ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت ہے ایس آراو کلچر ختم کیا جائے

امن وامان کی صورتحال میں بہتری اور توانائی بحران پر قابو پاکر ہی معاشی ترقی ممکن ہے، تاجر برادری اور صنعت کاروں کی۔۔۔


امن وامان کی صورتحال میں بہتری اور توانائی بحران پر قابو پاکر ہی معاشی ترقی ممکن ہے، تاجر برادری اور صنعت کاروں کی ایکسپریس فورم میں بجٹ تجاویز۔ فوٹو : فائل

بجٹ کی آمد آمد ہے، بجٹ کا سرکاری اعلان ہونے سے قبل ہی ایک عام آدمی سے لیکر تاجر برادری، اسٹاک ایکسچینج کے ممبران، صنعتکار، مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کو جہاں معیشت میں بہتری اور اپنے اپنے شعبوں کے حوالے سے مثبت اقدامات کی توقعات ہوتی ہیں وہیں بہت سے خدشات بھی لاحق ہوجاتے ہیں کہ کہیں حکومتی فیصلے سے ان کے شعبے کو خسارے کا سامنا نہ کرنا پڑے جو کہ مجموعی طور پر معیشت کیلیے بھی نقصان دہ ہوگا۔

نیا بجٹ کیسا ہونا چاہیے؟ وہ کون سے اقدامات یا فیصلے ہیں جن کی وجہ سے صنعتکار و تاجر برادری مطمئن ہوکر کام کرسکے ؟ ، قومی معیشت کے سدھار کے لیے کیا چیز اہم ہے؟، یہ اور ایسے ہی متعدد سوالات کے جواب جاننے کے لیے ہم نے تاجر برادری، صنعتکاروں، ایوان تجارت کے نمائندوں اور مختلف تجارتی شعبوں کی شخصیات کو ''ایکسپریس فورم ''میں مدعو کیا، اس موقع پر انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، حکومت کو آئندہ بجٹ کے حوالے سے بہت سی تجاویز دیں، اور معیشت کی بہتری کے لیے پالیسیوں اور فیصلوں کا ذکرکیا، ایکسپریس فورم کی روداد نذر قارئین ہیں۔

زکریا عثمان

ہماری رائے میں جو بھی شخص اس ملک میں کماتا ہے اسے بہرصورت ٹیکس دینا چاہیے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ ٹیکس کے نفاذ اور وصولیوں کو ایک شفاف سسٹم کے دائرہ کار میں لایا جائے، عجلت میں فیصلے نہ ہوں۔ انڈرانوائسنگ، مس ڈیکلریشن اور اسمگلنگ سے بچنے کے لیے ایس آر او کلچر سے نجات حاصل کرنا ہوگی کیونکہ نت نئے ایس آر اوکے اجرا اور بعدازاں ترامیم کے ذریعے مختلف شعبوں اور افراد کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت ایسے اقدامات کرے جن کے تحت ریونیو افسران اور تاجروں کے درمیان موجود حاکم و محکوم کا رشتہ ختم ہوجائے۔ایف پی سی سی آئی نے تاریخ میں پہلی مرتبہ رواں سال حکومت کو ایک شیڈو بجٹ مرتب کرکے دیا ہے جس میں تمام امور اور شعبوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے اور یہ شیڈوبجٹ کہنہ مشق ماہرین کی طویل مشاورت کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔



شیڈو بجٹ میں دفاعی بجٹ میں بھی اضافے کی تجویز ہے، اب دیکھتے ہیں کہ حکومت شیڈوبجٹ میں پیش کی گئی تجاویز پر کتنا عمل کرتی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہم حکومت کو 17 فیصد ٹیکس دیتے ہیں جبکہ حکومت کہتی ہے کہ اسے صرف 4 فیصد ملتا ہے تو باقی 13 فیصد کہاں جاتا ہے؟ بجٹ میں کچھ ایسی حکمت عملی بنائی جائے کہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہر فرد ٹیکس دے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ 27 لاکھ افراد میں سے 10 فیصد بھی ٹیکس نہیں دے رہے، حکومت ٹیکس میں اضافے کے بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی پالیسیاں لائے جبھی قومی معاشی صورتحال بہتر ہوگی۔ جن 7 سیکٹرز پر 8,8 فیصد سیلز ٹیکس لیا جارہا ہے، اس اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔ ہماری تجویز ہے کہ جن سیکٹروں سے3.9 فیصد مل رہا ہے ، ان سے 5 فیصد لے لیں۔ امن وامان کی ابتر صورتحال اور توانائی کے بحران نے بھی ہمیں گھیراہوا ہے، بجٹ میں اس صورتحال پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں کے لیے امتیازی قوانین بھی صحیح نہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ صنعتوں کے لیے ایوب خان کے دورمیں پالیسیاں بنیں ، اس کے بعد سے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔

عبداللہ ذکی

سب سے پہلے تو ہم سمجھتے ہیں کہ معاشی و اقتصادی پالیسیوں پر عملدرآمد سے قبل متعلقہ ایوان تجارت کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ کراچی چیمبر کی تجویز ہے کہ کسٹمز ٹیرف کو نیچے لانے کی ضرورت ہے ۔ آئندہ بجٹ کے حوالے سے ہماری حکومت کو سب سے اہم تجویز تو یہی ہے کہ سیلز ٹیکس کی شرح کو سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے جو ابتدائی 3 سال کے لیے5 تا 8 فیصد ہو۔ ایف بی آر کی جانب سے تاجربرادری کو ٹیکس کے حوالے سے ہراساں کرنے کا عمل بھی روکنا بہت ضروری ہے۔

ان غلط اقدامات کی وجہ سے وہ لوگ بھی خوفزدہ اور دلبرداشتہ ہورہے ہیں جو ٹیکس نیٹ میں آنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایوان تجارت کراچی کی تجویز ہے کہ صنعتوں کے لیے خام مال کے کمرشل امپورٹرز اور انڈسٹریل امپورٹرز کے درمیان ٹیکس وڈیوٹیوں کے 4.5 فیصد کے نمایاں فرق کو ختم کیا جائے اوردونوں شعبوں کو کاروبار کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں کیونکہ اس نمایاں فرق سے بے قاعدگیاں اور کرپشن کو فروغ مل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں فنشڈ پروڈکٹس کے امپورٹ ٹیرف میں کمی کی جائے بشمول سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس اور انکم ٹیکس کے، زیادہ سے زیادہ ٹیکس 35 فیصد ہونا چاہیے جو فی الوقت 65 تا70 فیصد ہے۔ ہماری وزیر خزانہ سے بھی ملاقات ہوئی جس میں پورے ملک کے چیمبر آف کامرس کے نمائندے موجود تھے۔



ہم نے وزیر خزانہ اسحق ڈار کو تجاویز دے دی ہیں، امید ہے کہ حکومت ان تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنائے گی۔ ہم نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ سیلز ٹیکس جس کی موجودہ شرح 17 فیصد ہے، اسے کم کرکے12.5 فیصد تک لایا جائے۔

لاکھوں لوگوں نے اپنے ٹیکس ریٹرن میں ایک پیسہ جمع نہیں کرایا جو سنگین جرم ہے، ہم نے بجٹ کے حوالے سے بہت سی تجاویز وزیر خزانہ کو دی ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ کیا عمل ہوتا ہے۔ ہم نے تجویز دی ہے کہ 20,20 لاکھ کے ریفنڈ واپس لیے جائیں، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے انفرااسٹرکچر، پانی، بجلی و گیس نہیں ہے، تاجر اور صنعتکار اس حوالے سے بہت پریشان ہیں، ایسی صورتحال میں ٹیکس نہیں ٹیکس نیٹ بڑھانے کا سوچنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے امپورٹڈ آئٹمز پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور آڈٹ نہ کرنے کی بات کی تھی لیکن عمل نہیں ہوا، اس وجہ سے بھی حکومت اور تاجر برادری میں اعتماد کی کمی ہے۔

ہماری تجویز ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے تاجر برادری کو ہراساں کرنے کا طریقہ کار بھی ختم ہونا چاہیے، اگر کوئی کارروائی کرنی بھی ہے تو متعلقہ تاجروں کو مناسب وقت دیا جائے اور چیمبر کو بھی اپنے ساتھ رکھا جائے تاکہ جو بھی معاملات ہیں ان کی متعلقہ چیمبر کو بھی خبر ہو۔ سب ساتھیوں کی طرح ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایس آر او زایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کی وجہ سے بھی حکومت کے قول و فعل میں تضا د نظر آتا ہے، ایس آر اوز کا معاملہ فی الفور حل کیا جانے چاہیے اور یہ اسی طرح حل ہوسکتا ہے کہ ایس آر او کلچر مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔

عقیل کریم ڈھیڈی

میں سمجھتا ہوں کہ حکومتی پالیسی کو کسی صورت ناکام قرار نہیں دیا جاسکتا، برائی یہ ہے کہ اقدامات کے باوجود ٹیکس وصولی ایسی نہیں ہورہی جیسی ہونی چاہیے جس کی بنیادی وجہ کرپٹ نظام ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ آئندہ بجٹ میں بلیک منی کو وائٹ منی بنانے کے ذرائع ختم کردیے جائیں، اس طرح قومی معیشت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ کیپٹل گینز ٹیکس صرف ملک کے ایک فیصد لوگوں پر لاگو ہے جس میں اصلاح کی ضرورت ہے، حقیقت یہ ہے کہ حصص کی تجارت پر کیپیٹل گینز ٹیکس کا نفاذ دھوکا ہے۔ اگر نئے بجٹ میں سی جی ٹی کی شرح میں اضافہ کیا گیا تو حصص کی تجارتی سرگرمیاں اور پرائس ڈسکوری بھی ختم ہوجائے گی کیونکہ کیپیٹل گینز ٹیکس کی زد میںصرف ایک فیصد چھوٹے انویسٹرز ہیں جبکہ باقی ماندہ 99 فیصد بڑے انویسٹرز سی جی ٹی کے دائرہ کار سے غائب ہیں۔



کیپٹل گین ٹیکس سب پر لگنا چاہیے۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت کرپشن پر قابو پانے کے لیے فی الفور 5000 روپے کے کرنسی نوٹ، 15 ہزار روپے مالیت کے انعامی بانڈز اور کیش چیکس پر پابندی عائد کرے، ایسا ہوجائے تو کالا دھن کبھی سفید نہیں ہوسکے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ سال میں ملک کے ہر سیکٹر نے کارکردگی میں بہتری دکھائی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ سسٹم میں موجود چوری کو روکا جائے کیونکہ اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔

سلیم قاسم پٹیل

تعمیراتی صنعت کسی بھی ملک میں اسٹاک ایکس چینج کے بعد ملکی معیشت کا جائزہ لینے کا پیمانہ ہوتی ہے۔ ہم حکومت کو تجویز دیتے ہیں کہ وہ امن وامان کی صورتحال کو بہتر کرے تبھی معیشت میں سدھار کے دعوے حقیقت بن سکتے ہیں۔ حکومت ایسے اقدامات کرے جن سے محصولات میں اضافہ ہو، کنسٹرکشن انڈسٹری میں بہتری کی مزید گنجائش موجود ہے بس حکومت کو سازگار ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ ہماری تجاویز ہیں کہ حکومت اسٹرٹجیک بورڈ کی تشکیل کے لیے اقدامات کرے جس میں آباد کو کلیدی رکن کے طور پر شامل کیا جائے۔ بورڈ مختلف محکموں اور کمپنیوں سے روابط قائم کرکے ہاؤسنگ اینڈ کنسٹرکشن انڈسٹری کے فروغ کی سفارشات کرے گا۔ وفاقی حکومت ہاؤسنگ اینڈ کنسٹرکشن مٹیریلز بشمول اسٹیل پر سیلز ٹیکس کی شرح کم کرکے مناسب اور برابری کی سطح پر لائے۔

ٹیکس ایبل سپلائز پر عائد ودہولڈنگ کی موجودہ 4 فیصد کی غیر معمولی شرح کم کرکے 200 روپے فی ٹن کے فلیٹ ریٹ پر لائی جائے جس سے ڈاکیومنٹیشن اور سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سیمنٹ انڈسٹری کو سیلز ٹیکس ایکٹ کے تھرڈ شیڈول سے نکالا جائے۔حکومت ملکی معیشت کی بحالی و استحکام کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ وفاق اور صوبائی حکومتیں امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کیلیے اقدامات کریں۔ زمینوں پر قبضے، تجاوزات کے خاتمے، اغوا برائے تاوان کے سدباب ، بلڈرز اورعملے کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ٹھوس اور فول پروف اقدامات کرنا ضروری ہے۔اسٹیٹ بینک اس امر کو یقینی بنائے کہ تمام کمرشل بینک اپنی مجموعی سرمایہ کاری کا کم ازکم 5 فیصد حصہ ہاؤسنگ مارگیج کے لیے مختص کریں۔



