پاکستان کی ایک تہائی آبادی اور55 فیصد بچے ذیابیطس کا شکار ہیں ماہرین صحت
اس موذی مرض سے نجات کے لیے ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا، ماہرین کا ایکسپریس کے اشتراک سے منعقدہ سیمینار سے خطاب
ماہرین کا کہنا ہے پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے، ملک کی ایک تہائی آبادی ذیابیطس کا شکار ہے، پاکستان شوگر کے مریضوں کا دارالخلافہ بن چکا ہے۔ اس موذی مرض سے نجات کے لیے ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنے، سادہ غذاؤں کا استعمال اور ایکسرسائز کو معمول بنانا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار نگران صوبائی وزیر صحت پنجاب پروفیسرجاوید اکرم، پروفیسر زمان شیخ، ڈاکٹر صومیہ اقتدار، پروفیسر طارق وسیم، پروفیسرآفتاب محسن، ڈاکٹر امتیاز حسن، ڈاکٹر شہلا اکرم، ڈاکٹر وفا قیصر اور ڈاکٹر نبیل اکبر نے پروفیسر ایم زمان شیخ کے زیرانتظام، پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن، سرسید کالج آف میڈیکل سائنسز اور ایکسپریس میڈیا گروپ کے اشتراک سے لاہور کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ سیمینار میں کیا۔
سیمینار میں شعبہ طب سے دلچسپی رکھنے والے افراد سمیت شہریوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔ ڈاکٹر وفا قیصر نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔ سیمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیرصحت پروفیسر جاوید اکرم نے کہا کہ پاکستان میں چار کروڑ افراد شوگر کے مرض کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
شوگر کو اب موذی امراض کی فہرست میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان شوگر کے مریضوں کا دارالخلافہ بن چکا ہے اور یہ ہمارے لیے کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ شوگر انسانی خون میں شامل ہوکر جسم کے ہر عضو کو متاثر کرتی ہے خاص طور پر بینائی، دل، جگر، گردے متاثر ہوتے ہیں۔ انسان فالج کا شکار ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 55 فیصد بچے ذیابیطس کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ ہمارا طرز زندگی ہے۔ ہم نے سادہ غذا چھوڑ کر فاسٹ فوڈ کا استعمال شروع کردیا، ماڈرن ازم کے نام پر پیدل چلنا ترک کیا، کرکٹ، ہاکی، فٹ بال جیسے کھیلوں کی جگہ ویڈیو گیم کھیلنا شروع کردیے جس کی وجہ سے ہمارا مدافعتی نظام کمزور ہو رہا ہے۔
پروفیسر جاوید اکرم نے کہا کہ پاکستان ایک غریب اور قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک ہے، ذیابیطس کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنے کے لیے حکومت سے پہلے خود ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں کسی بھی سیاسی حکومت نے صحت کے شعبے پر توجہ نہیں دی۔ نگراں حکومت صحت کے شعبے میں بہترین کام کررہی ہے۔ پنجاب میں 57 ارب روپے کی خطیر رقم سے 100 اسپتالوں کی ری ویمپنگ کی جا رہی ہے، شوگر کے 19 سینٹر بنائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شوگر کا علاج بہت مہنگا ہے، 25 ہزار روپے کا ایک انجکشن ہے۔ شوگر کا مرض جس تیزی سے پھیل رہا ہے، اگر پاکستان کا پورا بجٹ بھی اس پر لگا دیں تو اسے مکمل کنٹرول نہیں کرسکتے۔ ڈائیلائسز کے لیے ساڑھے چار لاکھ مشینیں درکار ہیں۔ پرائمری سطح پر ڈائیلائسز فری کر رہے ہیں۔ شوگر کو ایک اچھی بیوی کی طرح کنٹرول میں رکھیں گے تو شوگر کے ساتھ بھی بھرپور زندگی گزاری جاسکتی ہے۔
