مسلم ممالک کے سربراہان کا اجلاس

موجودہ حالات میں سب سے پہلا کام اسرائیلی جارحیت کو رکوانا ہے تاکہ غزہ میں فلسطینیوں کی جانیں محفوظ بنائی جا سکیں


Editorial November 13, 2023
موجودہ حالات میں سب سے پہلا کام اسرائیلی جارحیت کو رکوانا ہے تاکہ غزہ میں فلسطینیوں کی جانیں محفوظ بنائی جا سکیں (فوٹو: فائل)

عرب ممالک اوراو آئی سی ممالک کا مشترکہ سربراہی اجلاس سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہفتے کے روز منعقد ہوا ہے۔یہ اجلاس سعودی عرب کی میزبانی میں ہو رہا ہے' اجلاس کا افتتاح شہزادہ محمد بن سلیمان نے کیا۔

اس غیرمعمولی اجلاس کے شرکاء نے غزہ میں گزشتہ پانچ ہفتوں سے جاری اسرائیلی جارحیت اور وحشیانہ حملوں میں11ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی شدید مذمت کی اور مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکیااور اس مسئلے کے فوری حل اور انسانی بحران کو ختم کرنے پر زور دیا ہے۔

عرب لیگ اور او آئی سی کے اس غیر معمولی سربراہی اجلاس میں غزہ کی موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال اور مستقبل کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس اجلاس میں شرکت کی اور خطاب کیا۔

نگران وزیرِ اعظم نے اسرائیلی فوج کی جارحیت کی شدید مذمت کی اور اسرائیل کو غزہ میں ہونے والی شہادتوں اور نقل مکانی کا ذمے دار قرار دیا، انھوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج فلسطین میں بین الاقوامی انسانی قوانین اور انسانی حقوق کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے،نہتے فلسطینیوں پر طاقت کا استعمال جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ غزہ میں جاری قتل عام بند کرائے۔

انھوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی، غزہ کا محاصرہ ختم کرایا جائے اور محصور فلسطینیوںتک امداد کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے،نگران وزیراعظم نے کہا کہ حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام اپنے فلسطینی بہن بھائیوںکے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور ان کے حقِ خود ارادیت کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔

ریاض میں ہونے والا یہ اجلاس خاصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جب سے غزہ کا حالیہ تنازعہ شروع ہوا ہے'اس کے بعدمسلم ممالک کے سربراہان کا یہ پہلا اجلاس ہے جہاںکھل کر فلسطینیوں کی حمایت کی گئی اور اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کی گئی۔امریکا 'اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے حوالے سے بھی مسلم ممالک کا موقف سامنے آیا ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کیاہے ۔انھوں نے کہا کہ یہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

فلسطین کے صدر محمود عباس نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیلی فورسز غزہ کو نشانہ بنانے کے علاوہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی چھاپے مار رہی ہیں ۔صدر محمود عباس کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوجیں صرف غزہ میں ہی نہیں بلکہ مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے خلاف بھی کارروائیوں میں مصروف ہیں حالانکہ وہاں حماس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔

اسرائیلی فورسز کی یہ کارروائی سراسر بدنیتی پر مبنی ہے۔ صدر محمود عباس نے اسرائیل کی جارحیت ،مقدس مقامات پر قبضے ، ان کی بے حرمتی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ۔ انھوں نے تنازعہ فلسطین کے کسی بھی فوجی اور سکیورٹی حل کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ وہ غزہ یا مغربی کنارے سے اپنے لوگوں کو بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں،غزہ کی پٹی ریاست فلسطین کا لازمی جزو ہے ۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے خطاب میں مسلمان ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کو دہشت گرد تنظیم قرار دی جائے، تمام عالم اسلام کو اس مسئلے کے حل کے لیے متحد ہونا چاہیے ، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ قتل محاصرے اور فلسطینیوں کی زبردستی نقل مکانی کے ذریعے اجتماعی سزا کا تصور قابل مذمت ہے۔

اسے اپنے دفاع سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ، فوری طور پر یہ بربریت روکی جائے ، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ اسرائیلی فورسز نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، غزہ میں اسرائیلی بمباری پر دنیا کی خاموشی افسوسناک ہے ، ترکیہ کے صدر نے اس مسئلے کے پر امن حل کی تلاش کے لیے عالمی امن کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فلسطین کے بحران کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرے۔اس ااجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں عرب و اسلامی سربراہان نے اسرائیل کے حق دفاع کو مسترد کر دیا اور فوری جنگ بندی اور امدادی کارروائیاں شروع کرنے کا مطالبہ کیا ،اعلامیہ میں غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، علاقے میں انسانی امداد کی اجازت دینے اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ۔

