سیاسی جماعتیں انتخابات کے بعد مضبوط بلدیاتی نظام یقینی بنائیں

جمہوری استحکام کیلئے مقامی حکومتیں ناگزیر...


سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں آئین کے مطابق خودمختار مقامی حکومتیں قائم کرنے کا لائحہ عمل دیں، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: محمود قریشی

مقامی حکومتوں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے جہاں عوام کی سیاسی تربیت ہوتی ہے اور نئی قیادت ابھرتی ہے اس میں سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ عوام کے مسائل مقامی سطح پر ہی حل کر لیے جاتے ہیں اور یہ ان کی شمولیت سے ہوتا ہے۔

پاکستان میں بلدیاتی نظام کا تسلسل نہیں ہے ، یہاں کبھی عدالتی حکم پر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں تو کبھی عوامی دباؤ پر۔ سیاسی جماعتیں اس نظام کو سنجیدہ نہیں لیتی حالانکہ اسے جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔

اس نظام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے '' جمہوری استحکام میں لوکل باڈیز کا کردار'' کے موضوع پر''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

راحیلہ خادم حسین

سابق رکن صوبائی اسمبلی پنجاب رکن منشور کمیٹی پاکستان مسلم لیگ ،ن

میں نے بلدیات سے اپنی سیاست کا آغاز کیا ہے لہٰذا اس کی اہمیت کو بخوبی سمجھتی ہوں۔ میرے نزدیک میں ملک سے دقیانوسی سیاست کا خاتمہ کرنے کیلئے بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا۔ یہ جمہوریت کی بنیاد ہے جہاں سے نئی قیادت ابھرتی ہے جو اسمبلیوں اور سینیٹ تک جاتی ہے،ہمیںا س نظام کو فروغ دینا ہوگا۔

میں 2013ء میں بلدیات کمیٹی کی رکن بنی، ہم نے اب اس نظام کیلئے اسمبلی میں بھرپور آواز اٹھائی، اور ہمیں بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔ اب میں منشور کمیٹی کی رکن ہوں، ہم کئی جہتوں میں ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔

اس مرتبہ ہمارے منشور میں نئی اور منفرد چیزیں سامنے آئیں گی۔ ہماری جماعت کی طرف سے نوجوان، خواتین اور اقلیتوں سمیت ملک کے مختلف طبقات کی شمولیت یقینی بنائی جا رہی ہے۔ عام آدمی کے مسائل حل کرنا ہماری اولین ترجیح ہے جومضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام سے ممکن ہے لہٰذا عام انتخابات کے فوری بعد مضبوط بلدیاتی نظام یقینی بنایا جائے گا۔

میری تمام جماعتوں سے گزارش ہے کہ جس کی بھی حکومت آئے وہ بلدیاتی نظام کا قیام یقینی بنائے، اس میں خواتین ، نوجوان، اقلیتوں و دیگر طبقات کو لازمی طور پر نمائندگی دی جائے۔ جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت آتی ہے، ہم عام آدمی کے مسائل حل کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔

ہم نے آمریت کا مقابلہ کیا، ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کی، آئی ایم ایف کو خیر باد کہا، معاشی مسائل حل کرکے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا، اب بھی ہم ملک کو اپنے پاؤں پر دوبارہ سے کھڑا کریں گے۔مہنگائی کا خاتمہ، بجلی، گیس و تیل کی قیمتوں میں کمی، آئی ایم ایف سے چھٹکارہ، سی پیک منصوبے کی بحالی، عام آدمی کی خوشحالی، ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ مسائل بہت زیادہ ہیں، جو بھی حکومت میں آئے گا اس پر تنقید ہوگی لیکن ہم عوام اور ملک کی خاطر ہمیشہ کی طرح دن رات ایک کرنے کیلئے تیار ہیں۔

ہم ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ہم عوام کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کریں گے،ا س کے لیے مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا جائے گا جس میں مقامی افراد شامل ہونگے جو اپنے مسائل بہتر انداز میں سمجھتے ہیں اور حل کرنا بھی جانتے ہیں۔

فائزہ ملک

رہنما پاکستان پیپلز پارٹی

مقامی حکومت جمہوریت کا اہم ستون ہے، اس کے بغیر ترقی کا سفر نامکمل ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی صرف اپنے منشور میں ہی مقامی حکومتوں کی بات نہیں کرتی بلکہ عملی طور پر کام بھی کرتی ہے۔ اس وقت بھی سندھ میں بلدیاتی نظام موجود ہے جبکہ پنجاب میں اس حوالے سے ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں بار بار لوکل باڈیز کے قانون میں تبدیلیاں کی گئی۔

