لیول پلیئنگ فیلڈ یا زیادیتوں کا ازالہ
بے شک انسان کی یادداشت بہت ہی کمزور ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ دس بیس سال پرانی زیادتیاں بھی بھلادی جائیں
رانا ثناء اللہ کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہے کہ 2018 میں جب مسلم لیگ نون کو مکمل طور پر دیوار سے لگادیاگیا تھااور اسے لیول پلیئنگ فیلڈ بھی میسر نہ تھی پھر بھی اس نے عوام کی حمایت کے بل بوتے پر الیکشن میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ قومی اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی اورپنجاب کی صوبائی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کے طور پرکامیابی حاصل کی تھی۔
یہ سب کچھ کیسے اورکیونکر ممکن ہوسکا۔ حالانکہ عدلیہ سمیت کئی ادارے اس کے خلاف اپنے فیصلے صادر کر رہے تھے میاں نوازشریف اوراُنکی صاحبزادی پابندسلاسل بھی ہوچکے تھے اورصرف ایک شخص اوراسکی پارٹی کے لیے ساری راہیں ہموار کردی گئی تھیں، لیکن اس کے باوجود جب انتخابی نتائج حسب منشاء نہیں آرہے تھے تو اچانک RTS بند کردیاگیا۔ وہ RTS کیوں اورکیسے بند ہوا اس کی تحقیقات آج تک نہیں کی گئیں۔
یہ پہلا موقعہ نہیں تھا جب مسلم لیگ نون کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھاگیا۔ 2002 میں جنرل پرویز مشرف نے یہ پارٹی توڑ کر ق لیگ پیدا کی تھی اوراسے کنگ پارٹی کے طور پراقتدار دلایا گیا تھا۔ اس وقت بھی میاں نوازشریف زیر عتاب تھے اوراُنہیںطیارہ ہائی جیکنگ کیس میں عمرقید کی سزا بھی سنادی گئی تھی، وہ ایک سال سے ڈیڑھ سال تک پرویز مشرف کی قید میں تھے اور قید سے اس شرط پر آزاد کیے گئے کہ وہ فوراً کسی اور ملک میں جلاوطنی کی زندگی گزاریں گے اور دس سال تک ملک کی سیاست میں کوئی حصہ نہیں لیں گے۔
ایک مطلق العنان حکمراں اورایک قیدی کے درمیان اس معاہدہ کی شرائط میں ایک بے کس اور مجبور قیدی کی مرضی اورمنشاء اوراختیار کا عمل دخل کتنا ہوسکتا ہے وہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ والد صاحب اوراہل خانہ کے کہنے پر وہ طوعاً وکرہاً اس رہائی پر راضی ہوگئے ۔
ہمیں اخبارات کی وہ شہ سرخیاں یاد ہیں جس میں میاں شہباز شریف کے بارے میں یہ بتایاگیا تھا کہ وہ اس جبری جلاوطنی پر ہرگز رضامند نہ تھے اوروہ آخر وقت تک جہاز میں سوار ہونے سے انکاری تھے۔ 2008 میں بھی میاں نوازشریف کو الیکشن میں حصہ لینے سے اس لیے روک دیاگیا کیونکہ وہ سابقہ خصوصی عدالتوں کے فیصلوں کی وجہ سے ابھی تک نااہل تصور کیے جاتے تھے ۔
2013 کے الیکشن تک ان کی وہ نااہلی ختم ہوچکی تھی اوروہ چودہ سال بعد کسی عام انتخابات میں حصہ لینے کے قابل ہوسکے ۔ عوام نے انھیں ایک بار پھر بھرپور مینڈیٹ کے ساتھ اس الیکشن میں جتواکریہ ثابت کردیاکہ وہ بلاشبہ صرف اپنی کارکردگی کی بدولت عوام میں ابھی تک معروف اورمقبول ہیں۔
اس کے علاوہ اُن کے پاس ایساکوئی جوہر یا جادو نہیں تھا جسے دکھاکر وہ عوام کے دل موہ لے سکیں۔اُن کی شخصیت اتنی جاذب نظر بھی نہیں تھی کہ ہماری جوان نسل کواپنی طرف راغب کرسکیں۔ اورنہ اُنہیں تقریر کرنے کا وہ ہنر بھی آتاتھا جس کے آج کل ہمارے عوام بہت دلدادہ ہیں۔
مذکورہ بالا تمام حقائق کودیکھتے ہوئے یہ کہنا کہ میاں نوازشریف کو ہمیشہ لیول پلئینگ فیلڈ مہیا کی جاتی ہے قطعاً درست اورجائز نہیں ہے ۔ 2017 میں اُن کے ساتھ جوکچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا بھی نہیں ، اُن کا قصور کیا تھا۔اُنھوں نے ایسا کون ساجرم کردیاتھا کہ اُنہیں اتنی بڑی سزاسنادی گئی۔ ڈان لیکس کی حقیقت سب کومعلوم ہے۔
