تعلیمی مافیا
یہ یونیورسٹیاں کس قدر منفعت بخش ہیں کہ گذشتہ پی ڈی ایم حکومت نے جاتے جاتے درجنوں یونیورسٹیوں کی منظوری دی
www.facebook.com/shah Naqvi
فن لینڈ میں دنیا کا سب سے بہترین تعلیمی نظام پایا جاتا ہے۔ یہ ایسا تعلیمی نظام ہے جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ امریکا سمیت پوری دنیا اس نظام کی حیرت انگیز کامیابی کے سبب اس کی کاپی کرنا چاہتی ہے۔ فن لینڈ کی آبادی صرف 55لاکھ ہے۔
رقبے کے لحاظ سے اس کی آبادی بہت کم ہے۔ اس کے تعلیمی نظام میں ریاضی، فزکس اور دیگر سائنسی مضامین پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔
2000سے 2012 تک اس ملک کے بچوں نے پوری دنیا میں ٹاپ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی کاپی دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کر رہے ہیں۔
چلیں فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی خصوصیات کو جانتے ہیں۔ اس نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے قدیم روایتی تعلیمی نظام سے ہٹ کر ایک ایسا نظام تشکیل دیا ہے جس کی بنیاد سائنسی ہے اور انسانی نفسیات سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔ یعنی اس نظام کا انسانی نفسیات سے کوئی ٹکراؤ نہیں۔ لکیر کے فقیر نہ ہونے اور غیر روایتی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہاں بچوں کے اسکول میں داخلے کی عمر سات سال ہے۔
اس سے کم عمر کا بچہ اسکول میں داخل نہیں ہو سکتا جب کہ ہمارے ہاں تین سے چار سال ۔ اس کی کیا وجوہات ہیں اس پر آگے چل کر بات ہوگی۔ سات سال کی عمر میں داخلے کے بعد اگلے 6سال کوئی امتحان نہیں لیا جاتا۔ پہلا امتحان 13سال کی عمر میں لیا جاتا ہے۔ یعنی امتحان فوبیا سے نہ صرف بچے بلکہ ان کے والدین بھی مکمل طور پر آزاد ہوتے ہیں۔
سات سال کی عمر تک بچے کو ہوم ایجوکیشن دی جاتی ہے۔ کیونکہ بچوں کی سب سے بڑی اور ابتدائی درسگاہ جہاں اس کی شخصیت کی مضبوط بنیاد بنتی ہے وہ گھر ہے جہاں وہ ماں باپ دادی دادا کے ذریعے تربیت پاتا ہے۔ اسے ہوم ایجوکیشن کہتے ہیں۔
اور ہمارے ہاں کے بقراط تعلیمی ماہرین تین سے چار سال کے بچوں کو اسکول میں داخلے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس طرح وہ کم سن ننھے بچوں کو ماں کی گود اور اس کی عافیت سے محروم کر دیتے ہیں۔
چنانچہ اس کے لیے تعلیم ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ کم سن بچہ اپنی ماں اور گھر والوں سے دور ہونے سے ایک ایسے عدم تحفظ اور خوف کا شکار ہوتا ہے۔ جو مستقبل میں اس کے زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو کر اس کے لیے سنگین مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔
کسی بھی ملک کا تعلیمی نظام اس کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔ لیکن جہاں ہمارا ملک بے شمار مافیاز کی لپٹ میں ہے وہاں بڑے مافیاز میں سے ایک بڑا مافیا تعلیم کا مافیا ہے۔ حکومتوں کی ملی بھگت سے بے بس مظلوم عوام کا یہ مافیا کئی دہائیوں سے ان کا خون پی اور گوشت نوچ رہا ہے جب سے تعلیمی نظام کو پرائیوٹائز کیا ہے۔