بعدازاں تحریک انصاف کی حکومت آئی، جو مقامی حکومتوں کی بہت بات کرتی تھی مگر 4 برسوں میں اس نے بھی یہ نظام قائم نہ کیا، محض قانون سازی ہوتی رہی۔ اس وقت بھی یہاں بلدیاتی نظام موجود نہیں۔

میرے نزدیک اگر مقامی حکومتیں موجود ہوتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشورمیں بلدیاتی نظام کا ذکر کرتی ہیں مگر اسے قائم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتی، انہیںچاہیے کہ عوامی مسائل حل کرنے کیلئے بلدیاتی نظام قائم کریں۔ عام انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنے اسے فوری بلدیاتی الیکشن کروا کر مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنا چاہیے۔

عام انتخابات میں خواتین کیلئے ٹکٹ کا 2 فیصد کوٹہ ہے، سوال یہ ہے کہ کونسی خاتون کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن لڑ سکتی ہے؟ ایسے حالات میں تو کسی طاقتور خاندان کی خاتون ہی آگے آئے گی۔ اہم یہ ہے کہ عام خواتین اور سیاسی ورکرز کو سیاسی عمل میں بھرپور نمائندگی دی جائے۔ مقامی حکومتوں کا نظام سیاست کی نرسری ہے، یہاں سے قیادت ابھرتی ہے۔

پیپلز پارٹی ہمیشہ عام لوگوں کو آگے لاتی ہے، ہم اپنے کارکنوں کو میدان میں اتارتے ہیںجو صحیح معنوں میں سیاسی ورکرز ہیں، ان کی کارکردگی دیکھی جاتی ہے اور پھر انہیں ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی ورکرز کے آگے آنے سے عوامی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔

سلمان عابد

دانشور

پاکستان میں گورننس کا بحران ہے۔ یہاں عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہورہے جس کی ایک بڑی وجہ مقامی حکومتوں کا نہ ہونا ہے۔

افسوس ہے کہ لوکل گورنمنٹ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ اول تو بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جاتے ، اگر ہو بھی جائیں تو مقامی حکومتوں کو بااختیار نہیں بنایا جاتا۔ ہماری صوبائی حکومتیں اس میں بڑی رکاوٹ ہیں،اراکین اسمبلی اپنے اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ ہمارے ہاں غیر جمہوری ادوار زیادہ رہے ہیں، جبکہ جمہوری حکومتوں کی مدت کم ہے۔

دونوں ادوار میں مختلف صورتحال رہی ہے مگر جمہوریت کو صحیح معنوں میں پنپنے اور اپنا راستہ بنانے کا موقع نہیں ملا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں تمام صوبوں میں یکساں بلدیاتی نظام تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سب کچھ مرکز سے کنٹرول کیا۔ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے صوبائی حکومتوں کو آئین کے مطابق خود مختار بنایا جائے۔

تمام صوبوں میں یکساں نظام لایا جائے اور بلدیاتی نظام کا تسلسل یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے وفاق اپنا کردار لازمی ادا کرے تاکہ صوبوں کو بروقت بلدیاتی انتخابات کروانے کا پابند کیا جاسکے۔ تجویز ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات بھی کروالیے جائیں یا پھر نئی حکومت آنے کے بعد 120 دن کے اندر اندر الیکشن کرواکر بلدیاتی نظام قائم کیا جائے۔ بلدیاتی نظام کا تسلسل یقینی بنانے کیلئے اسے آئینی تحفظ دیا جائے۔

بھارت کے آئین میں مقامی حکومتوں پر ایک چیپٹر موجود ہے جبکہ ہمارے آئین میں بلدیاتی الیکشن کرانے کی کوئی پابندی ہی نہیں۔ 120 دن میں انتخابات کروانے کی شرط بھی الیکشن ایکٹ میں ہے، آئین میں نہیں۔ قانون میں جہاں بھی سقم ہے اسے دور کیا جائے۔

خواتین، اقلیتوں، خواجہ سرائ، نوجوان، کسان اور مزدور سمیت معاشرے کے دیگر طبقات کو بلدیاتی نظام میں نمائندگی دی جائے۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں بلدیاتی حکومتوں کا مضبوط نظام یقینی بنائیں، اس حوالے سے ایک واضح اور جامع لائحہ عمل دیا جائے۔ اس وقت سندھ میں بلدیاتی نظام موجود ہے، پنجاب میں نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی کچھ فنکشنل نہیں ہے۔ ایسے حالات میں سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھر پور آواز اٹھانی چاہیے تاکہ جمہوریت کی بنیاد کو مضبوط بنا کر عوامی مسائل حل کیے جاسکیں۔