نہ یہ سائفر کی طرح کوئی سازش تھی اورنہ اس کے بعد میاں صاحب نے ریاستی اداروں پرمجرمانہ حملے کروائے تھے۔پانامہ لیکس بھی ایک ایسا بہانہ تھا جسے استعمال کرکے اُنہیں سیاست سے تاحیات نااہل کر دیا گیا۔ اس سے پہلے کے واقعات پراگر نظر دوڑائیں تو 1993 میں بھی اُن کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ حالانکہ اس وقت سپریم کورٹ اُن کے ساتھ کھڑی تھی۔
صدر اسحاق خان نے آئین کی شق 58 ٹو بی کو استعمال کرکے اس وقت کی پارلیمنٹ کو اچانک بیک جنبش قلم توڑ دیا تھا تو اسوقت ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر وہی پارلیمنٹ پھرسے بحال کردی تھی، مگرپس پردہ قوتوں کو یہ فیصلہ پسند نہ آیا اورحالات اس قدر خراب کردیے گئے کہ بالآخر اگست کے مہینے میں میاں نوازشریف اپنے ہاتھوں سے استعفیٰ لکھنے پرمجبورہوگئے۔پھر ایک انجانے شخص کو باہر سے درآمد کرکے نگران وزیراعظم بنادیا گیا اورالیکشن میں زبردستی اُنہیں ہروا دیا گیا۔ اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی ہی وہ جماعت تھی جسے نہ صرف لیول پلئینگ فیلڈ مہیاکی گئی تھی بلکہ نتائج بھی راتوں رات بدل کراسے کامیاب بھی کروایا گیا تھا۔
1993کی سیاسی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھے جائیں تو پاکستان پیپلزپارٹی کا یہ گلہ بھی غلط اور بے بنیاد معلوم ہوگا کہ اسے کسی بھی الیکشن میں لیول پلئینگ فیلڈ نہیں دی گئی۔ میاں نوازشریف کی حکومت کو بحال کیے جانے کے اعلیٰ عدالتی فیصلے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے جس لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا اورجس کے بعد پنجاب میں غلام حیدر وائیں کی حکومت کے خلاف اچانک عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروائی گئی اورمنظور وٹوکو پنجاب کا وزیراعلیٰ بناکرمجوزہ لانگ مارچ کوجو کمک اورمدد فراہم کی گئی کیا یہ سب کچھ خودساختہ تھا۔ اس کے پیچھے وہی قوتیں کارفرما تھیں جس نے بعدازاں میاں صاحب سے استعفیٰ لکھوایاتھا۔یہ ہماری تاریخ کی وہ تلخ حقیقتیں ہیں جنھیں بھلایانہیں جاسکتاہے۔
بے شک انسان کی یادداشت بہت ہی کمزور ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ دس بیس سال پرانی زیادتیاں بھی بھلادی جائیں ۔میاں صاحب جب یہ کہتے ہیں کہ میراسینہ ایسے رازوں سے بھراپڑا ہے تو شاید وہ کچھ غلط بھی نہیں کہتے ہیں، مگر وہ اِن رازوں کو عوام کے سامنے آشکار بھی نہیں کرسکتے ہیںتواس میں بھی اُن کی کچھ مجبوریاں ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو انھوںنے آج چھوڑدیا ہے ، وہ اگر اپنے اس نعرے کوآج نہیں چھوڑتے توشاید لندن سے واپس بھی نہیں آسکتے تھے۔
ہمیں معلوم ہے کہ لندن سے واپس آنے سے پہلے وہ اپنے ایک بیان کے باعث لندن سے واپس ہی ہوئے تھے کہ دوبارہ لندن جانا پڑگیا تھا۔جس کے بعد بڑے میاں صاحب کو اپنا رویہ بدلنا پڑا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے کہ ووٹ کوعزت دو کا نعرہ آج کیوں پس پشت ڈال دیاگیاہے۔ میاںنوازشریف آج اگر یہ نہ کرتے تو ہم سب اُنہیں ایک ضدی اورہٹ دھرم سیاستداں کہتے پھرتے۔اُن کی جگہ کوئی اورسیاستداں ہوتاتو وہ بھی یہی کچھ کرتاجوآج میاں صاحب کررہے ہیں۔