انھوں نے کہا کہ ہاؤسنگ اینڈ کنسٹرکشن انڈسٹری کو گرین پروجیکٹ کا درجہ دیا گیا ہے لہٰذا اسے خصوصی مراعات اور ترغیبات فراہم کی جانی چاہئیں۔ کم آمدنی والی آبادی کو کم لاگت کے مکانات کی فراہمی کے لیے حکومت کو پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز میں پارٹنرشپ کرنی چاہیے۔ ہاؤسنگ مارگیج کا جی ڈی پی تناسب مجموعی قومی آمدنی کے 5 فیصد تک بڑھانا چاہیے۔ ہاؤسنگ ٹو مارگیج کی شرح شرمناک حد تک کم ہے۔

ہماری تجویز ہے کہ ہاؤسنگ مارگیج کے لیے اسٹامپ ڈیوٹی اور رجسٹریشن فیس وغیرہ نہیں لینی چاہیے۔ وزیر اعظم نے 5 لاکھ گھر بنانے کی بات کی ہے جس پر ہم خوش ہیں، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کنسٹرکشن کے شعبے کی صرف 5 کمپنیاں سب سے زیادہ ٹیکس محصولات دیتی ہیں، اگر پالیسیاں مزید بہتر اور تاجر برادری کے لیے مفید بنالی جائیں تو صورتحال میں بہت زیادہ بہتری آجائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ آباد اس سال اگست میں کنسٹرکشن کے شعبے کے حوالے سے ایک ایکسپو کا انعقاد کررہی ہے جو اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام ہوگا۔

جاوید بلوانی

ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر کم انویسٹمنٹ میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے، ہمارے شعبے میں تقریبا ً 50 فیصد خواتین برسرروزگار ہیں جو ایک اہم بات ہے۔جو ٹیکس حکومت جمع کرتی ہے وہ سال کے آخر میں حکومت کے پاس نہیں ہوتا، ہماری تجویز ہے کہ ان پٹ، ریفنڈ، اور ریبیٹ کو ختم کیا جائے۔جب تک ان کا کاتمہ نہیں ہوگا ، حکومت کو ٹیکس وصولی کے اصل اور حقیقی اعدادوشمار کبھی نہیں حاصل ہوں گے۔



ہماری یہ بھی تجویز ہے کہ نان بینکنگ چینلز بند کردیے جائیں ، اس طرح انڈر انوائسنگ خود بخود ختم ہوجائے گی۔ بدقسمتی یہ رہی کہ ملک میں انڈسٹریاں لگیں لیکن غلط پالیسیوں کی وجہ سے کباڑ بن کر رہ گئیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر میں ابھی بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سازگار ماحول پیدا کرے۔

شنید قریشی

فوڈ انڈسٹری پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں ہونا چاہیے، اگر حکومتی پالیسیاں بہتر ہوں تو ملک میں موجود شوگر ملیں اپنی اپنی استعداد کے مطابق مجموعی طور پر 4 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کو دے سکتی ہیں، اس وقت ملک میں 80 یا 90 شوگر ملیں ہیں ۔ ہماری ایک اور تجویز اور مطالبہ کہ فریٹ سبسڈی دی جائے۔ ہمارا مشترکہ مقصد تو یہ ہے کہ ایسے اقدامات ہوں جن سے ملکی معیشت ترقی کرے کیونکہ اس کا سب کو فائدہ پہنچے گا۔



ہماری تجویز ہے کہ فوڈ انڈسٹری پرسیلز ٹیکس نہیں ہونا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ regulatory regime بھی ختم ہونا چاہیے۔ آئندہ بجٹ میں حکومت کو ایک اور کام کرنا چاہیے کہ بیوروکریسی کی رکاوٹیں دور کرنے کے اقدامات کرے، اس وجہ سے بھی تاجروں اور صنعتکاروں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس بار رمضان میں چینی کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی، خود صنعتکار نہیں چاہتے کہ قیمتیں بڑھیں کیونکہ اس سے ان کا ہی نقصان ہے۔

میاں محمودحسن

مطلوبہ ٹرانسپورٹیشن اور اسٹوریج وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال تقریبا 20 فیصد گندم ضائع ہوجاتی ہے، ملک میں ویلیوایڈیشن کے فروغ اورکرپشن ختم کرنے کے لیے تمام صوبوں میں فوڈ ڈپارٹمنٹس ختم کردیناچاہیے۔کراچی میں 85 اور راولپنڈی اسلام آباد میں 120 فلور ملیں ہیں، ایک اندازے کے مطابق ایک شہری ماہانہ 10 آٹا استعمال کرتا ہے، کراچی میں ہمیں ہر روز 70 ہزار بوری آٹا چاہیے۔