افسوس ہے کہ اتھارٹیز کے ذریعے معاملات کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اگر یہی رجحان کو فروغ دیا گیا تو مقامی حکومتیں غیر موثر ہوجائیں گی۔

ہمارے 46 فیصد ووٹرز نوجوان ہیں، سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد کو بے سمت چھوڑا جا سکتا ہے؟ کیا ہم نے نوجوانوں کی سیاسی تربیت نہیں کرنی؟ اس کیلئے سب سے بہترین نظام مقامی حکومتوں کا ہے جو سیاست کی نرسری ہے۔ نوجوانوں کو لوکل باڈیز میں شامل کرکے ان کی سیاسی تربیت کی جائے۔ افسوس ہے کہ ترقی چند اضلاع میں ہے، دور دراز علاقوں تک نہیں پہنچی۔ ایسے میں لوگوں کی محرومیاں مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔

مقامی حکومتوں کے ذریعے اسے ختم کیا جاسکتا ہے، مقامی افراد کی شمولیت سے مقامی سطح پر ہی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔

اس وقت ہمیں سموگ کی صورت میں ایک چیلنج کا سامنا ہے، اگر مقامی حکومتیں موجود ہوں تو، ماحول، ٹرانسپورٹ، صاف پانی جیسے مسائل وہ خود ہی حل کر لیتی ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ لوکل گورنمنٹ مضبوط ہوگی تو جمہوریت مضبوط ہوگی، بصورت دیگر مزید بحران پیدا ہونگے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے مضبوط، خودمختار، شفاف اور شراکتدار نظام قائم کیا جائے جس میں عام آدمی کی شمولیت لازمی ہو اور احتساب بھی ہو۔

پروفیسر ارشد مرزا

نمائندہ سول سوسائٹی

جمہوری استحکام تب آتا ہے جب جمہوریت کے تینوں درجے یعنی وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں موجود ہوں، ان کے بغیر جمہوریت کو مسائل درپیش رہیں گے۔ آئین پاکستان کے مطابق مقامی حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی خودمختاری دینا لازمی ہے مگر یہ کبھی نہیں دی گئی۔ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق سے تو صوبوں کو اختیارات منتقل ہوگئے مگر صوبوں سے اضلاع اور اضلاع سے نچلی سطح تک اختیارا ت کی منتقلی نہ ہوسکی۔

یہی وجہ ہے کہ عوام کے مسائل بھی ابھی تک حل نہیں ہوسکے۔ مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت کی نرسری ہے جہاں سے قیادت ابھرتی ہے مگر افسوس ہے کہ صوبہ پنجاب میں گزشتہ 8 برس سے یہ نرسری غائب ہے۔

ایسی لوکل گورنمنٹ موجود ہی نہیں جو لوگوں کی منتخب کردہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمائندے اور بیوروکریسی مضبوط بلدیاتی نظام نہیں چاہتے۔

سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ڈیروں کی رونقیں ختم ہوجائیں گی جبکہ بیوروکریسی خود کو زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر عوامی نمائندے یہ ملک بنا سکتے ہیں تو اس کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ایک اور بات توجہ طلب ہے کہ تمام صوبوں میں یکساں بلدیاتی نظام نہیں ہے۔ ہر صوبے میں الگ الگ نظام ہے ۔

ہمارا نظام شراکتدار، شفاف، موثر اور احتساب پر مبنی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہورہے۔ہماری نصف سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، سوال یہ ہے کہ ان کی نمائندگی کہاں ہے؟ اسی طرح معاشرے کے دیگر اہم طبقات بھی محروم ہیں۔

مطالبہ ہے کہ خواتین، نوجوان، کسان، مزدور، خصوصی افراد، بزنس کمیونٹی سمیت دیگر طبقات کو بلدیاتی نظام میں نمائندگی دی جائے اور ان کے کیلئے بنائی جانے والی پالیسیوں، قوانین اور نظام میں ان کی رائے کو لازمی طور پر شامل کیا جائے۔ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے۔

اب سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور کا اعلان کرنا ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ اس میں صرف مقامی حکومتوں کا ذکر نہ کریںبلکہ ٹھوس اور مکمل لائحہ عمل دیں کہ کس طرح آئین کے مطابق مالی، سیاسی اورا نتظامی طور پر بااختیار اور مضبوط بلدیاتی نظام قائم کیا جائے گا۔

عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہیے، اگر اس میں آئینی ترمیم کی ضرورت ہے تو وہ بھی کی جائے۔ ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کیلئے سیاسی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انہیں ایک ایسا لائحہ عمل بنانا چاہیے کہ حکومت کوئی بھی ہو، اس پرکام کرے اور ملک سے بحرانوں کا خاتمہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