دو ڈالر کی غربت
سعودی عرب سے لے کر چین تک اور آئی ایم ایف سے لے کر دیگر مالیاتی اداروں تک اسحاق ڈار صبح و شام مذاکرات ...
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف کی خواہش و تمنا اور توقعات کے عین مطابق ان کی وفاقی کابینہ کا اگر کوئی وزیر حکومت کی بڑھا چڑھا کر ''کارکردگی'' دکھا رہا ہے تو وہ بلا شبہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہیں۔ جو اپنی حکومت کے معاشی اہداف کے حصول کی خاطر ہمہ وقت بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا ایک پائوں ملک کے اندر تو دوسرا وطن سے باہر کسی ملک میں ہوتا ہے۔
سعودی عرب سے لے کر چین تک اور آئی ایم ایف سے لے کر دیگر مالیاتی اداروں تک اسحاق ڈار صبح و شام مذاکرات اور تجارتی و معاشی معاہدات کرتے اور قرضوں کے حصول کی جدوجہد میں مصروف عمل نظر آتے ہیں اور نواز حکومت کا فخر بنے ہوئے ہیں۔ یہ وزیر خزانہ ہی کی کاوشوں کا ''ثمر'' ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر کے ''تحفے'' سے نوازا اور ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے اوپر جا پہنچے۔ اور ہماری کرنسی کی قدر میں بھی اضافہ ہوا اور امریکی ڈالر 108 روپے سے کم ہوکر 98 روپے تک آ گیا۔ نواز حکومت کو توقع ہے ان کے وزیر خزانہ کی ''کرشماتی جد وجہد'' کے طفیل مزید ''قرضے'' ملنے کے بعد جولائی تک قومی زرمبادلہ کے ذخائر مزید تجاوز کر جائیں گے۔
آئی ایم ایف حکومتی کارکردگی پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور قرضے کی ہر قسط کے اجرا کے پہلو بہ پہلو حکومت کو واضح طور پر ''ہدایات'' بھی جاری کر رہا ہے کہ وہ معیشت میں بہتری لانے کے لیے مزید اقدامات کرے۔ اپنی حکومت کی معاشی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے گزشتہ دنوں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت پٹری پر آ گئی ہے، ملک میں مہنگائی کم، ترقی کی رفتار تیز اور برآمدات میں اضافہ ہو گیا ہے اور معاشی ترقی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ حکومت اپنے اقدامات، کوششوں اور جد وجہد کی داستان سنا کر قوی معیشت میں بہتری کے دعوے کر رہی ہے لیکن دوسری جانب یہ بنیادی اور اہم سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر واقعی معیشت پٹری پر آ گئی ہے تو پھر اس کے ''ثمرات'' عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچ رہے ہیں۔ نواز حکومت اپنی ایک سالہ مدت پوری کر چکی ہے لیکن ملک میں آج بھی غربت، بے روزگاری، مہنگائی، بھوک اور افلاس جیسے اہم عوامی مسائل پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں بلکہ روز افزوں اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
غربت، مہنگائی و بے روزگاری سے تنگ آئے مجبور و لاچار لوگ اپنے معصوم بچوں کے گلے گھونٹ رہے ہیں، اپنی زندگیوں کے چراغ گل رہے ہیں۔ زندہ رہنا ان کے لیے عذاب بن گیا ہے، حکمراں معاشی ترقی کے دعوے کر رہے ہیں لیکن عوام کی حالت زار اور آہ و فغاں سے انھیں کوئی غرض ہی نہیں۔ نواز حکومت کی کارکردگی پر عدالت عظمیٰ کی آبزرویشن ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سپریم کورٹ نے ضلع سانگھڑ میں 39 گیس اور تیل کے کنوئوں کی 600 ارب روپے کی رائلٹی نہ ملنے کے حوالے سے عبدالحکیم کھوسو و دیگر کی درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ''اتنی بڑی رقم سے پورے ملک کے گائوں آباد ہو سکتے ہیں، ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پیسہ پڑا ہے اور لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں، کھانے کی اشیا نہیں مل رہیں اور ہم کشکول لیے جگہ جگہ پھر رہے ہیں۔
کبھی یورپ، کبھی امریکا اور کبھی برطانیہ جاتے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے۔ فنڈز کے باوجود لوگوں کو پانی، اجناس اور دیگر سہولتیں نہ ملنا ان کے ساتھ ظالمانہ مذاق ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ لوگوں کو کوئی فائدہ ہی نہیں مل رہا۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اﷲ کا واسطہ عوام کے مسائل حل کریں۔ ایک ضلع سے 600 ارب کی رائلٹی ملتی ہے اور دوسری طرف تھر پارکر میں شروع ہونے والا بھوک و افلاس کا سلسلہ چولستان تک دراز ہو چکا ہے'' عدالت عظمیٰ کے مذکورہ ریمارکس اپنی معاشی ترقی کے شادیانے بجانے والی نواز حکومت کے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں یومیہ دو ڈالر کمانے والوں کو غریب شمار کیا جائے ان کے بقول افراط زر کی شرح میں اضافے و دیگر وجوہات کی بنا پر ہمیں غربت کی نئی تعریف کرنا ہو گی، دنیا بھر میں 40 فی صد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہے اور ایشیائی عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے پورے خطے کی ترقی ناگزیر ہے۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ غربت ایک عالمگیر مسئلہ ہے، امریکا، برطانیہ، فرانس جیسے جدید و ترقی یافتہ ممالک میں بھی بے روزگاری و غربت کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں وہاں بھی مزدور طبقہ موجود ہے لیکن یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہاں کی حکومتیں اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کو پہلی ترجیح سمجھتی ہیں، غربت و بے روزگاری کے خاتمے اور تعلیم و صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ٹھوس، جامع اور قابل عمل منصوبہ بندی کرتی ہیں، بیروزگاروں کو وظائف اور مفت طبی و تعلیمی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہاں غربت کی شرح کم ہے، جب کہ پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
یہاں بر سر اقتدار طبقہ عوام کے مسائل سے غافل اور آنکھیں موندے رکھنے کو ترجیح دیتا ہے، ملک کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنانے کے دعویدار جمہوریت کے چیمپئن سیاست دان انتخابی مہمات میں اپنے کروڑوں غریب ووٹروں سے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کرنے کے باوجود اقتدار میں آتے ہی ان کے مسائل کے حل سے غافل ہو جاتے ہیں۔ قائد و علامہ کے فرمودات فراموش کر دیتے ہیں۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی روز افزوں ہے، تعلیمی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث ملک میں غیر ہنر مند افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں 5 کروڑ 50 ہزار افراد مزدور پیشہ ہیں جن میں 80 فی صد مرد اور 20 فی صد خواتین ہیں۔ جب کہ ملک کی 33 فی صد آبادی محنت کشوں پر مشتمل ہے۔
دیگر ملکوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ چین 80 کروڑ 70 لاکھ مزدوروں کے ساتھ سر فہرست ہے جب کہ بھارت 51 کروڑ 64 لاکھ مزدروں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے اور امریکا 15 کروڑ 31 لاکھ کے ساتھ تیسری جب کہ پاکستان 5 کروڑ 50 ہزار کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے۔ عالمی سطح پر 55 کروڑ محنت کشوں کی یومیہ اجرت ایک ڈالر سے بھی کم ہے جب کہ ایک ارب 30 کروڑ محنت کش یومیہ 2 ڈالر سے بھی کم اجرت پر مزدوری کر رہے ہیں اور مزدوروں کی تعداد کا 20 فی صد غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
آئی ایس او کے ریکارڈ کے مطابق دنیا کی کل لیبر فورس کا 60 فی صد مردوں اور 40 فی صد خواتین پر مشتمل ہے اور مزدوروں کی کل تعداد تین ارب 11 کروڑ 17 لاکھ 94 ہزار ہے، ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات تو طے ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ و ترقی پذیر دو ممالک میں مزدوروں و محنت کشوں کی تعداد لاکھوں اور کروڑوں میں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں وطن عزیز میں محنت کشوں کو ''ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات'' والی صورت حال کا سامنا ہے گزشتہ چھ دہائیوں سے بر سر اقتدار طبقے اور قومی وسائل پر قابض قوتوں نے باہمی گٹھ جوڑ سے ایسا نظام رائج کر رکھا ہے کہ غریب آدمی غریب تر اور امیر آدمی امیر تو ہوتا جا رہا ہے۔
اسحاق ڈار صاحب کہتے ہیں کہ یومیہ دو ڈالر کمانے والا (یعنی ماہانہ تقریباً 6 ہزار روپے) غریب شمار کیا جائے جناب والا جب ملک میں دودھ 84 روپے کلو، آٹا 40 روپے کلو، بڑا گوشت 350 روپے کلو، چاول 100 روپے کلو، چینی 60 روپے کلو، دالیں و سبزیاں 100 روپے کلو ملتی ہوں، 5 ہزار روپے مکان کا کرایہ، 3 ہزار روپے بجلی کا بل دینا پڑے، بچوں کی تعلیم، طبی اخراجات، کرایوں اور دیگر اخراجات کی مد میں ہزاروں روپے ماہانہ خرچ کرنا پڑیں تو 2 ڈالر یومیہ کمانے والا غریب مزدور کیسے زندہ رہے گا۔ اس کے پاس صرف دو ہی راستے اول یہ کہ وہ ''عزت'' کے ساتھ خودکشی کر لے یا ''ذلت'' کے ساتھ جرائم کی دنیا میں داخل ہو کر ملک کا امن تہہ و بالا کر دے۔ دو ڈالر کی غربت کا یہی انجام ہوتا ہے۔