مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم اتحاد
مسلم لیگ ن کے رہنما گزشتہ کئی دنوں سے نئے میثاقِ جمہوریت اور سچائی کمیشن کے قیام کے بیانیہ پر زور دے رہے ہیں
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور مسلم لیگ ن میں ایک دفعہ پھر اتحاد ہوگیا۔ نگراں حکومت نے قانون سازی شروع کردی اور سابقہ پارلیمنٹ کے اراکین کی تجویز کردہ ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز جاری کر دیے۔
سپریم کورٹ کے 8 فروری 2024 کو انتخابات کرانے کے فیصلے کے بعد باقاعدہ سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں 80ء کی دہائی میں کراچی کے سیاسی منظر نامہ میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
کراچی یونیورسٹی میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کی زیادتیوں کا شکار ہونے والے اردو بولنے والے طلبہ کے ایک گروپ نے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنائی، بعد ازاں مہاجر قومی موومنٹ قائم ہوئی۔ سابق طالب علم رہنما اور بانی ایم کیو ایم جو امریکا چلے گئے تھے، واپس آئے اور ایک زوردار مہم شروع ہوئی۔ ان رہنماؤں کا بنیادی بیانیہ پنجاب کی بالادستی کو ختم کرنے کا تھا۔
1987 کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے قطعی اکثریت حاصل کی۔ 1988کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والی جماعت بن گئی۔ ایم کیو ایم نے پہلی دفعہ پیپلز پارٹی سے اتحاد کیا، یوں ایم کیو ایم وفاق اور صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا حصہ بن گئی۔
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان تحریری معاہدہ ہوا مگر کراچی مستقل بد امنی کا شکار رہا۔ معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر طارق سہیل جو پیپلز پارٹی کی جانب سے اس معاہدے پر عملدرآمد کمیٹی میں شامل تھے کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزراء ایم کیو ایم سے کیے گئے معاہدہ پر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔ بہرحال جنرل اسلم بیگ کی سیاسی معاملات میں دلچسپی بڑھ گئی اور ایم کیو ایم پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کر کے مسلم لیگ کے اتحاد کا حصہ بن گئی۔
صدر غلام اسحاق خان نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا تو ملک میں 24 اکتوبر 1990 کو عام انتخابات منعقد ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے تحریک استقلال کے ساتھ مل کر پیپلز ڈیموکریٹک الائنس PDA بنایا۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحادی IJI قائم ہوا، ایم کیو ایم نے آئی جے آئی کی حمایت کی۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ ایم کیو ایم میاں صاحب کی حکومت کا حصہ بنی۔
سندھ میں ڈاکو راج کے خاتمے اور شہروں میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کے خلاف فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز نے آپریشن کیا۔ اس آپریشن کے دوران ایم کیو ایم سے ایک دھڑا آفاق احمد کی قیادت میں علیحدہ ہوا۔ ایم کیو ایم کی قیادت زیرِ زمین چلی گئی۔ میاں نواز شریف کی اس حکومت میں سندھ کے وزیر اعلیٰ پیپلزپارٹی کے منحرف رہنما جام صادق علی بنے۔ جام صاحب نے اس فوجی آپریشن سے پہلے ایم کیو ایم کے قائد کو لندن بھجوا دیا۔
ملک میں 1997 میں عام انتخابات ہوئے، ایم کیو ایم نے پھر مسلم لیگ ن سے اتحاد کیا۔ اس دور میں بھی کراچی شہر مسلسل بد امنی کا شکار رہا۔ حکیم سعید کے قتل کے بعد ایک دفعہ پھر ایم کیو ایم کو ایک اور آپریشن کا سامنا کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم کی قیادت اور منتخب اراکین کوکئی سال سندھ کی مختلف جیلوں میں نظر بند رکھا گیا۔
ایم کیو ایم 2002کے انتخابات کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کی سب سے بڑی اتحادی جماعت بن گئی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی وکلاء کی بحالی کی تحریک کے دوران کراچی میں المناک سانحہ ہوا، اس کی ذمے داری ایم کیو ایم پر عائد ہوئی۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان 2008 کے انتخابات کے بعد ایک معاہدہ ہوا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی، یوں ماضی کی طرح یہ اتحاد بھی ناکام ہوا۔
