اسموگ
کوئی وڈیو دیکھ کر افسروں کے تبادلے کرنے سے بھی مسائل حل نہیں ہوسکتے
لاہور ہائی کورٹ کے ایک بنچ نے سموگ کے حوالے سے ایک کیس سنتے ہوئے پنجاب حکومت کو حکم دیا ہے کہ ہفتے میں دو دن چھٹیاں کی جائیں۔
معزز عدالت نے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کو دو دن ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ مجھے بظاہر اس حکم میں کوئی غلطی نظر نہیں آتی ہے۔
اگر لاہور میں سموگ بڑھ رہی ہے تو اس طرح کے اقدامات لیے جانے چاہیے۔ لیکن ایک اہم ترین سوال یہ ہے سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کو کب اور کتنی چھٹیا دی جائیں، یہ انتظامی فیصلے ہوتے ہیں جن کا اختیار حکومت کو حاصل ہوتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ چھٹیاں دینی ہیں یا نہیں یہ کام نظام انصاف کا نہیں ہے۔ چھٹی دینی ہے یا نہیں ، ان امور کا فیصلہ کرنا ایگزیکٹیو کا کام ہے۔ اگر پنجاب خصوصاً لاہور میں سموگ کے باجود حکومت چھٹی نہیں دینا چاہتی تو یہ اس کا اختیار ہے۔ میرے خیال میں سموگ کے حوالے سے چھٹیوں کا فیصلہ جوڈیشل ایکٹوازم کے زمرے میں آتا ہے۔
عدلیہ ایسے فیصلے دینے سے اجتناب کی پالیسی اختیار کرے تو یہ بہتر اقدام ہوگا کیونکہ حکومت کے پاس یہ جواز نہیں ہوگا کہ ہم مجبور ہیں، عدالتی حکم ہے، اس لیے ہم پر کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے کئی فیصلے آئے ہیں لیکن ان کے وہ نتائج نہیں نکلے جو نکلنے کی توقع کی گئی تھی۔
جب ملک میں چینی کی قیمت بہت بڑھ گئی تھی تو تب بھی یہی بات سامنے آئی کہ حکومت نے چینی کی قیمت مقرر کردی تھی لیکن حکومت کے اس فیصلے کے خلاف عدالت کا حکم امتناعی آگیا۔ جس کے بعد شوگر ملز کو چینی کی قیمت سے کھیلنے کا موقع مل گیا۔
یہ حکمت امتناعی بہت عرصہ چلتا رہا اور چینی کی قیمت بڑھتی رہی۔تا دم تحریر اس مقدمے کا فیصلہ محفوظ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مہنگائی اور اس طرح کے دیگر معاملات حکومت کی ذمے داری ہیں، ان حوالوں سے جب عدالت کوئی فیصلہ دیتی ہے یا حکم امتناہی دیتی ہے تو انتظامیہ اپنی ذمے داری سے فارغ ہوجاتی ہے اور سارا ملبہ عدالتی فیصلوں پر ڈالتی ہے اور خود معصوم بن جاتی ہے۔
عدالت حکومت کو کسی معاملے پر ایکشن لینے کی ہدایت کر سکتی ہے۔ انتظامیہ سے رپورٹ طلب کی جاسکتی ہے، سموگ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کر سکتی ہے لیکن یہ کام کیسے کرنا ہے، یہ حکومت کا اختیار ہے۔ اسی مقدمہ میں عدالت نے ڈپٹی کمشنرز کو ہٹانے کی ہدایت بھی کی ہے۔
ویسے تو سرکاری افسروں کی پوسٹنگ، ٹرانسفر وغیرہ حکومت کا اختیار سمجھا جاتا ہے۔ کوئی افسر ٹھیک کام کر رہا ہے یا نہیں، یہ طے کرنا بھی حکومت کا کام سمجھا جاتا ہے۔ عدلیہ کیسے طے کر سکتی ہے کہ کونسا افسر ٹھیک کام کر رہا ہے اور کونسا افسر ٹھیک کام نہیں کر رہا، ممکن ہے، عدلیہ بھی ایسا کرسکتی ہو، تبھی تو ڈپٹی کمشنرز کو ہٹانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اسموگ ختم کرنے اور اسے کم کرنے کے لیے حکومت سے جواب ضرور طلب کیا جانا چاہیے لیکن انتظامیہ کو یہ جواز مہیا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوجائے۔ جوڈیشل ایکٹوازم نے ماضی میں کوئی نیک نامی حاصل نہیں کی ۔
عدلیہ کو اپنے فیصلوں کے ذریعے حکومت کو اس کی ذمے داریوں اور اختیارات کا احساس دلانا چاہیے تاکہ حکومت اور انتظامیہ کو پتہ چل سکے کہ ان سے کہاں غلطی ہورہی ہے، کہاں وہ نااہل ثابت ہورہی ہے اور کہاں وہ اپنی آئینی ذمے داری پوری نہیں کررہی۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کام ہی بند کردے اور جواز عدالتی فیصلے کو بنالے۔
آپ کوئی سڑک بنانے لگیں، آپ کوئی انڈر پاس بنانے لگیں، آپ کوئی کام کرنے لگیں ۔ کوئی ایک شخص یا گروپ درخواست لے کر عدالت چلا جاتا ہے اور وہاں اسٹے آرڈر لے کر آجاتا ہے،کئی بار حکم امتناعی طویل ہوجاتا ہے، ایسے کئی ترقیاتی منصوبے ہیں، جو حکم امتناعی کی وجہ سے رکے رہے اور ان کی لاگت میں اضافہ ہوتا رہا، عدلیہ کے حکم امتناعی کی آڑ لے افسرشاہی کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔
جب پوچھیں، آپ یہ کام کیوں نہیں کرتے تو جواب دیا جاتا ہے کہ عدالت کام نہیں کرنے دیتی۔ بلکہ افسر اب خود کہتے آپ عدالت سے حکم لے آئیں، ہم یہ کام کر دیتے ہیں۔ عدالت کے حکم سے کام پکا ہوجاتا ہے۔ یہ سسٹم کے لیے کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے۔
میں تواس بات کے بھی خلاف ہوں کہ افسروں کو عدالتوں میں طلب کر کے ان کی سرزنش کی جائے۔ بالخصوص اعلیٰ عدلیہ میں افسروں کو بلانے کا رواج ختم ہونا چاہیے۔ حکومت یا متعلقہ سرکاری محکمے کا وکیل موجود ہوتا ہے۔ عدالت ان کے دلائل سن کر فیصلہ کرے۔ جہاں کسی افسر کو بلانا ناگزیر ہو تو اس وقت اسے ضرور طلب کرنا چاہیے۔
کوئی وڈیو دیکھ کر افسروں کے تبادلے کرنے سے بھی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ جج صاحب نے ایل ڈی اے کو ہدایت کی ہے کہ وہ اور معاملات پر بھی توجہ دے ،وہ صرف انڈر پاس بنانے کا ماہر بن گیا ہے۔ عدالت نے جھنگ، فیصل آباد ،گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور دوسرے اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔
میری رائے میں تو کسی افسر کو صرف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا جاسکتی ہے۔ باقی شوکاز جاری کرنا حکومت کا کام ہے۔ یہ کام چیف سیکریٹری کرتا ہے۔ اگر عدالت کی کسی ہدایت پر عمل نہیں ہوا تب بھی چیف سیکریٹری کو ہی ایکشن لینے کا حکم دیا جانا چاہیے۔ اگر توہین عدالت کا بڑا معاملہ ہے تو پھر باقاعدہ توہین عدالت کی کاروائی بنتی ہے ۔