کسی بھی مہذب ملک میں تعلیم حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہاں تعلیم مفت ہوتی ہے۔ لیکن یہاں تعلیم ہی سب سے بڑی تجارت بن کر رہ گئی ہے۔ گلی محلے کے دو چار کمروں کے اسکول سے لے کر وسیع و عریض یونیورسٹوں تک۔ ان یونیورسٹیوں کے مالکان سالانہ اربوں روپے کما رہے ہیں۔
یہ یونیورسٹیاں کس قدر منفعت بخش ہیں کہ گذشتہ پی ڈی ایم حکومت نے جاتے جاتے درجنوں یونیورسٹیوں کی منظوری دی۔ اوپر سے ٹیوشن مافیا۔ صرف لاہور ہی کے مشہور زمانہ تعلیمی اداروں کولے لیں ۔یہ لوگ اپنے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کی بجائے اپنے ٹیوشن سینٹر کھول کر دونوں ہاتھوں سے دولت کما رہے ہیں۔
ہماری یونیورسٹیوں کی عالمی سطح پر کیا ریٹنگ ہے۔ شرمناک افسوس ناک ۔دو چار ہی ہیں جو پہلی پانچ سو میں یا ہزار میں ہیں۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں ہزاروں میں سے صرف دو تین فیصد ہی پاس ہو پاتے ہیں ۔ کیونکہ یہ یونیوسٹیاں صرف ڈگری جاری کرنے والی بن چکی ہیں۔ ایک شریف آدمی جو مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے۔
وطن کی محبت میں پاکستان آکر ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے سربراہ بن گئے۔ سالانہ امتحانات کے نتائج میں جب انھوں نے بیشترطلباء کو فیل کر دیا جن میں سے زیادہ تر کا تعلق میڈیکل سے تھا تو اس کے مالک نے وائس چانسلر کے آفس میں پہنچ کر انھیں حکم دیا کہ آپ کو ان تمام فیل شدہ طلباء کو پاس کرنا ہوگا ورنہ تو ہماری یونیورسٹی بند ہو جائے گی۔ رد عمل میں وائس چانسلر نے اپنا استعفیٰ مالک کے منہ پر دے مارا۔
بہر حال بات ہو رہی تھی فن لینڈ کے نظام تعلیم کی ۔ فن لینڈ میں نہ صرف تعلیم فری بلکہ بیگ کتابیں اسٹیشنری یونیفارم سب فری ۔اسکول میں بچوں کو انتہائی صحت بخش فری کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں چھوٹے بڑے اسکول سب اس مد میں لوٹ مار کر رہے ہوتے ہیں وہاں پرائمری اسکول تک یونیفارم نہیں ہوتی۔
فن لینڈ میں اسکولوں میں بچوں کو ہوم ورک نہیں دیا جاتا۔ ہر 45منٹ بعد 15منٹ کی بریک ہوتی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کو روزانہ صرف4گھنٹے پڑھایا جاتا ہے اور بڑی جماعتوں کو 6گھنٹے ۔ ایک ٹیچر مسلسل 6سال تک بچوں کو تمام مضامین پڑھاتا ہے۔ ہر مضمون کا علیحدہ ٹیچر نہیں ہوتا۔ اس طرح ذہنی ہم آہنگی بچوں اور ٹیچر کے درمیان بہت جلد پیدا ہو جاتی ہے۔ اس معاشرے میں سب سے زیادہ عزت استاد کی ہوتی ہے۔
وہاں ٹیچر بننا آسان نہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ کڑے معیار ہوتے ہیں۔ آخر ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے۔
ان کی کم از کم تنخواہ 3ہزار امریکی ڈالر ہوتی ہے۔ کڑا مقابلہ ہوتا ہے بہت کم لوگ اس شعبے میں منتخب ہو پاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو کوئی ہنر سکھا کر عملی زندگی کے لیے بھی تیار کیا جاتا ہے۔
تعلیم پاکستانی والدین کے لیے عذاب بن کر رہ گئی ہے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے اکثر اوقات والدین کو زیور بلکہ گھر زمین تک بیچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ عدلیہ سے درخواست ہے کہ وہ از خود نوٹس لے کہ یہ ملک و قوم کے مستقبل کا معاملہ ہے اور والدین کو اس تعلیمی مافیا سے نجات دلائیں جو ہر گھر کا مسئلہ ہے۔