ایم کیو ایم 2018 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بنی مگر قائد تحریک انصاف ایم کیو ایم کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہ کرسکے۔ پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف علی زرداری کے تیارکردہ نقشہ کے مطابق تحریک انصاف کے وزیر اعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو ایم کیو ایم اس قرارداد کی حمایت پر تیار ہوگئی۔ ایم کیو ایم نے اپنی حمایت کا اعلان کرنے سے پہلے دو معاہدے کیے۔ ایک معاہدہ مسلم لیگ ن سے اور ایک پیپلز پارٹی سے کیا گیا۔
پیپلز پارٹی سے معاہدہ کے ضامن میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن تھے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے معاہدہ میں نئی مردم شماری اور نئے صوبوں کے قیام کی شقیں شامل تھیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدہ میں سندھ پبلک سروس کمیشن کی تشکیلِ نو، انتظامی افسروں میں تقرریوں اور ملازمتوں میں امتیازی پالیسی کا خاتمہ شامل تھا۔ میاں شہباز شریف نے نئی مردم شماری کا وعدہ پورا کیا۔ یہ مردم شماری خاصی دیر سے ہوئی۔ ایم کیو ایم کو مردم شماری کے ابتدائی نتائج پر اعتراض تھا۔
وفاقی حکومت نے کسی حد تک ایم کیو ایم کی اس شکایت کو دورکرنے کی کوشش کی۔ ایم کیو ایم کو حسب روایت پیپلز پارٹی سے معاہدہ پر عمل نہ کرنے کی شکایت ہوئی۔ بعض صحافیوں کا یہ مفروضہ تھا کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت معاہدہ پر عمل کرنے کی خواہش رکھتی ہے مگر سندھ کی قیادت اور سوچتی ہے، بہرحال اس معاہدہ پر کسی حد تک عمل ہوا۔
سندھ پبلک سروس کمیشن کی تشکیلِ نو ہوئی اور ایک نیا بلدیاتی نظام قائم ہوا۔ اس بلدیاتی نظام کی مختلف شاخوں کو اختیارات ملنے کا عمل جاری ہے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے اتفاق رائے کے بارے میں جو حقائق دستیاب ہوئے ہیں، ان سے کسی نئے معاہدے کا پتا نہیں چلتا۔
کراچی میں اس صدی کے دوسرے عشرے سے کئی سیاسی وسماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ تحریک انصاف نے ان انتخابی حلقوں میں قدم جمائے جو ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھے جاتے تھے۔ تحریک انصاف نے ان حلقوں میں بھی پیش قدمی کی جو روایتی طور پر جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کے حلقے تصورکیے جاتے تھے۔ جب ایم کیو ایم مختلف دھڑوں میں بٹ گئی تھی تو مصطفی کمال نے ایک علیحدہ جماعت بنائی۔
ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیو ایم سے فارغ کیا گیا اور ایم کیو ایم لندن کا بیانیہ بالکل مختلف رہا۔ ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کی کوششوں کے باوجود نا تو مسلم لیگ ن کی حکومت اور نا ہی تحریک انصاف کی حکومت انھیں کوئی ریلیف فراہم کرسکی۔ ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنوں کی بازیابی اور دفاتر کو کھولنے کا معاملہ ہنوز التواء کا شکار ہے۔
ایم کیو ایم لندن کا بیانیہ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا ہے۔ اتنی مایوسی کی وجہ سے ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اب ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے انتخابی اتحاد کے بعد جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
کراچی کی ڈیمو گرافی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی بناء پر پیپلز پارٹی اس وقت سب سے اچھی پوزیشن میں ہے۔ ایم کیو ایم جی ڈی اے کے اتحاد میں ہے جس میں جمعیت علماء اسلام بھی شامل ہے، مگر آصف زرداری کی بصیرت کی بناء پر بڑے بڑے الیکٹیبل پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت کی ناقص کارکردگی کے پس منظر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عوام میں بڑی مایوسی ہے۔
اتحادی حکومت کی ناقص کارکردگی کا بوجھ ایم کیو ایم کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ ایم کیو ایم کا مسلم لیگ ن سے اتحاد غیر فطری قرار دیا جاسکتا ہے، اگر ایم کیو ایم علیحدہ انتخابات میں حصہ لیتی تو حالات زیادہ موافق ہوتے۔ اتحاد کے اعلان کے لیے میاں نواز شریف خود اخباری نمایندوں کے ساتھ نہیں آئے بلکہ خواجہ سعد رفیق کو بھیج دیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما گزشتہ کئی دنوں سے نئے میثاقِ جمہوریت اور سچائی کمیشن کے قیام کے بیانیہ پر زور دے رہے ہیں مگر ایم کیو ایم سے اتحاد کے اس اعلامیے میں سے یہ دونوں نکات غائب ہیں، یوں سویلین سپرمیسی کا معاملہ بھی کہیں نظر نہیں آیا۔ اس حقیقت کو سندھ میں سیاست کرنے والے تمام سیاسی جماعتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ کراچی کا مستقبل سندھ سے وابستہ ہے، اگر پیپلز پارٹی اپنی امتیازی پالیسیوں کو تبدیل کرے تو سندھ ماڈل صوبہ بن سکتا ہے۔