بجٹ میں سبسڈی کے چکر کو بھی ختم کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ سبسڈی ریونیو اور فوڈ ڈپارٹمنٹ والے کھاجاتے ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ گندم کے اوپر حکومت کی اتھارٹی ختم ہوجانی چاہیے کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو ہماری انڈسٹری export oreinted ہوجائے گی۔ آئندہ بجٹ کے حوالے سے ہماری یہی تجاویز ہیں کہ ایسے فیصلے کیے جائیں جن سے فوڈ سیکٹرکو فائدہ ہو۔



ہم سمجھتے ہیں کہ برائی کی جڑ فوڈ ڈپارٹمنٹ میں ہے، گندم کو انٹرنیشنل مارکیٹ کے حوالے کردیا جائے تو حالات موجودہ پوزیشن سے بہت اچھے ہوسکتے ہیں۔ انفرااسٹرکچر اور اسٹوریج کے شعبوں میں بھی حکومت کو خاص توجہ دینی ہوگی کیونکہ اس کے ذریعے ہم ڈھائی کروڑ ٹن آٹا ایکسپورٹ کرسکتے ہیں۔ یہ بات حکومت بھی جانتی ہے کہ آٹے کے علاوہ بیکری مصنوعات ، پاستہ مصنوعات بھی اس شعبے کی ترقی میں اہم ہیں، بجٹ میں حکومت کو ایسے اقدامات لازمی کرنا ہوں گے جن سے ہمارے سیکٹر کو وسعت دینے کا موقع مل سکے۔

شرجیل جمال

سروسز سیکٹر سے صوبائی ریونیو اتھارٹیز کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولیوں کے نظام کے بعد یہ شعبہ دہرے ٹیکسیشن کا شکار ہوگیا ہے، کراچی میں خدمات انجام دینے والی سروسزکمپنی سندھ میں سیلزٹیکس ادا کرتی ہے لیکن اسکے پنجاب میں موجود کلائنٹ کو بھی پنجاب ریونیو اتھارٹی میں سیلزٹیکس ادا کرنا پڑرہا ہے، تجویز ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح نئے بجٹ میں سروسز سیکٹر کے لیے سیلزٹیکس اور انکم ٹیکس کو یکجا کرکے ہارمونائزڈسیلزٹیکس کے عنوان سے 12 فیصد فکسڈ ٹیکس عائد کیا جائے جس سے شعبہ خدمات کی کاروباری لاگت میں کمی ہوگی اور ریونیو میں بھی خطیر اضافہ ہوگا۔

حکومت ایس آراوکلچر ختم کرنے کے لیے ایکٹ اور ایس آراو میں ترامیم کا اختیارایف بی آر کے بجائے قومی اسمبلی کو دے اور کسی بھی ایکٹ یا ایس آراومیں ترمیم پر اسمبلی میں 90 دن بحث کے بعد ترمیم منظور کی جائے، انھوں نے کہا کہ دنیا بھر کے اداروں کا آڈٹ کیا جاتا ہے لیکن ایف بی آر کی ماتحت2 پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کے لیے کوئی آڈٹ میکنزم نہیں ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔



یہ بات بھی ذہن میں ہونی چاہیے کہ ایف بی آر کے پاس ایکٹ میں ترمیم کا اختیار نہیں ہے لیکن وہ اسے استعمال کررہا ہے، یہ اختیار تو قومی اسمبلی کو ہونا چاہیے۔ ہماری تجویز ہے کہ مہینوں کے حساب سے جو ایس آر اوز جاری کیے جاتے ہیں ، ان کا سلسلہ بھی بند کیا جائے، ایف بی آر ریگولیٹری اتھارٹی ہے، اس کا ٹیکس لگانے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم یہ تجوزی بھی دیں گے کہ ٹیکس اصلاحات کے نام پر کیا جانے والا فراڈ بھی ختم ہونا چاہیے، اس حوالے سے آج تک ایف بی آر کا آڈٹ نہیں ہوا کہ اس نے ٹیکس اصلاحات کے نام پر جو اربوں روپے لیے، ان کا کیا کیا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں