامل نہیں جو امریکی فوج کے ساتھ منسلک ٹھیکیدار یا لیز پر اور نجی ادارے مختلف پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں'مہلک ہتھیاروں'بموں اور گرینیڈوں اور میزائلوںکی تیاری اور ان کی آزمائشوں کے دوران استعمال ہونے والی بے تحاشا توانائی اور وسائل اس کے علاوہ ہیں۔
آئل چینج انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر(Steve Kretzmann)کی رپورٹ کے مطابق ''عراق کی جنگ کے دوران مارچ 2003سے دسمبر 2007تک فضاء میں 141ملین میٹرک ٹن (MMTCO2e)کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوا۔ ''تمام ممالک کے کل گیسوں کے اخراج کے 60فی صد تک کا اخراج ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں جنگ ہو رہی ہو۔
سائنسدانوں کے مطابق ماحول کی تباہی میں سب سے زیادہ کردار جنگ کے دوران ہونے والی تباہی ادا کرتی ہے 'امریکا کے قوانین کے مطابق جنگ زدہ علاقوں میں خطرناک گیسوں کے اخراج کی پیمائش کی ممانعت ہے 'اس لیے سائنسدانوں کو یہ اعداد و شمار جمع کرنے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