پروفیسر محمد زمان شیخ نے کہا پاکستان شوگر کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے جبکہ شرح کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔ ایشیا میں چین، بھارت اور پاکستان میں شوگر زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 33 فیصد آبادی شوگر کا شکار ہے۔ ذیابیطس کا شمار ان 10 خطرناک بیماریوں میں ہوتا ہے جن کا اگر علاج نہ کیا جائے تو وہ انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہوجاتی ہیں۔ شوگر کو کنٹرول نہ کیا جائے تو پیچیدگیاں بڑھتی ہیں۔ یہ خاموش قاتل ہے۔ تین، چار سال تک تو مریض کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ شوگر کا شکار ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا اگر کسی شخص کی فیملی میں کسی کو شوگر ہے تو اسے فوراً اپنا ٹیسٹ ضرور کروانا چاہیے۔ ذیابیطس تاحیات ساتھ رہنے والی ایسی طبی حالت ہے جو ہر سال لاکھوں افراد کو ہلاک کرتی ہے اور یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے۔ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم اپنے اندر موجود شکر (گلوکوز) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا۔ اس کی پیچیدگی کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوگر کے مریضوں کے لیے انسولین کے علاوہ اب انجکشن بھی دستیاب ہیں۔ موٹاپے اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ موٹاپا کنٹرول کرکے ٹائپ ٹو ذیابیطس کو ریورس کیا جا سکتا ہے۔ 1921 سے قبل ٹائپ ون ذیابیطس کو موت کا پروانہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب ان مریضوں کے لیے بھی انسولین دستیاب ہے۔
ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ ذیابیطس کے مرض میں پاکستان کا انڈیکس پوری دنیا میں اوپر جا رہا ہے۔ جو لوگ ذیابیطس کی بارڈر لائن پر ہیں وہ تھوڑی سی احتیاط سے خود کو اس خطرے بچا سکتے اور ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر چھٹا شخص پری ڈائبیٹیز کا شکار ہے لیکن اکثریت کو یہ معلوم ہی نہیں ہے۔ 35 سال سے زائد عمر کے افراد کو لازمی اپنا شوگر ٹیسٹ کروانا چاہیے۔ ہر فرد اپنی جنس، عمر، وزن، بلڈ پریشر، فیملی ہسٹری کا جائزہ لیکر پری ڈائبیٹیز رسک کیلکولیٹ کر سکتا ہے۔ معتدل خوراک اور ہفتے میں پانچ دن کم از کم 30 منٹ کی واک کے ذریعے پری ڈائبیٹیز سے بچا سکتا ہے۔
پروفیسر طارق وسیم کا کہنا تھا کہ ذیابیطس کی وجہ سے دل کے امراض کی شرح بڑھ رہی ہے۔ شوگر اور دل کے امراض کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دل سے جڑی چھوٹی، بڑی شریانیں شوگر کی وجہ سے متاثر ہوتی ہیں۔ شوگر کا تدارک اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس میں لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا جو بناتا ہے وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتی ۔ 92 فیصد مریضوں کو ٹائپ ٹو ذیابیطس ہوتی ہے۔ انسولین کی زیادتی کی وجہ سے بھی ٹائپ ٹو ذیابیطس ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کا شکار افراد میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ دل کے پٹھے کمزور ہوجاتے ہیں۔ سانس پھولنے لگتا ہے اور دل کی دھڑکن میں بے قاعدگی آجاتی ہے۔
ڈاکٹر شہلا اکرم نے سیمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا یہ خیال درست نہیں کہ ذیابیطس کے مریض روٹی چھوڑ کر گوشت کا استعمال زیادہ کردیں تو اس مرض سے نجات مل سکتی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو چینی کے علاوہ تمام خوراک اعتدال کے مطابق استعمال کرنی چاہیے۔ تاہم ان کے لیے کھانے کی مقدار اور وقت بہت اہم ہے۔
ڈاکٹر شہلا اکرم نے کہا کہ موٹاپا شوگر کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن جان بوجھ کر معمول سے وزن کم کرنا بھی نقصان دہ ہے۔ ذیابیطس کا شکار افراد کے لیے لائف مینجمنٹ بہت ضروری ہے۔ کھانے کی مقدار کم کریں اور مقررہ وقت پر کھانے کو معمول بنائیں۔ خود کو ٹینشن سے دور رکھیں، اپنی نیند پوری کریں۔ اپنی خوراک کو بدمزہ نہ کریں۔ روزانہ سات سے آٹھ ہزار قدم پیدل چلیں تو ذیابیطس کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر آفتاب حسن نے کہا کہ پاکستان میں فالج اور ہارٹ اٹیک کی بڑھتی ہوئی شرح کی ایک بڑی وجہ ذیابیطس ہے۔ جبکہ شوگر کی بڑی وجہ موٹاپا ہے۔ شوگر کے مریض موٹاپا اور وزن کو بڑھنے سے روکیں، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کریں، ڈائٹ پلان کے مطابق خوراک استعمال کی جائے۔ ایکسرسائز اور فالو اپ چیک اپ لازمی کروانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شوگر کو خود کے ذہن پر سوار مت کریں، خود کو صحت مند اور جوان محسوس کریں۔
ڈاکٹر محمد امتیاز حسن نے کہا کہ شوگر کے مریضوں کو ایسی ادویات اور انجکشن کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف ان کی شوگر کو کنٹرول کرے بلکہ شوگر سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں کو بڑھنے سے روکے۔ بعض اوقات مریض شوگر سے بچاؤ کے لیے ایسی ادویات استعمال کرتے ہیں جو شوگر کو تو کنٹرول کرتی ہیں لیکن دوسری بیماریوں کو بڑھا دیتی ہیں۔ ذیابیطس کنٹرول کرنے کے عام دوائی اور سادہ غذا استعمال کریں۔ کسی ماہر ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ازخود نہ کوئی دوا استعمال کریں اور نہ ہی کسی دوا کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ترک کریں۔
ڈاکٹر نبیل اکرم نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلڈ پریشر اور ذیابیطس محسوس کرنے والی بات نہیں ہے بلکہ اس کا چیک اپ کروانا چاہیے۔ ذیابیطس دل کی چھوٹی بڑی شریانوں کو متاثر کرتی ہے۔ سانس کا پھولنا، تھکاوٹ محسوس کرنا، سینے میں درد محسوس کرنا یہ بہت اہم علامات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شوگر کے مریضوں کے لیے شوگر مینجمنٹ بہت ضروری ہے یعنی کون سی خوراک کس وقت اور کتنی مقدار میں کھانی ہے۔ سگریٹ نوشی شوگر کے خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ دل کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ شوگر کو کنٹرول میں رکھیں۔ عام مریضوں کی نسبت دل کے امراض کا شکار مریضوں میں شوگر زیادہ ہوتی ہے۔
ڈاکٹر اطہر علی نے کہا کہ مردوں کی نسبت خواتین میں شوگر کا رسک چارگنا زیادہ ہوتا ہے، غیر معیاری خوراک اور فاسٹ فوڈ کے استعمال سے شوگر کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ذیابیطس کی وجہ سے جسم کا ہر عضو متاثر ہوتا ہے۔
سیمینار کے آغاز پر اجمل ستار ملک نے بتایا کہ ایکسپریس میڈیا گروپ نہ صرف عوام کو مختلف شعبوں سے جڑی خبروں سے بروقت آگاہ کرتا ہے بلکہ مختلف بیماریوں سے متعلق آگاہی کے لیے ماہرین سے مل کر اس طرح کے سیمینار، مذاکرے اور فورم سجاتا ہے۔
پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ ایکسپریس میڈیا گروپ کی طرف سے مہمانوں کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔ اس موقع پرمعروف فارموسوٹیکل کمپنیوں High-Q، Sanophi، Barett Hodgson، Ferozsons،Martin Dow، Scotmann، Servier اور Macterکی جانب سے عوام الناس کی آگاہی کے لیے اسٹالز بھی لگائے گئے۔