ایک نہ ختم ہونے والی جنگ
فلسطینی مجاہد آج جہاد اور خدا کا نام لے کر اپنے عوام کو اس جارحیت کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دلا رہے ہیں
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے ، حکیم الامت کی طویل نظم کا یہ مصرعہ یاد آیا ہے جو علامہ نے کئی دہائیاں پہلے کہا تھا لیکن اسے آج کے مسلمانوں کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بات اس کے الٹ ہی نظر آتی ہے آج جب مسلمانوں کو یکجان ہو کر طوفان مغرب کے خلاف ڈٹ جانے کی ضرورت ہے تو کوئی ایسا مسلمان ملک دکھائی نہیں دیتا جس نے طوفان مغرب کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی ہو۔ البتہ زبانی جمع خرچ بہت ہے، یہی وجہ کہ آج فلسطین لہو لہو ہے اور اسرائیل درندگی اور بر بریت روکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے مظالم پر مسیحی دنیا بھی سراپا احتجاج ہے۔
ہر روز سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچنے والی اطلاعات کربناک ہیں اور مجھ میں تو اتنی ہمت ہر گز نہیں ہے کہ میں شہداء کے لہو کا نظارہ کر سکوں ۔ کئی ہزار انسان اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن کر شہادت کے مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں لیکن ہزاروں شہادتوں کے بعد بھی فلسطینی بھائیوں کے حوصلے توانا اور بلند ہیں اور وہ اسرائیل کی جارحیت کا جوانمردی سے سامنا کر رہے ہیں ۔کل اگر ان کے ہاتھوں میں غلیل اور پتھر تھے تو آج ان کے پاس جدید ہتھیار ہیں جن سے وہ اسرائیل کے جدید ترین اسلحہ کا مقابلہ کرنے کی مقدرو بھر کوشش کر رہے ہیں۔
عیار امریکی سامراج نے اسرائیل کی جس ڈھٹائی سے حمایت جاری رکھی ہوئی ہے، اس کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں لاکھوں کے اجتماعات ہو رہے ہیں جو علیحدہ ثقافت اور مذہب کے علمبر دار ہیں لیکن ان میں انسایت موجود ہے اور وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسرائیل کی مذمت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں لیکن مجال ہے کہ اسلامی دنیا نے اپنے فلسطینی بھائیوں کی عملی مدد کے لیے ایک قدم بھی بڑھایا ہو۔
آج اسرائیل کی شکل میں ایک طرف امریکا ہے اور دوسری طرف اسلامی ممالک ہیں اور اسرائیل کی حالیہ جارحیت سے ایک تیسری قوت بھی دکھائی دے رہی ہے اور وہ عالم انسانیت ہے جو فلسطین کے مظلوموں کے لیے اشکبار ہے، ہر تہذیب اور مذہب کی آنکھ میں آنسو ہیں اور اسرائیل کو لعن طعن کر رہی ہے اور امریکا کو ملامت۔
امریکا کے پاس سوائے اندھی طاقت کے کچھ بھی نہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ طاقت کسی قوم کو کچھ وقت کے لیے تو مغلوب رکھ سکتی ہے لیکن اسے تباہی سے نہیں بچا سکتی۔ دنیا کی کئی بڑی طاقتوں کا خاتمہ اس پر گواہ ہے کہ آج اپنے وقت کی یہ عظیم قوتیں صرف تاریخ کی کتابوں میں زندہ ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس طاقت کے سوا زندگی کا کوئی قابل عمل اور توانا نظریہ نہیں تھا،صرف طاقت تھی زوال جس کا مقدر ہے۔
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو خود مسلمان بھی ایک بڑی طاقت رہے ہیں، جنگ عظیم سے پہلے تک اپنے دور کی سپر پاور تھے لیکن پھر انھیں ایسا زوال آیا کہ وہ اپنی مقامی آزادی بھی برقرار نہ رکھ سکے اورنئے طاقت ور سامراج کی غلامی میں آگئے مگر اس غلامی میں بھی ان کے پاس ایک نظریہ زندہ رہا جو ایمان تھا، یہ یقین خواہ کتنا ہی کمزور ہو چکا تھا مگر دلوں کے اندر زندہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام زندہ رہا۔
جب سوویت یونین ختم ہوا تو نئے امریکی سامراج نے غلام اور نو آزاد مسلمانوں کو اپنا واحد حریف قرار دے دیا حالانکہ مسلمان کسی بھی پہلو سے امریکا کے مد مقابل نہیں تھے بلکہ وہ تو امریکی سامراج کو باقاعدہ خراج ادا کرتے تھے ،جس کی وجہ سے تما م دولت قرضوں کی مد میں امریکا کے پاس چلی جاتی تھی اور جن ملکوں پر قرضے نہیں تھے ان کے حکمران امریکا کے قبضے میں تھے اور آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے ۔ دنیا کے بیشتر مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی دولت مغربی بینکوں میں محفوظ ہے جب کہ ان کے آبائی وطن دیوالیہ پن تک پہنچ سکے ہیں۔
فلسطینی مجاہد آج جہاد اور خدا کا نام لے کر اپنے عوام کو اس جارحیت کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دلا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی اسلام زندہ ہے اور مسلمان حکمران خاموش ہیں۔
مسلمان حکمرانوں کو اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب مظلوم، محکوم و مجہور فلسطینی بچے اﷲ کے ہاں پیش ہو کر ان کی شکایت کریں گے کہ کس طرح دو ارب مسلمانوں کے حکمرانوں نے ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر اسرائیلی درندوں کے حوالے کر دیا اور وہ شہادت کا بلند رتبہ پا کر اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ماضی کے فرعونوں سے لے کر روسیوں اور اب تازہ ترین امریکا کے نظریات اپنی موت آپ مر رہے ہیں لیکن محکوم اور کمزور مسلمان زندہ رہے اور زندہ رہیں گے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے۔