اس غیر معمولی اجلاس کی سفارشات اور مطالبات اپنی جگہ درست ہیں تاہم اس غیر معمولی اجلاس میں کوئی ایساحتمی فیصلہ نہیں کیا گیا' جس سے یہ پتہ چلے کہ امریکا اور یورپی یونین کی اس تنازعہ پر حمایت کیسے حاصل کی جائے یا ان ملکوں پر کیسے دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اسرائیل کی حمایت میں ایک حد سے آگے نہ جا سکیں۔یہ فیصلہ بھی سامنے نہیں آیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کیسے متحرک کیا جائے گا کیونکہ اس کونسل میں پیش ہونے والی قراردادوں کو پانچ ویٹو پاورز میں سے کوئی ایک بھی مسترد کر کے سارے عمل کو ختم کر سکتی ہے۔

سلامتی کونسل کو فلسطینیوں کے حق میں استعمال کرنے کے لیے امریکا' برطانیہ' فرانس'روس اور چین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا میکنزم اختیار کیا جائے گا'اس حوالے سے بھی کوئی منصوبہ یا پالیسی کا اعلان نہیں ہوا ہے۔

عرب لیگ اور او آئی سی ممالک اپنی حیثیت میں اسرائیل پر کیسے دباؤ ڈال سکتے ہیں'اس حوالے سے بھی کوئی پالیسی بنانے کا اعلان نہیں کیا گیا'بہرحال اس اجلاس کافلسطینیوں کو سفارتی اور اخلاقی فائدہ ضرور پہنچے گا کیونکہ دنیا بھر میں جو پیغام پہنچا ہے کہ مسلم ممالک فلسطینیوں کے ساتھ ہیں اور اسرائیل کے حق میں نہیں ہیں۔

ریاض اجلاس کے حوالے سے حماس کا موقف بھی سامنے آیا ہے۔حماس نے کہا ہے کہ اسے عرب لیگ اور او آئی سی کے ہنگامی اجلاسوں سے کوئی توقع نہیں ہے،اے ایف پی کے مطابق گروپ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل محمد الہندی نے بیروت میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے اجلاسوں سے امیدیں نہیں لگا رہے کیونکہ ہم ان کے نتائج کئی برسوں سے دیکھتے آرہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کانفرنس اسرائیلی حملے شروع ہونے کے 35 روز بعد منعقد کی جا رہی ہے، اس کے نتائج کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے۔

حماس نے گزرے دو دن میں غزہ میں اسرائیل کے 160 سے زائد فوجی اہداف مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے، رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق حماس نے بتایا کہ ان اہداف میں 25 سے زائد فوجی گاڑیاں بھی شامل ہیں،ترجمان ابو عبیدہ نے کہا کہ مقابلہ برابر نہیں ہے لیکن انھوں نے خطے کی سب سے طاقت ور فورس کو خوف زدہ کردیا ہے۔

حماس کا او آئی سی کے حوالے سے موقف چاہے جتنا بھی حقیقت پسند ہو لیکن حماس کی قیادت کو عرب لیگ اور او آئی سی اجلاس کے بارے میں مایوسی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ حماس کی قیادت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی ممالک جیسے بھی ہیں 'ان کے بغیر فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم نہیں رک سکتے اور نہ ہی حماس میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ وہ اسرائیل کو شکست دے کر فلسطین کو آزاد کرا سکے۔

لہٰذا حماس کی قیادت کو حالات کی سنگینی کو مدنظر کھ کر کوئی موقف اختیار کرنا چاہیے' اسی طرح ایرانی حکومت کو بھی فلسطینیوں کے مفادات کو پہلے دیکھنا چاہیے کیونکہ سب سے زیادہ متاثر وہی ہو رہے ہیں۔ اسرائیل اور حماس جنگ کے درمیان جنگ کے آغاز کے بعد سے فلسطینیوں کا مسلسل قتل عام ہو رہاہے۔

اسرائیل ایک ماہ سے زائد عرصے سے فلسطینی علاقوں خصوصاً پہلے سے محصور پٹی غزہ پر مسلسل حملے اور بم باری کر رہا ہے۔مسلم ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک میںفلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں۔لندن میں ہزاروں لوگوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرہ کیا۔برازیل میں فلسطین کے حق میں امریکی قونصل خانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

موجودہ حالات میں سب سے پہلا کام اسرائیلی جارحیت کو رکوانا ہے تاکہ غزہ میں فلسطینیوں کی جانیں محفوظ بنائی جا سکیں 'غزہ سے نقل مکانی کرنے والے فلسطینی اپنے اپنے گھروں کو واپس آ سکیں 'اس وقت غزہ میں انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے' اگر اسرائیل کے حملے مزید بڑھے تو رہا سہا انفراسٹرکچر بھی تباہی سے دوچار ہو جائے گا۔

جنگ نے طوالت پکڑی تو غزہ سے نقل مکانی کر کے دوسرے ملکوں میں جانے والے فلسطینیوں کی واپسی مشکل ہوتی چلی جائے گی' اس کا فائدہ اسرائیل کو ہو گا' وہ ان جگہوں پر نئی یہودی بستیاں آباد کرنا شروع کر دے گا لہٰذا اس وقت حماس کو بھی مسلم ممالک کے سربراہوں کا اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں